خواب

289

ادیبہ شہزاد
اس روز طبیعت ایسی بےقرار ہوئی جیسے کسی پتنگے کو اندھیر نگری میں چھوڑ دیا اور وہ روشنی کی تلاش میں کبھی ادھر کبھی ادھر منڈلاتا پھرے مگر کہیں کوئی چراغ میسر نہ ہو ـ میں بھی اس اضطراب کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کی غرض سے کئی جتن کرنے لگا ـ اول کتاب لے کر بیٹھا مگر الفاظ دل و دماغ کی راہ سے چپ چاپ گزرتے چلے گئے ـ سوچا کچھ دیر ٹی ـ وی دیکھ لیا جائے مگر انواع و اقسام کی صورتیں عجب عجب آوازوں کے ساتھ یوں دکھائی دینے لگیں گویا کوئی لشکر حملہ آور ہونے کہ اطلاع دے رہا ہو ـ صبح سے دوپہر ہو گئی اور میں یہی نہ سوچ سکا کہ چھٹی کا دن کس طرح بسر ہو گا ـ شعبہ تدریس سے وابستہ ہوئے دوسرا برس تھا اور یہ میری پہلی چھٹی تھی جو میں نے آرام کرنے کی غرض سے کی تھی ـ خیال تو کچھ یوں تھا کہ ایک روز کے لیے اگر ہر جماعت میں جا کر ایک ہی نظم کی تشریح میں ربط اللسان ہونے سے قاصر رہا تو ممکن ہے کہ ذہن اپنی اصل پر واپس آ جائے۔ میں کسی نئے تخیلاتی سفر پر جانے کے قابل ہو سکوں اور اپنی ادھوری کتاب کی تکمیل کی منصوبہ بندی کر سکوں ـ مگر ذہن تو کسی زنگ لگی دھات کی طرح جامد تھا ـ میری پریشانی میں مزید اضافہ ہوا ـ آدرش اور حقیقت کا ایسا تضاد ہمیشہ بدنما اثرات مرتب کرتا ہے ـ میں نے خود کو مزید سیماب پا ہونے سے بچانے کے لیے کہیں باہر جانے کا فیصلہ کیا ـ کمرے کی کھڑکی کا پردا ہٹا کر باہر نگاہ ڈالی ـ اس کرائے کے مکان کا صحن رنگا رنگ پھولوں ٗ شہتوت اور کیکر کے بڑے بڑے درختوں کی آماجگاہ تھا ـ چمکتے فرش ٗ درختوں کی لمبی شاخوں سے ہوتی ہوئی میری نظر آسمان پر پڑی جو سرمئی اور سفید بادلوں سے ڈھکا ہوا تھا ـ موسم دیکھ کرطبیعت کچھ مچلی ٗ جی للچایا ـ میں نے بھی الماری سے سفید چمکتا کرتا پاجامہ نکال کر ذیب تن کیا ـ بالوں کو ایک طرف جمایا اور بڑھی ہوئی داڑھی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے یہ سوچنے لگا کہ اماں نے کیا سوچ کر مجھے شفیق چچا کی بیٹی سے شادی کرنے کی پیشکش کی جبکہ انھیں خوب علم تھا کہ مجھے نئے زمانے کی نئی سوچ ٗ بڑے خواب دیکھنے والی کچھ کر گزرنے کا جذبہ رکھنے والی شریک حیات کی تلاش ہے جو گھر کی چار دیواری میں قید ہو کر میاں کی جی حضوری اور بچوں کی خدمت میں ہی خود کی تکمیل خیال نہ کرے بلکہ یہ ادراک رکھتی ہو کہ عورت بھی اس دنیا کی ایک فرد ہے اور اس پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ دنیا میں اپنے حصے کا انقلاب لائے اور اپنے کام کے