اسلام آباد(آن لائن+صباح نیوز)چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ سیاسی جماعتوں میں بھی جمہوریت نظر نہیں آتی ، سیاسی جماعتوں کو بھی اپنے اندر جمہوری رویے اپنانے چاہییں،سیاسی جماعت کے سربراہ کو بھی ڈکٹیٹر نہیں ہونا چاہیے ،پاکستان میں تو ایسی سیاسی جماعتیں بھی ہیں جو ایک بندے پر مبنی ہیں،ایسے سیاستدان بھی ہیں جو کہتے رہے کہ ضمیر کے خلاف ووٹ ڈالا،یہ بھی دیکھنا ہے کہ کرپٹ پریکٹس سے ایوان بالاگدلا ہوا تو کیا ہو گاجب کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ ملک میںمیڈیا آزاد نہیں‘ملک کو منظم طریقے سے تباہ کیا جارہا ہے ‘حکومتی مخالف غدار اور حامی محب وطن قرار پاتا ہے ۔ تفصیلات کے مطابق جمعرات کو چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں5رکنی لارجر بینچ نے سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے کرانے سے متعلق دائر صدارتی ریفرنس پر سماعت کی ۔دوران سماعت اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے دلائل دیے کہ عدالتی فیصلوں کے تحت آئینی ترمیم کو بھی بنیادی ڈھانچے کے اصول پر پرکھا جا سکتا ہے ،اگر دیکھا جائے تو آرٹیکل 226 آئین کے بنیادی ڈھانچے سے متصادم ہے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ آپ آئین سے ہم آہنگ تشریح کی بات کریں ایک آئینی شق پر دوسری کو نہ پرکھیں، اٹارنی جنرل صاحب آپ مشکل صورت حال میں کیوں جا رہے ہیں،18ویں ترمیم 2010ء میں کی گئی کئی انتخابی اصلاحات بھی تھیں،مقننہ نے کیا جان بوجھ کر آرٹیکل 59 سے صرف نظر کیا ،قانون سازوں کے ذہن میں ہو گا کہ اس کو نہ چھیڑا جائے اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے،قومی اسمبلی میں ایک سیاسی طوفان ہوتا ہے جب کہ سینیٹ سنجیدہ و میچور ایوان ہوتاہے ،سینیٹ کو میچورٹی کے باعث اپنے طور پر عمل کرنا ہے اور اس کے لیے سیکریسی اہم ہے،ایوان بالا وفاق کی اکائیوں کی منشاء ہے اس لیے وہاں مساوی نمائندگی ہے۔ جس پر اٹارنی جنرل نے موقف اپنایا کہ اس کی 2 وجوہات ہو سکتی ہیں پہلی یہ کہ ضرورت نا سمجھی گئی ہو اور دوسری یہ کہ سیاسی ارادے کی کمی ہو پارلیمنٹ کا استحقاق ہے کہ وہ کچھ کرے یا نہ کرے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سیاسی جماعتوں میں بھی جمہوریت نظر نہیں آتی،سیاسی جماعتوں کو بھی اپنے اندر جمہوری رویے اپنانا چاہیں ،سیاسی جماعت کے سربراہ کو بھی ڈکٹیٹر نہیں ہونا چاہیے ،پاکستان میں تو ایسی سیاسی جماعتیں بھی ہیں جو ایک بندے پر مبنی ہیں،ایسے سیاستدان بھی ہیں جو کہتے رہے کہ ضمیر کے خلاف ووٹ ڈالا،یہ بھی دیکھنا ہے کہ کرپٹ پریکٹس سے ایوان بالاگدلا ہوا تو کیا ہو گا ۔اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ سینیٹ قانون سازی کا ادارہ ہے ایم پی اے پارٹی ٹکٹ پر آتاہے،ایم پی اے کو پارٹی لائن پر ووٹ دینا چاہیے ،عوام کے سامنے سیاسی جماعت ہی جواب دہ ہوتی ہے ،غیر منتخب4افراد فیصلہ کرتے ہیں کہ وزیر اعظم چیئرمین سینیٹ اور اسپیکر کون ہوگا۔عدالت عظمیٰ نے کیس کی مزید سماعت آئندہ پیر تک ملتوی کر دی۔ علاوہ ازیں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے 2 رکنی بینچ نے ملک میں بلدیاتی انتخابات سے متعلق کیس کی سماعت کی۔الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پنجاب،خیبر پختونخوا اور کنٹونمنٹ بورڈزمیں بلدیاتی انتخابات کی تاریخوں کے بارے میںعدالت عظمیٰ کو آگاہ کر دیا۔الیکشن کمیشن کی جانب سے عدالت عظمیٰ میں جمع کرائے گئے جواب میں کہا گیا کہ خیبر پختونخوا میں مرحلہ وار انتخابات ہوں گے، پہلے مرحلے میں 8 اپریل کو بلدیاتی انتخابات ہوں گے، دوسرے مرحلے میں 29 مئی کو انتخابات ہوں گے، پہلے مرحلے کا اعلان 12 فروری اور دوسرے مرحلے کا اعلان 25 مارچ کو کیا جائے گا۔جواب کے مطابق پنجاب میں 3 مراحل میں انتخابات کرانے کا فیصلہ کیا ہے،پہلے مرحلے میں 20 جون کو بلدیاتی انتخابات ہوں گے،دوسرے مرحلے میں 16 جولائی اور تیسرے مرحلے میں 8 اگست کو بلدیاتی انتخابات ہوں گے،پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کا اعلان بھی مرحلہ وار کیا جائے گا، پہلے مرحلے کا اعلان12 اپریل،دوسرے مرحلے کا 18 مئی اور تیسرے مرحلے کا اعلان 2 جون کو کیا جائے گا۔