کراچی (رپورٹ: منیر عقیل انصاری) 72 برس سے مقیم مارٹن کوارٹر کے رہائشی اب تک مالکانہ حقوق سے محروم ہے۔ ان آبادیوں میں اب تیسری نسل رہائش پذیر ہے۔ 1947ء سے لے کر آج تک مختلف ادوار میں آنے والی حکومتوں نے ان کوارٹرز کے مکینوں کو مالکانہ حقوق دینے کے لیے عملی طور پر کوئی اقدامات نہیں کیے ہیں۔ موجودہ حکومت بھی سابقہ حکومتوں سے بڑھ کر مارٹن کوارٹر کے رہائشیوں سمیت دیگر کوارٹرز کے رہائشیوں کو بے دخل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ ان خیالات کا اظہار جماعت اسلامی کے رہنما و جمشید ٹاؤن یونین کونسل 13 کے سابق نائب ناظم کلیم الحق عثمانی، گرینڈ الائنس کے صدر شکیل احمد گجر،سینئر نائب صدر سیف اللہ خان،جنرل سیکرٹری محمد رضوان اور پاکستان کوارٹر کے رہا ئشی فہیم اللہ خان نے جسارت سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے کیا۔ انہوںنے کہا کہ ہم کراچی کے وارث ہیں ہمارے گھروں میں پاکستان بنانے والوں کی اولادیں رہتی ہیں اپنے آباؤ اجداد کی قبریں چھوڑ کر ہم لوگ پاکستان کے لیے آئے تھے جس کے عوض انہیں یہ دو کمروں کا گھر دیا گیا تھا جہاں ہماری تین نسلیں جوان ہو چکی ہیں، انصاف کا تقاضا ہے کہ سابقہ اعلانات اور حقائق کی روشنی میں کوارٹرز کے رہائشی سرکاری ملازمین کو مالکان حقوق دیے جائیں۔ پاکستان کوارٹرز کے رہائشیوں نے کہا کہ ہمارے پاس گھروں کے سرٹیفکیٹس موجود ہیں۔ مارٹن کوارٹرز سمیت دیگر کوارٹرز کو مکینوں کو 1970ء سے راگ دیا جا رہا ہے کہ ان کو اسی جگہ آبادرکھا جائے گا، علاقہ مکینوںنے کہا کہ پاکستان بنانے میںہم نے اہم کردار ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم پاکستان ایک طرف 50 لاکھ گھر بنانے کی بات کر رہے ہیں اوردوسری طرف لوگوں سے آشیانے خالی کرائے جا رہے ہیں۔ وفاقی حکومت مارٹن کوارٹرز ،کلیٹن کوارٹرز ، جہانگیر روڈ اور پاکستان کوارٹرز کے لاکھوں مکینوں کو مالکانہ حقوق فراہم کرے۔ انہوں نے کہا کہ جب سابق وفاقی وزیر نے مالکانہ حقوق دینے کا اعلان کیا تو مکینوں نے ایک سے ڈیڑھ برس کے دوران مکانات کی تزئین و تعمیر نو پر مجموعی طور پر کروڑوں روپے خرچ کیے، جو ہماری برسوں کی جمع پونجی تھی۔ ہم 72 برس سے یہاں مقیم ہیں اور ہمیں در بدر کرنے کے منصوبے پر کام جاری ہے۔ ہم تقریباً ڈیڑھ لاکھ لوگ ہیں، جو حکومتی فیصلے سے بے گھر ہو جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے 2006ء میں اس بنیاد پر مالکانہ حقوق دینے کا اعلان کیا کہ مکین کافی عرصے سے رہ رہے ہیں۔ اس وقت کے وفاقی وزیر نے اسٹیٹ آفس سے تمام مکینوں کو ایک سرٹیفکیٹ بھی جاری کرایاتھا ۔پاکستان کوارٹر کے ایک مکین فہیم اللہ خان کا کہنا تھا کہ یہ اراضی سرکاری ملازمین کو کرائے پر دی گئی جو پاکستان کی بیوروکریسی چلانے کے لیے قائد اعظم کی اپیل پر ہجرت کرکے آئے تھے، انہوں نے کہا کہ مارٹن کوارٹرز سمیت دیگر کوارٹرز کی اراضی پی ڈبلیو ڈی کی ملکیت مان بھی لی جائے، تب بھی اس معاملے کو سندھ حکومت کے ذریعے حل ہونا چاہیے۔ مکینوں کا کہنا تھا کہ یہ محض پاکستان کوارٹرز اور مارٹن کوارٹر خالی کرانے کا مسئلہ نہیں۔ یہ 80 ایکڑ قیمتی اراضی پر قبضے کی پلاننگ ہے،تحریک انصا ف کے ایم این اے اور ایم پی اے مارٹن کوارٹر کے رہائشیوں کو گھر خالی کروانے کے لیے بھاری رشوت کے عوض ان کو اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ذریعے نوٹسز بھیج رہے ہیں۔ مارٹن کوارٹر کے رہائشیوں نے کہا کہ ہم حکومت کو 25 ہزار روپے فی گز کے حساب سے دینا چاہتے ہیں تا کہ ہمیں مالکانہ حقوق مل سکیں لیکن حکومت ہماری باتیں سننے کے بجائے بلڈرز کی سن رہی ہے اور ان کو فروخت کرنے کے کوشش میں لگے ہوئے ہے جو ہم کسی صورت نہیں ہونے دیں گے۔ ایسی تبدیلی نہیں چاہیے ہم نے اس لیے ووٹ نہیں دیا تھا کہ گھروں سے نکال دیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ 2002ء میں موجودہ وزیراعظم نے بھی کہا تھا کہ اگر ہماری حکومت آئی تو میں یہاں کے مکینوں کو مالکانہ حقوق دوں گا،اسی طرح پاکستان تحریک انصاف کے ایم این اے ڈاکٹر عامر لیاقت حسین نے الیکشن سے قبل اپنی الیکشن مہم مارٹن کوارٹر کے مکینوں کو مالکانہ حقوق دینے کے وعدے کے ساتھ چلائی تھی لیکن منتخب ہونے کے بعد انہوں چپ سادھ لی ہے۔ ہمیں امید ہے کہ نئی حکومت مارٹن کوارٹر کے مکینوں سے کیے ہوئے وعدے پر عمل کرتے ہوئے ہمارے حق میں درست اقدام اٹھائے گی اور کم قیمت پر یہاں کے مکینوں کو مالکان حقوق دے گی کیوں کہ یہاں کے مکینوں کو فلیٹس کا منصوبہ قبول نہیں ہے۔