نشانات چھوڑ کر خود امر ہو جائے ـ پچھلے ماہ جب گھر گیا تو پری سے مل کر بخوبی اندازہ ہو گیا کہ وہ روایتی خیالات کی حامل عام سی لڑکی تھی جس نے خیالوں کی دنیا بسا رکھی تھی اور ترازو کے ایک پلڑے میں مجھے اور دوسرے پلڑے میں کسی تصوراتی شخصیت کو رکھا جس میں ایک بھی نقص نہ تھا ـ اس کے نزدیک تو دونوں پلڑے برابر تھے ـ ٹھنڈی ہوا میں بادلوں بھرے آسمان تلے جب اس کے گھر کے چھت پر کھڑے میں نے اس سے سوال کیا کہ
“ آپ کا سب سے بڑا خواب کیا ہے؟ “تو گلابی لباس میں ملبوس معصوم سی صورت کی حامل پری نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
“ خواب؟ میں نے تو کبھی بڑے خواب دیکھے ہی نہیں جی ـ میں تو بس کسی عام سی لڑکی کی طرح اپنے مجازی خدا کے خوابوں کی تکمیل میں اس کی مدد کرنا چاہتی ہوں ـ میں بڑے خواب نہیں دیکھتی مگر بڑے خواب دیکھنے والا ساتھی ضرور چاہتی ہوں ـ جب اس کے خواب پورے ہو جائیں گے تو سمجھوں گی کہ میرے خواب بھی پورے ہو گئے ـ ” اس دوران اس نے ایک بار بھی مجھ سے نظریں نہیں ملائیں ـ اس دور میں ایسی سادہ لوح لڑکی کا ایسا رویہ میرے لیے باعث تعجب تھا ـ وہ تو شاید مجھے اپنا صنم مان کر خود کو برہمن سمجھنے کی غلطی کر بیٹھی تھی مگر مجھے ایسی اللہ میاں کی گائے کے ساتھ گزارا کرنے کا خیال قدرے ناگوار گزرا ـ ذہن میں ایک کے بعد دوسرا خوفناک خیال آنے لگا ـ کبھی پری شرماتی ہوئی میری ڈانٹ ڈپٹ سن رہی تھی ـ کبھی مجھ سے اپنے آنسو چھپانے لگتی ـ کبھی میرے لیےکھانا بناتے ہوئے گنگناتی دکھائی دیتی ـ میں نے فوراً سے ذہن جھٹکا ـ گھر پہنچتے ہی انکار کی نوید سنا ڈالی ـ اماں نے پریشان ہو کر مجھے سمجھانا شروع کر دیا ـ اور مجھے سوچ بچار کرنے کو کہا ـ کہا کہ جب اگلے ماہ اسلام آباد سے آؤ گے تو اپنا آخری فیصلہ سنانا ـ مہینہ ختم ہونے کو تھا ـ میں اپنا فیصلہ بدلنے کی سعی کرتا رہا مگر دل راضی نہ ہوا ـ
جوتا پہنتے پہنتے آخری خیال یہی آیا کہ اس بار اماں کو صاف انکار کر دوں گا ـ بھئی دنیا میں لڑکیوں کی کمی تھوڑی ہے ـ کوئی نہ کوئی تو ضرور ہو گی جو میرے مزاج سے مطابقت رکھتی ہو گی ـ ان خیالات کے بعد میں پھر سے پتنگا بن گیا ـ پھڑپھڑاتا پتنگا ـ جو اجالے کی تلاش میں اندھیرے پر دھاوا بول چکا تھا ـ برائے نام تیاری کے بعد اپنی موٹر سائیکل اسٹارٹ کی اور بادلوں بھرے آسمان تلے کھلی سڑکوں پر بلاوجہ گھومنے لگا ـ ستمبر کے مہینے میں ایسی ٹھنڈی ہوائیں قدرے فرحت بخش ثابت ہوتی تھیں ـ کوئی پندرہ منٹ کی مسافت کے بعد میں ایک بڑے سے شاندار