بجلی کا بر یک ڈائون اور ہما رے رویے

664

یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ماہِ رواں کی نو اور دس تاریخ کی درمیانی شب پورے ملک میں جو پاور بریک ڈائون ہوا، اس کے حقائق سے قوم کو کوئی آگہی نصیب ہوئی اور نہ بجلی کے خالص ٹیکنیکل معاملات اور خرابیوں پر ماہرین کے پینل نے بریک ڈائون کے حوالے سے حقائق پر چشم کشا باتیں بتائیں اور نہ اس طویل دورانیے پر مبنی پاور بریک ڈائون پر اندھیرے میں ڈوبے مضطرب عوام اور پریشان صارفین کو اعتماد میں لیا۔ بس 7 اہلکاروں کو برطرفی اور غفلت کی سزا ملی۔ لیکن بجلی کی پیداوار، اس کی تقسیم کاری اور ترسیلی نظام سمیت بلنگ میکنزم کی شفافیت اور ملک کے 72 سالہ پاور جنریشن اور ڈسٹری بیوشن سسٹم کے اندر کی خرابیوں اور تکنیکی کمزوریوں کی اصلاح اور بریکنگ پوائنٹ کو پہنچے ہوئے سسٹم کو مکمل سقوط سے بچانے کی کوئی تیر بہدف پالیسی کی بنیاد نہ رکھی جاسکی۔ اس ایڈہاک ازم کے مائنڈ سیٹ کو ایک دن گرنا تو تھا ہی، لہٰذا وہ گزشتہ دنوں ہولناک پاور بریک ڈائون کی شکل میں ظاہر ہوا جس نے بظاہر بجلی کے نظام میں مضمر سسٹم کی خرابی کو ٹالنے کے برس ہا برس کے تکنیکی، حکومتی اور محکمہ جاتی رویے کو بے نقاب کیا بلکہ اس درد انگیز حقیقت سے بھی پردہ ہٹادیا جو زندگی کے ہر شعبے میں حقائق کی پردہ پوشی کے دائمی طرز عمل اور فکری بیگانگی کا مظہر ہے۔ اس بریک ڈائون سے معلوم ہوا کہ مختلف ایشوز اور مسائل پر قومی رویہ تماشا دیکھنے، مورد الزام کسی دوسرے کو ٹھیرانے اور ملک کو درپیش چیلنجز سے چشم پوشی سے کام لینے کا ہے۔ کوئی سچ بتانے پر تیار نہیں، ملک میں تخلیقی، توسیعی، علمی، تکنیکی اور فیصلہ کن بریک تھرو کی ماہرانہ کوششیں کرنے کی اہلیت رکھنے والے دانشوروں، فلسفیوں، باکمال ہنرمندوں اور منتظمین کا قحط پڑ گیا ہے۔ ایک پراسرار سی خاموشی ہے، لگتا ہے سب نے حالات سے سمجھوتا کرلیا ہے۔
مزدور، کسان، وکلا، اساتذہ، نرسنگ کمیونٹی، اسپورٹس کی دنیا اور فنون لطیفہ کا انسانی سماج سے کوئی حقیقی تعلق نہیں، لوگ اپنے ہم پیشہ گروپوں کی بات کرتے ہیں، صورتحال یہ ہے کہ انسانی، فنی، تخلیقی اور نظریاتی یکجہتی غائب ہے، معاشرے اور ملک میں اہل ہنر اور اہل فکر و دانش، بے حسی، مغائرت اور بیگانگی کا شکار ہیں۔ کسی کو کسی کے دکھ میں شریک ہونے کی فرصت نہیں۔ قوم کا شیرازہ بکھرتا جائے، عظیم المیے جنم لیں، کورونا سے انسان کا کاروبار چھن جائے، وہ جاں بحق ہوجائے، غربت کی شرح بڑھ رہی ہو، مہنگائی اعصاب شکن ہو، دوائوں کی قیمتیں اور بجلی کی قیمت بلنگ ہوشربا ہو مگر انسانی جان کی کوئی قیمت نہیں۔ حادثات میں روز لوگ مرتے ہیں کوئی آنکھ پُرنم نہیں ہے، ایک وحشیانہ کلچر فروغ پارہا ہے۔ سکھ کے سب ساتھی، دکھ میں کوئی مشترکہ نعرہ نہیں ہے۔ بے سمت غیراخلاقی اور ثقافتی یلغار نے سماج کو جڑے رہنے کی امنگ سے بیگانہ کردیا ہے۔ ایک تجزیہ کار کا کہنا ہے کہ لوگ درحقیقت اپنے اندر کے خوف سے سہمے ہوئے ہیں۔ کسی امید، آرزو اور خوشخبری پر یقین کرنے کو تیار نہیں۔ سال ہا سال کے حکومتی اور ریاستی نظام کے تجاہل عارفانہ اور سنگ دلی نے سیاستدانوں کی طرح اہل فکر و نظر کو بھی انسانی رشتوں سے بے نیاز کردیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ادب و تخلیق کے دیوہیکل لوگ انسانی مسائل اور رنج و آلام سے کیوں الگ ہوگئے ہیں، وہ درد مشترک کہاں کھو گیا؟ سماج آدھے دھڑ کا ہوگیا ہے، قتل و غارت کا ہاتھ روکنے والا کوئی نہیں۔
