کراچی کے تعلیم یافتہ نوجوان اور بیرا گیری ـ جاویداحمد خان

427

یہ 1984کی بات ہے جب راقم بلدیہ کراچی کا کونسلر تھا میں محلے میں اپنے دفتر میں بیٹھا تھا کے محلے کا ایک نوجوان جو ایک دوست کا بیٹا تھا شدید غصے میں آیا اور اس نے کہا کہ جاوید صاحب میں کل سے ہیروئن بیچنا شروع کررہا ہوں، اس نے گریجویشن فرسٹ کلاس میں پاس کیا تھا، اس کو کوئی ملازمت نہیں مل پا رہی تھی، میں بھی اس کے لیے کوشش کررہا تھا۔ وہ نوجوان دن بھر دفاتر کے یا جہاں کوئی جاننے والے کا پتا چلتا کہ اس سے کچھ کام بن جائے گا وہ ان کے پاس بھی چلا جاتا دن بھر کی ناکام کوششوں کے بعد جب وہ گھر واپس آتا گھر والے بالخصوص والد صاحب کی ڈانٹ ڈپٹ سنتا کہ کمبخت کہیں جاتا نہیں ایسے ہی مٹر گشت کرتا رہتا ہے تینوں وقت کھانے کو جو مل جاتا ہے۔

ایک دفعہ وہ مجھ سے کہنے لگا کہ جب گھر والے مجھے باتیں سناتے ہیں تو میرا دل چاہتا ہے کہ میں خود کشی کرلوں۔ میں اسے سمجھاتا کہ بھیا ایسا سوچنا بھی گناہ ہے تم اپنی جدوجہد جاری رکھو اللہ میاں کے یہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔ پھر میں کہتا کہ دیکھو روزگار کہ معاملے کا قسمت سے بھی تعلق ہے ان شاء اللہ تمہارا جلد ہی کہیں نہ کہیں ہو ہی جائے گا۔ پھر میں نے اس کو اس ایک نوجوان کی مثال دی جسے یہ خود میرے پاس لے کر آیا تھا جاوید بھائی محکمہ پارکس میں کچھ مالیوں کی جگہیں نکلی ہیں اسی لڑکے نے مجھے بتایا ہے آپ اس کی درخواست پر افغانی صاحب سے لکھوادیں ہو سکتا ہے اس کا کام بن جائے۔

میں نے اس نوجوان سے درخواست لے لی اور دوسرے دن میئر افغانی صاحب سے لکھوا کر لادیا۔ میئر افغانی صاحب ہر کونسلر کی طرف سے دی ہوئی درخواست پر ایک ہی جملہ لکھتے تھے۔ Appoint him if there is any vacancy یہی جملہ اس بچے کی درخواست پر بھی لکھوا کر لایا تھا پھر میں نے اس نوجوان کو ڈائریکٹر پارک کے نام ایک سفارشی چٹ بھی لکھ کر دے دی۔ اس نوجوان کا کام ہو گیا اس نے بتایا کہ میں نے جب اپنی درخواست ڈائریکٹر پارک کو دی تو 9درخواستیں ان کے پاس پہلے سے موجودتھیں، اس نے پورے دس امیدواروں کو اپنے کمرے میں بلایا اور ہم سب سے کہا کہ میرے پاس مالیوں کی صرف 4 اسامیاں خالی ہیں اور آپ 10امیدوار ہیں سب کی درخوستوں پر میئر افغانی صاحب نے سفارش لکھی ہوئی ہے پھر مالیوں کے لیے کوئی خاص Requirmentبھی نہیں ہے۔ میری نظر میں آپ سب لوگ اس منصب کے اہل ہیں اور آپ میں سے ہر فرد کسی نہ کسی کونسلر کے توسط سے آیا ہے وہ سب بھی میرے لیے محترم ہیں۔ پھر ڈائریکٹر پارک نے کہا کہ اسلامی طریقہ یہ ہے کہ جب برابر کے معاملات ہوں تو قرعہ اندازی کرلینا چاہیے تمام امیدواران راضی ہو گئے پھر پہلے سے ان کے پاس ایک بزرگ بیٹھے ہوئے تھے ہم سب نے کہا کہ ان بزرگوار سے پرچیاں اُٹھوالیں، پھر ان بزرگ نے باری باری چار پرچیاں اٹھا لیں، پھر اس نے بتایا کہ پہلی پرچی میرے نام کی نکلی۔ پھر میں نے اس نوجوان جس کا نام احسن تھا کہا کہ ایک دن تم اس لڑکے کو میرے پاس لائے دوسرے دن اس کی درخواست پر میں افغانی صاحب سے لکھوا کر لے آیا تیسرے دن اس کو ملازمت مل گئی، میں نے اس کو مشورہ دیا کہ ملازمت نہیں مل رہی تو کسی چھوٹے موٹے کاروبار کا پلان بنا لو ہو سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس میں برکت عطا فرما دے۔ بہت دن سے وہ نوجوان جو پہلے روز ہمارے پاس آتا تھا نہیں آیا تو میں نے کسی سے اس کا معلوم کیا تو پتا چلا کہ اس نے کوئی چھوٹے پیمانے پر کاروبار شروع کردیا ہے وہ اس میں مصروف ہے آج وہ بہت اچھی پوزیشن میں ہے۔