شاپنگ سنٹر پر رکا ـ خریداری کا ذوق تو ہرگز نہ تھا مگر آتے جاتے لوگوں کو دیکھنا اور ان کے چہرے پڑھنا ہمیشہ سے ہی بھاتا تھا ـ اور ایسے میں محض میرا ذہن میرے ہمراہ ہوتا تھا ـ وہاں لوگوں کی بھیڑ تھی ـ ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی سعی کرتے ٗ خود کو منوانے کی جدوجہد کرتے ٗ کسی کو نیچا دکھانے کی ٗ کسی کو سر پہ اٹھانے کی کوشش جاری تھی ـ ایک بے نام سا سفر جاری تھا ـ یوں لگتا کہ سب ایک ہی منزل کے مسافر تھے مگر یہ تسلیم نہیں کرنا چاہتے تھے کہ ان کی منزل کسی اور کی بھی منزل ہے ـ ہر ایک کو لگ رہا تھا کہ وہ منفرد ہے ٗ اس مجمع میں کوئی اس جیسا نہیں ـ کوئی اس کا ہم سفر نہیں بلکہ سب کا راستہ جدا جدا ہے صحیح بھی تھا اور غلط بھی ـ کیوں؟ یہی سوچتے سوچتے میں دوسرے فلور پہ گھومنے لگا ـ اسی دوران میری نظر چند قدم دور دائیں رخ کھڑی لڑکی پر پڑی ـ وہ سرخ ساڑھی میں ملبوس نازک سی حسینہ معلوم ہوتی تھی ـ ایک بجھنے کے قریب پھڑپھڑاتی لو والا چراغ جو اپنے خاتمے سے محض ایک پھونک کی دوری پر تھا (جاری ہے)ـ

یہاں ہلکی سی ہوا چلی ٗ اور وہاں وہ اپنا وجود کھو بیٹھا ـ اسے پہچاننے میں مجھے ایک لمحہ بھی نہ لگا تھا ـ جو پہلی ملاقات میں ہی میرے ذہن پر ثبت ہو چکی تھی ٗ آج دوسری بار دیکھنے پر کیونکر بھولی ہو گی؟
میں مضمحل قدم اٹھاتا اس کے قریب پہنچا ـ الجھتے تاثرات لیے آخر بول ہی پڑا ـ
“ آپ وہی ہیں نا؟ ”
“ جی؟ مجھ سے کچھ کہا آپ نے؟” وہ مڑی ـ سیاہ بالوں کو بڑی سختی سے جوڑے میں باندھ رکھا تھا ـ ایک بھی بال اپنی مرضی سے جھولنے کے قابل نہ تھا ـ غور کرنے پر ایسا معلوم ہونے لگا کہ گویا بالوں کو جبراً خاموش کر کےقید کیا گیا ہو ـ ایسا قید کہ انہیں کراہنے تک کی بھی اجازت نہ تھی ـ“ آپ قیصرہ جبیں ہیں ـ شاعرہ؟ ” میں نے تجسس آمیز لہجہ اپنایا ـ
“ جی میں قیصرہ جبیں ہی ہوں ـ مگر شاعرہ نہیں ہوں ـ آپ کو ضرور کوئی غلط فہمی ہوئی ہے ـ” بالوں کے بعد میری نظر اس کی آنکھوں پر پڑی ـ یہ جملہ کہتے ہی ان میں نمی بھر آئی تھی ـ جسے وہ خود سے بھی چھپانا چاہتی تھی ـ مجھے معلوم ہو چکا تھا کہ وہ جھوٹ بول رہی تھی ـ
“ میں نے دو سال قبل آپ کو ایک مشاعرہ میں دیکھا تھا ـ وہاں آپ نے ایک قدرے باغیانہ سی نظم پڑھی تھی جس کا عنوان کچھ یوں تھا کہ……… معذرت کے ساتھ….عنوان تو مجھے یاد نہیں مگر خواتین کی بڑی خوب نمائندگی کی آپ نے ـ اس کے بعد آپ کو کسی مشاعرہ پہ نہیں دیکھا ـ کیا اب آپ شاعری نہیں کرتیں؟ ” میں نے ربط سے ایک کے بعد ایک لفظ کہا ـ اس دوران اس کے چہرے پر کئی تاثرات آئے اور گئے مگر ہر تاثر کہیں نہ کہیں پشیمانی سے جا ملتا تھا ـ“ میں نے کہا نہ آپ سے ـ میں شاعرہ نہیں ہوں ـ نہ کبھی کسی مشاعرے پہ گئی ہوں اور نہ ہی آپ سے پہلے کبھی ملاقات ہوئی ہے ـ” اس نے بظاہر اکتائے ہوئے انداز میں کہا ـ مجھے دو سال قبل کا وہ دن یاد آ گیا جب مشاعرے کے بعد میں نے بمشکل اس خوبرو ٗ نوجوان ٗ انقلابی شاعرہ سے ملاقات کرنے کی راہ ہموار کی تھی ـ دو منٹ کی ملاقات میں اس نے میری تعریف کے جواب میں اتنا کہا تھا کہ ” کبھی کسی کے خوابوں کی راہ میں رکاوٹ مت بنیں گا ـ اگر ممکن ہو تو راستے کے پتھر ہٹا دیجئے گا اور اگر نہ کر سکیں تو کم از کم مزید پتھر نہ پھینکئے گا ـ بہت شکریہ ـ” مختصر سا کلام مگر بلا کی تاثیر ـ اس کے بعد سے میری نظروں میں عورت مزید معتبر ہو گئی تھی ـ میں اسے نہیں بھول سکتا ـ میں اسے کیسے بھول سکتا تھا؟ مجھے غلط فہمی کیونکر ہو سکتی تھی؟
“ مجھے یاد ہے کہ میں نے آپ سے ہی ملاقات کی تھی ـ میں نے آپ کی شاعری تلاش کرنے کی بھی کافی کوشش کی تھی ـ مگر اس ایک مشاعرے کے علاوہ کبھی آپ کی شاعری نہ کہیں سنی ٗ نہ دیکھی ـ بہت خوب کلام تھا آپ کا ـ ”
“ آپ بس بھی کیجئے ـ” اس نے ہاتھ ہلا کر غصے کا اظہار کیا ـ یوں لگا جیسے میرا ایک ایک لفظ لکڑی پر ایندھن کا کام دے رہا ہو ـ آواز میں ایسی دہشت تھی کہ میں ایک پل کو گھبرا کر پیچھے ہٹا ـ غور کرنے پر اس کی آنکھ سے ٹپکتا آنسو بھی واضح ہوا جسے اس نے فوراً ہی صاف کر لیا ـ میں حیران ہوا ـ ایسا کیا تھا کہ اس کی آنکھ سے آنسو ہی نکل پڑے؟ کیا میری باتیں اتنی ناگوار گزری تھیں؟ مگر میں نے کوئی قابل اعتراض بات نہیں کی تھی ـ اس سے پہلے کہ میں مزید کچھ کہتا اس کے عقب سے ایک شخص نمودار ہوا ـ وہ سفید شلوار قمیص اور واسکٹ میں ملبوس تھا ـ بال بڑھے ہوئے اور ہلکی داڑھی نمایاں تھی ـ
“ کیا ہوا؟ یہ کون ہے اور کیا کہہ رہا ہے تم سے؟ ” وہ ناسمجھی اور حیرانی کے ملے جلے تاثرات لئے بولا ـ
“ راہ چلتا آدمی ـ میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ آپ وہی شاعرہ ہیں جسے میں نے دو سال پہلے کسی مشاعرے میں دیکھا تھا ـ میں نے کہا کہ میں شاعرہ نہیں ہوں اور نہ ہی آپ کو جانتی ہوں مگر مانتا ہی نہیں ـ” اس نے بے بسی سے ساری کہانی اپنے شوہر کو سنا ڈالی ـ وہ سنتے ہی مجھ پر برس پڑا ـ
