افکار سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ

257

اسلامی حکومت
غیر اسلامی حکومت میں حکمران گروہ اپنی خداوندی قائم کرتا ہے اور اپنی ذات کے لیے ملک کے وسائل و ذرائع استعمال کرتا ہے۔ بخلاف اس کے اسلامی حکومت میں حکمراں گروہ مجرد خدمت کرتا ہے اور عام باشندوں سے بڑھ کر اپنی ذات کے لیے کچھ حاصل نہیں کرتا۔ اسلامی حکومت کی سول سروس کو جو تنخواہیں ملتی تھیں، ان کا تقابل آج کل یا خود اس دور کی امپیریلسٹ طاقتوں کی سول سروس کے مشاہروں سے کرکے دیکھیے۔ آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ اسلام کی جہاں کشائی اور امپیریل ازم کی عالمگیری میں روحی و جوہری فرق ہے۔ اسلامی حکومت میں خراسان، عراق، شام اور مصر کے گورنروں کی تنخواہیں، آپ کے معمولی انسپکٹروں کی تنخواہوں سے بھی کم تھیں۔ خلیفۂ اوّل سیدنا ابوبکر صدیقؓ صرف سو روپے مہینہ کی تنخواہ پر اتنی بڑی سلطنت کا انتظام کرتے تھے اور سیدنا عمرؓ کی تنخواہ ڈیڑھ سو روپے سے زیادہ نہ تھی، دراں حالے کہ بیت المال دنیا کی دو عظیم الشان سلطنتوں کے خزانوں سے بھرپور ہو رہا تھا۔ (جہاد فی سبیل اللہ)
٭…٭…٭
انسانیت کا مسئلہ
سیدنا محمدؐ نے مخصوص قوموں اور ملکوں کے وقتی (Bound Time) اور مقامی (Local) مسائل سے بحث کرنے میں اپنا وقت ضائع (Waste) نہیں کیا بلکہ اپنی پوری قوت دنیا میں انسانیت کے اس بڑے مسئلے کو حل کرنے میں صرف (Use) کردی جس سے تمام انسانوں کے سارے چھوٹے چھوٹے مسائل خود حل ہوجاتے ہیں۔ وہ بڑا مسئلہ (Issue) کیا ہے؟ وہ صرف یہ ہے کہ:
’’کائنات (Univers) کا نظام (System) فی الواقع (Actually) جس اصول پر قائم ہے، انسان کی زندگی کا نظام بھی اسی کے مطابق ہو، کیونکہ انسان اس کائنات کا ایک جز (Element) ہے اور جز کی حرکت (Movement) کا کل (Entirety) کے خلاف ہونا ہی خرابی کا موجب (Result) ہے‘‘۔ (سیرت سرور عالمؐ)
٭…٭…٭
قانون یک زوجی
دنیا میں جہاں بھی قانونی یک زوجی (Monogamy Legal) رائج کی گئی ہے وہاں غیرقانونی تعدد ازواج (Polygamy Illegal) کو فروغ نصیب ہو کر رہا ہے۔ آپ کوئی مثال ایسی پیش نہیں کر سکتے کہ قانونی یک زوجی نے کہیں کسی زمانے میں بھی عملی یک زوجی کی شکل اختیار کی ہو۔ اس کے برعکس اس قانونی پابندی کا نتیجہ ہر جگہ یہی ہوا ہے کہ آدمی کی جائز بیوی تو صرف ایک ہوتی ہے، مگر حدودِ نکاح سے باہر وہ عورتوں کی غیرمحدود تعداد سے عارضی اور مستقل، ہر طرح کے ناجائز تعلقات پیدا کرتا ہے، جن کی کوئی ذمے داری وہ قبول نہیں کرتا، جن کے کئی حقوق اس پر عائد نہیں ہوتے‘ جن سے پیدا ہونے والی ناجائز اولاد سے بھی وہ بالکل بری الذمہ ہوتا ہے۔ اب آپ کے سامنے اصل مسئلہ یہ نہیں ہے کہ آپ یک زوجی کو اختیار کریں یا تعددِ ازواج کو۔ بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ آپ قانونی تعددِ ازواج کو قبول فرماتے ہیں یا غیرقانونی تعددِ ازواج کو؟ (مسئلہ تعدّد ازواج)