یہ 1984کی بات ہے آج 2021 ہے 37سال قبل جب روزگار کی یہ صورت حال تھی تو آج کیا حال ہوگا۔ کراچی میں آبادی میں اضافہ غیر فطری رفتار سے ہوا ہے کہ پورے ملک سے لوگ روزگار کی تلاش میں اس شہر میں آئے اور پھر یہیں کے ہو کر رہ گئے۔ آج کل آپ نے دیکھا ہوگا کہ ہر محلے میں ہمارے پختون بھائیوں نے روٹی کے تندور کھولے ہیں ایک دکان میں کم از کم 6افراد کام کرتے ہیں اب اگر ہم فرض کرلیں کہ پورے شہر میں 2ہزار تندور ہوں گے اس طرح 12ہزار افراد روزگار سے لگ گئے۔ اسی طرح جگہ جگہ چائے اور پراٹھے کے ہوٹل بھی ہمارے پختون بھائی کھول رہے ہیں،اس کا بھی اگر حساب لگایا جائے تو کم از کم 50ہزار افراد اس شعبے میں برسر روزگار ہوں گے،اس تفصیل کی وجہ یہ بتانا مقصود ہے کہ ان ہی وجوہات کی بنیاد پر کراچی کی آبادی تین کروڑ بتائی جاتی ہے جس کو مردم شماری میں ڈیڑھ کروڑ بتایا گیا ہے۔ کراچی میں پشاور سے زیادہ پختون بھائی ہیں، مردم شماری کے حوالے سے پی پی پی ڈبل گیم کھیل رہی ہے۔ ایک طرف تو وہ اس کی مخالفت کررہی ہے لیکن وہ اس خوف کا بھی شکار ہے کہ اگر دوبارہ مردم شماری میں صحیح تعداد آگئی تو اس سے قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستیں شہری علاقوں میں بڑھ جائیں گی اور دیہات میں کم ہو جائیں گی جس سے پی پی پی کو سیاسی نقصان ہو سکتا ہے۔ روزنامہ دنیا میں ایک تجزیہ نگار منیر بلوچ نے23جنوری کو مردم شماری کے موضوع پر ایک آرٹیکل میں لکھا ہے کہ 2017کی مردم شماری سے پہلے ملک میں جتنی بھی مردم شماری ہوئی ہے اس میں سندھ کے چھوٹے شہروں کی آبادی 300 سے 400 فی صد تک زیادہ بتائی جبکہ کراچی کی آبادی میں صرف 59 فی صد اضافہ بتایا گیا ہے جبکہ صورت حال یہ کہ جس طرح ملک کے دیگر صوبوں سے لوگ کراچی منتقل ہوتے ہیں اسی طرح اندرون سندھ سے بھی لوگ کراچی منتقل ہو تے ہیں لیکن مردم شماری میں کراچی کی آبادی کم دکھائی جاتی ہے وجہ اس کی ہم پہلے لکھ چکے ہیں۔

اس وقت کراچی کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کی صورت حال انتہائی تشویشناک ہے موجودہ صوبائی اور مرکزی حکومت نے اپنے اپنے سرکاری اداروں میں کراچی کے نوجوانوںکے لیے ملازمت پر پابندی عائد کردی ہے۔ کراچی کے سرکاری اداروں میںجتنی بھی ملازمتوں کی اسامیاںنکلتی ہیں۔ کراچی کے لیے اس میں کوئی جگہ نہیں ہوتی۔ وزیر اعظم عمران خان جنہیں کراچی سے 14قومی اسمبلی کی نشستیں ملی ہیں وہ بھی اس شہر کے نوجوانوں کے ملازمت جیسے سلگتے مسائل کو نظر انداز کررہے ہیں، ہم یہ دیکھتے ہیں کراچی کے پڑھے لکھے نوجوان آن لائن کاروبار میں گھروں پر اشیا پہنچانے یا فوڈ پانڈا یا کسی معروف ہوٹل میں آرڈر پر گھروں پر کھانا پہنچانے کا کام کررہے ہیں جس دن کوئی آرڈر نہیں ملتا تو ہوٹل مالکان ان سے بیرا گیری کا کام لیتے ہیں، انکار کی صورت میں انہیں نکال دیا جاتا ہے۔

ہمیں افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس شہر کے باسیوں نے ہر انتخاب میںایم کیو ایم کو جھولی بھر کہ ووٹ اور نوٹ دونوں دیے لیکن ایم کیو ایم سنجیدگی سے سندھ کے شہری نوجوانوں کے ملازمت اور داخلوں کے مسائل حل کرنے کے بجائے بھتا گیری، بوری بند لاشوں کے چکر میں مصروف رہی اور ساری توجہ اس چیز پر مرکوز ہو گئی کہ زیادہ سے زیادہ پیسہ جمع کرکے لندن پہنچایا جائے، پھر وہ پیسہ لندن والے کے پاس بھی نہیں رہ سکا۔ جس طرح بھٹو صاحب نے کوٹا سسٹم کو آئین کا حصہ بنایا تھا، اسی طرح ہر انتخاب کے بعد پی پی پی یا (ن) لیگ کو حکومت سازی کے لیے ایم کیو ایم کی ضرورت پڑتی اور وہ نائن زیرو کا چکر لگاتے ان سے ایم کیو ایم یہ مطالبہ کرسکتی تھی آئینی ترمیم کے ذریعے کراچی کے نوجوانوںکی گردن سے کوٹا سسٹم کا طوق ہٹایا جائے اور کراچی کے نوجوانوں کے ان سے دیگر مطالبات بھی منوائے جاسکتے تھے۔ افسوس ایسا نہ ہو سکا ہم سمجھتے ہیں کہ کراچی کے نوجوان جو آج بیرا گیری پر مجبور ہوئے ہیں اس کی ذمے دار پی پی پی اور ایم کیو ایم دونوں ہیں۔