الیکشن کمیشن کے مطابق کنٹونمنٹ بورڈز میں بلدیاتی انتخابات اپریل اورمئی میں ہوں گے، کنٹونمنٹ بورڈز میں انتخابات کے پہلے مرحلے کا اعلان 12 فروری کو ہو گا جبکہ دوسرے مرحلے کا اعلان25مارچ کو ہو گا۔جواب میں بتایا گیا کہ عدالت عظمیٰ کی ہدایت کی روشنی میں الیکشن کمیشن کے2 اجلاس ہوئے جس میں چاروں صوبوں، اسلام آباد اور کنٹونمنٹ بورڈز میں بلدیاتی انتخابات کے معاملات زیر غور آ ئے۔ الیکشن کمیشن نے دونوں اجلاسوں کے منٹس بھی عدالت میں جمع کرا دیے ، جس کے مطابق سندھ اور بلوچستان میں بلدیاتی انتخابات کا فیصلہ 11فروری کو ہو گا۔ دوران سماعت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ وفاقی حکومت بلدیاتی انتخابات کی ذمے داری الیکشن کمیشن پر ڈال رہی ہے۔اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ مردم شماری 2017ء میں ہوئی لیکن ابھی تک حتمی نوٹی فکیشن جاری نہ ہوسکا، مردم شماری پر سندھ اور دیگر کے اعتراضات ہیں، جن پر وفاقی حکومت نے کمیٹی بنادی،سندھ میں5فیصد بلاکس پر دوبارہ مردم شماری کرائی جائے گی۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ کیا سندھ کا اعتراض آبادی کم ہونے کا تھا،2017ء سے 2021ء تک مردم شماری پر فیصلہ نہ ہوسکا، کیا پاکستان کو اس طرح سے چلایا جارہا ہے ،یہ تو روزانہ کے معاملات ہیں،کیا وزیراعظم نے مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس بلایا ۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ پنجاب حکومت نے بلدیاتی ادارے تحلیل کرکے جمہوریت کا قتل کردیا، بلدیاتی انتخابات آئینی تقاضا ہیں، بلدیاتی انتخابات کی بات ہو تو صوبے اپنے مسائل گنوانا شروع کردیتے ہیں،کیا ملک میں پہلی مرتبہ انتخابات ہو رہے ہیں جو اتنے مسائل بتا رہے ہیں۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب سے استفسار کیا کہ پنجاب حکومت نے بلدیاتی ادارے کیوں تحلیل کیے، کوئی وجہ تو ہوگی، اداروں کو اپنی مدت پوری کرنی چاہیے،کیا پنجاب حکومت نے لوکل گورنمنٹ ختم کرکے بیک ڈور مارشل لا لگایا، مارشل لا کے دور میں تو ایسا ہوتا تھا لیکن جمہوریت میں ایسا کبھی نہیں سنا، کیا پنجاب لوکل گورنمنٹ ختم کرنے کا موڈ بن گیا تھا؟ عدالت کے ساتھ گیم مت کھیلیں، الیکشن کمیشن نے تو پنجاب میں بلدیاتی حکومت کو ختم کرنا غیر قانونی قرار دیا، ایڈووکیٹ جنرل آفس بتائے کیا پنجاب میں بلدیاتی حکومت ختم کرنا قانون کے مطابق ہے۔ عدالتی سوالات پر ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے مسکراتے ہوئے کہا کہ عدالت کے اس سوال کا جواب دینا ممکن نہیں۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہر مخالف غدار اور حکومتی حمایت کرنے والا محب وطن بتایا جا رہا ہے،بلدیاتی حکومت کو ختم کر کے پنجاب حکومت نے واضح آئین کی خلاف ورزی کی، ایسے تو اپنی مرضی کی حکومت آنے تک آپ حکومتوں کو ختم کرتے رہیں گے، ملک جمہوریت کے لیے بنایاتھا، جمہوریت کھوئی تو آ دھا ملک بھی گیا، میڈیا والے پٹ رہے ہیں، ہمیں نہیں پتا کس نے کس کو اٹھا لیا۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کمرہ عدالت میں موجود صحافیوں سے غیر معمولی سوال کیا کہ جو صحافی سمجھتے ہیں پاکستان میں میڈیا آزاد ہے وہ ہاتھ کھڑا کریں،جس پر ایک صحافی نے بھی ہاتھ نہ اٹھایا ۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ مجھے یہ کہنے میں عار نہیں کہ میڈیا آزاد نہیں،ملک میں کیسے میڈیا کو کنٹرول کیا جا رہا ہے اور کیسے اصل صحافیوں کو باہر پھینکا جا رہا ہے، ملک کو منظم طریقے کے تحت تباہ کیا جا رہا ہے، جب میڈیا تباہ ہوتا ہے تو ملک تباہ ہوتا ہے۔جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ ججز کو ایسی گفتگو سے احتراز کرنا چاہیے لیکن کیا کریں ملک میں آئیڈیل صورتحال نہیں، کب تک خاموش رہیں گے ۔