ایسا لگتا ہے کہ وزیراعظم عمران خان اور ان کی حکومت کے پاس آمدنی کے نئے ذرائع پیدا کرنے کا کوئی منصوبہ ہی نہیں ہے تبھی تو وہ مہنگائی پر قابو پانے کے بجائے مزید مہنگائی کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ وزیراعظم کا یہ کہنا بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ ’’بجلی اور پٹرول کی قیمتیں نہ بڑھاتے تو خزانے پر مزید بوجھ بڑھ جاتا، روپیہ گرنے سے درآمد شدہ اشیاء مہنگی ہوئیں‘‘۔ وزیراعظم عمران خان کا یہ کہنا صاف گوئی سے زیادہ کسی حکمران کا شرمناک اعتراف بھی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت اور عمران خان کی وزارت عظمیٰ کے دور میں قوم کو جن تکالیف اور پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔ 2021 کے پہلے ماہ میں جس طرح قوم پر مہنگائی کے پٹرول بم اور بجلیاں گرائی جارہی ہیں اس سے لوگوں میں تشویش اور غصہ بڑھنا فطری امر ہے۔ قوم ایسے میں عمران خان اور ان کے وزیر اعظم بننے سے پہلے کے دعووں اور وعدوں کو یاد کر کے اپنا سر پیٹنے پر مجبور ہے۔
ملک کے 22 کروڑ عوام یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ اب کس پر اعتماد کیا جائے اور کسے حکمران بنایا جائے جمہوریت کی دعویدار دو جماعتیں پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون نے ملک و قوم کے ساتھ جو کچھ کیا اس کے ردعمل کے طور پر عوام نے تحریک انصاف کا بطور بہترین حکمران جماعت انتخاب کیا گیا تھا لیکن تحریک انصاف نے ’’آئی رے آئی رے تبدیلی آئی رے‘‘ کے نعرے کی گونج میں ایسی تبدیلیاں کیں کہ قوم کا جینا ہی دو بھر ہوگیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حکومت میں اگر خوشحالی کسی جگہ نظر آئی ہے تو بس صرف پاکستان تحریک انصاف کے حلقے ہیں یا پھر بیوروکریسی کا ہجوم ہے جہاں کے لوگ اپنی مستی میں مست ہیں۔
سندھ کے دارالحکومت اور ملک کے سب سے بڑے تجارتی و صنعتی شہر کے حالات تو ناگفتہ بہ ہیں۔ سندھ کی حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی ان دنوں ترجیحات اور خواہشات یہ ہے کہ کسی بھی طرح وفاقی حکومت سے چھٹکارا حاصل کیا جائے اور اپنی حکومت قائم کرنے کے لیے جدوجہد کی جائے۔ اسے سندھ خصوصاً کراچی کے عوام سے کوئی دلچسپی نہیں ہے کراچی تو ان کی ترجیحات ہیں میں شامل نہیں ہے۔ ملک کی بڑی اور بیش تر سیاسی جماعتوں کی صرف یہی خواہش ہے کہ وہ عوام سے زیادہ زیادہ ووٹ حاصل کرکے اپنی حکمرانی قائم کریں لیکن وہ اس عوام کے لیے کچھ بھی نہیں کرتے جن سے وہ ووٹ حاصل کر کے اپنی حکومت بنانا چاہتے ہیں۔ یہ ہمارے و ملک و معاشرے کا المیہ نہیں تو اور کیا ہے؟۔
حقیقت تو یہ بھی ہے کہ پوری قوم اکثر سیاسی جماعتوں کو اچھی طرح جاننے اور آزمانے کے باوجود دوبارہ انہیں ہی اقتدار کے لیے منتخب کیا کرتی ہیں، شاید قوم کی اسی غلطی کی وجہ سے مذکورہ سیاسی جماعتیں اپنی اصلاح اور اپنی ترجیحات کو تبدیل بھی نہیں کیا کرتیں۔ جب قوم اخلاقی ذمے داریوں کو پورا نہیں کر سکے گی اس وقت تک نہ ملک کے اور نہ ہی سیاسی جماعتوں کے حالات ترجیحات اور خواہشات تبدیل ہوسکے گی اور ایسا ہی رہا نعرے اور دعوے کتنے ہی پر کشش ہو جائیں کچھ بھی نہیں تبدیل ہوگا ایسا ہی سب کچھ چلتا رہے گا۔