یاد دلاتا چلوں کہ ایک پاور بریک ڈائون 2015ء میں بھی ہوا تھا۔ ماہرین نے اس وقت بھی کہا تھا کہ مسائل دائمی طور پر حل نہ ہوئے تو پھر کوئی بریک ڈائون اس سے بڑی تباہی لاسکتا ہے۔ لیکن کوئی کام اس کے منطقی انجام تک کیوں نہیں پہنچتا۔ جبکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ماہرین برقیات کو بلا کر ارباب اختیار ان سے حقیقت پوچھیں۔ واپڈا کے بجلی کے ماہرین کو پابند کریں کہ سسٹم کی اس خرابی پر خاموشی کا بھید قوم سے ڈسکس کریں، کیوں اتنے طویل بریک ڈائون پر سناٹا چھایا رہا؟ اربابِ اختیار کے لیے مسائل پر ’’مٹی پائو‘‘ کا مائنڈ سیٹ قوم کو بڑے بحرانوں کا شکار کرے گا، کوئی خیبر پختون خوا، جنوبی پنجاب، سندھ اور کراچی میں کنڈے کی بجلی کے مستقل خاتمے کا حل نہیں دیتا، بجلی کے ضیاع کو کون روکے گا۔ ٹیکس کلیکشن کم ہوگئی ہے، زندگی لاقانونیت کے حصار میں ہے، پارلیمنٹیرینز خاموش ہیں۔ ’’کراچی از اوپن فار آل‘‘ کوئی بھی یہاں آکر شناختی کارڈ، پاسپورٹ بنوائے اور انسانی اسمگلنگ کا نیٹ ورک چلائے، کوئی روکنے والا نہیں۔ جرائم کی انڈسٹری ہر دور میں پھلتی پھولتی رہی ہے، جعلی ڈگریوں کاکاروبار خوب چل رہا ہے، قوم دم بخود اس اجتماعی تخلیقی سقوط کا تماشا دیکھ رہی ہے اور بجلی کے طویل بریک ڈائون کے دوران افواہ سازوں نے شہریوں کو پریشان کیے رکھا۔ معلومات کے مستند ذرائع تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے دہشت گردی اور ملک پر دشمن کے حملے سمیت کئی خدشات جنم لیتے رہے۔ سوشل میڈیا پر بھی افواہ ساز حاوی رہی اور شہریوں کو شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔
ضر ورت اس امر کی ہے کہ حکمران توانائی بحران کے حل میں پیش رفت کے لیے ڈیموں کی تعمیر پر ثابت قدمی کا ثبوت دیں۔ حقائق پر نظر رکھیںکیونکہ منگلا اور تربیلا اپنی طبعی مدت پوری کرچکے۔ بلنگ پالیسی نے صارفین کو پریشان کردیا ہے، بجلی نہیں ہے، لوڈ شیڈنگ کا سلسلہ جاری ہے مگر بل ہیں کہ کم ہونے کا نام نہیں لیتے۔ عوام چیخ رہے ہیں کہ کارپوریٹ ازم نے عوام کو مسرتوں سے محروم کردیا ہے۔ آج بنیادی سوچ کے پیشہ وارانہ، بریک تھرو کے ساتھ ساتھ عوام دوست پالیسیوں کی بھی ضرورت ہے۔ ادھر سابق ایم ڈی این ٹی ڈی سی ڈاکٹر فیاض چودھری نے کہا ہے کہ بجلی کے نظام میں فالٹ آنا نارمل بات ہے، سسٹم میں فوگ یا اسموگ کی وجہ سے فالٹ آتے رہتے ہیں، حکومت بریک ڈائون پر تحقیقاتی کمیٹی قائم کرے تاکہ آئندہ اس صورت حال سے بچا جاسکے۔ سابق ایم ڈی این ٹی ڈی سی ڈاکٹر فیاض چودھری نے مزید کہا کہ بجلی کے نظام میں ایک دو element فالٹ کی وجہ سے نکل جائیں تب بھی نظام مستحکم رہنا چاہیے۔ تحقیقات کرنا ہوگی کہ ایک لائن نکلی تو دوسری کیوں نکلی، دوسری لائن نکلنے کے بعد بھی کیس کیڈنگ نہیں ہونی چاہیے تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ ٹرانسمشن نظام میں بہتری لانا ایک دن کا کام نہیں بلکہ تسلسل سے ہونا چاہیے۔ 15 ہزار میگاواٹ سسٹم میں شامل ہوتے ہیں تو اس کے لیے راتوں رات ٹرانسمشن نہیں بن سکتی، بجلی کے نظام میں نئی ٹیکنالوجی کا استعمال بڑھانا ہوگا۔ بجلی کے نرخ اتنے زیادہ ہوگئے ہیں کہ ہم ادا نہیں کرسکتے۔ ان کا کہنا تھا کہ سب سے بڑا مسئلہ ریسرچ کا کام نہ ہونا ہے۔ سابق ایم ڈی این ٹی ڈی سی نے بنیادی باتیں کی ہیں مگر سوال یہ ہے کہ ایسی دل خوش کن باتیں تو 72 سال سے کی جاتی رہی ہیں مگر بجلی کا نظام شفافیت اور فالٹ فری ہونے کی منزل سے دور رہا۔ انہوں نے بھی عوام کو تسلی دی کہ بجلی میں فالٹ کا آنا معمول کی بات ہے، یعنی موصوف اتنے ہولناک بریک ڈائون کو بھی بجلی کا فالٹ تصور کرتے ہیں۔ حیرت ہوتی ہے اس سادگی پر۔ یعنی اس سادگی پہ کون نہ مرجائے اے خدا۔