“ بھائی یہ شاعری وغیرہ آپ سے جیسے لوگوں کا کام ہے ـ ہم سیاست دان ہیں ـ ہماری خواتین یہ کام نہیں کرتی ـ اور تمہیں اندازہ بھی نہیں ہے کہ میری بیوی سے ایسی بدتمیزی کا کیا نتیجہ ہو سکتا ہے ـ ” میں نے غور کیا تو معلوم ہوا کہ وہ واقعتاً ایک سیاست دان تھا ـ ایم این اے تھا ـ جسے میں پہچان نہ سکا ـ اور جسے پہچان گیا تھا وہ ایک پل میں دستبردار ہو گئی تھی ـ
“ چھوڑ دیجئے اس کو ـ خوامخواہ میں اپنا موڈ خراب نہ کریں ـ” اس نے پیار بھرے ٗ فکرمند لہجے میں گویا التجا کی تھی ـ
“ اب آپ شرافت سے یہاں سے چلتے بنیں ـ” اس نے دھمکی آمیز لہجے میں کہا ـ میں فوراً ہی چند قدم پییچھے ہٹا ـ وہ دونوں میرے سامنے سے گزر گئے ـ
“ کہیں تم شادی سے پہلے کبھی شاعری تو نہیں کرتی رہی ہو؟ کیا کسی مشاعرے پر گئی ہو کبھی؟” وہ چلتے چلتے اس سے پوچھنے لگا ـ وہ دونوں میرے سامنے سے گزرنے لگے ـ
“ نہیں تو ـ باکل نہیں ـ مجھے معلوم ہے کہ آپ کو یہ کام نہیں پسند ـ مجھے بھی یہ سب نہیں……” آواز گھٹتے گھٹتے غائب ہو گئی ـ اور ساتھ ہی وہ دونوں نفوس بھی منظر سے پردہ نشین ہو چکے تھے ـاس کے جاتے ہی میں دل برداشتہ ہوا ـ اس کی آنکھوں میں آنے والے آنسو کا کیا مطلب تھا؟ گویا کوئی آدھی ادھوری حسرت ہو جس کے پورا ہونے کا انتظار کرتے کرتے انسان کی ہمت جواب دے جائے ـ اس کی آنکھوں میں بھی کبھی نہ ختم ہونے والے انتظار کی کہانی رقم تھی ـ میں ایک بار پھر بلا مقصد گھومنے لگا ـ مگر اب وہاں دل نہیں لگ رہا تھا ـ اور کسی شخص پر نظر نہ ٹھہری ـ میں پھر ایک بھٹکا ہوا پتنگا بن گیا ـ باہر آیا تو ایک بار پھر سے اس پر نظر پڑی ـ وہ ایک شاندار گاڑی کے بغل میں کھڑی تھی ـ وہ اکیلی تھی اور غالباً اپنے سیاست دان شوہر کا انتظار کر رہی تھی جو کہیں گیا تھا ـ مجھے دیکھتے ہی اس نے نظریں پھیریں ـ ہمارے درمیان چند قدموں کا ہی فاصلہ تھا ـ اس کی ہچکچاہٹ سے میں نے یہ اندازہ لگایا کہ وہ مجھ سے کچھ کہنا چاہتی تھی ـ اسی پل اس نے گاڑی سے ایک کاغذ اور قلم نکالا ـ کچھ سوچ کر لکھا اور میری طرف دیکھتے ہوئے وہ کاغذ زمین پر پھینک دیا ـ اسی دوران اس کا شوہر آ گیا ـ کچھ دریافت کیا جس کے جواب میں اس نے محض سر ہلایا ـ دونوں گاڑی میں بیٹھے اور اگلے ہی پل وہ گاڑی کئی گاڑیوں کے درمیان کھو گئی ـ وہ تہہ شدہ کاغذ اب تک زمین پر ہی گرا تھا ـ میں اگے بڑھا اور اسے کھولا ـ
“ وہ شاعرہ جو اپنے خوابوں کے لئے لڑ نہ سکی ٗ کیا شاعرہ ہو سکتی ہے؟ ” لکھائی واضح تھی ـ یہ پڑھتے ہی میں نے کاغذ دوبارہ وہیں پھینک دیا ـ اپنے موٹر-سائیکل کی طرف جاتے ہوئے سوچنے لگا کہ اب کی بار اماں کو پری کے لیے ہاں کہہ دوں گا ـ میں کسی کے خوابوں کو قتل کرنے کا روادار نہیں ہو سکتا ـ۔