فارن فنڈنگ کاپھندا

660

19 جنوری بروز منگل پی ڈی ایم الیکشن کمیشن کے دفتر کے باہر تحریک انصاف کے خلاف فارن فنڈنگ کے کیس کے حوالے ایک بھر پور مظاہرہ کرنے جارہی ہے، جس وقت آپ یہ تحریر پڑھیں گے یہ مظاہرہ ہو چکا ہوگا۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق اس مظاہرے میں پی پی پی کے رہنما بلاول زرداری شریک نہیں ہوں گے، پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن اس مظاہرے کی قیادت کریں گے۔ یہ فارن فنڈنگ ہے کیا بلا، جس کا اتنا شور برپا کیا جارہا ہے۔ اپوزیشن کا کہنا یہ ہے کہ اگر اس کیس کا فیصلہ تحریک انصاف کے خلاف آیا تو تحریک انصاف پر پابندی لگ سکتی ہے، اور اس کا شاید منطقی نتیجہ یہ ہو کہ عمران خان کی حکومت ختم ہو جائے، یہ ایک سہانا خواب ہے جو اپوزیشن کی جماعتیں دیکھ رہی ہیں، اس لیے کہ وہ کئی مہینوں سے حکومت کے خلاف جو تحریک چلارہی ہیں اس میں انہیں کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ ہو سکی اور یہ جماعتیں مایوسی کی دلدل میں ڈوپتی چلی جارہی ہیں۔
اپوزیشن کی ناکامی کی اہم وجوہات میں سے ایک یہ کہ پی ڈی ایم کی تین بڑی جماعتوں کے درمیان عدم اعتماد روز بروز بڑھتا چلا جارہا ہے۔ مولانا فضل الرحمن جن کی سیاسی تاریخ یہ ہے کہ وہ ہر حکومت کے ساتھ رہے ہیں، ایک طویل عرصے تک کشمیر کمیٹی کے سربراہ رہے مرکزی وزارت کی مراعات اور سہولتیں حاصل کیں لیکن کشمیر کاز کے لیے کچھ نہیں کیا۔ مولانافضل الرحمن کا نظریہ یہ ہے کہ کشمیر میں کوئی جہاد نہیں ہورہا ہے وہاں زمین کی جنگ ہو رہی ہے وہ صرف افغان جہاد ہی کو جہاد مانتے ہیں، حالانکہ کشمیری مجاہدین ہندوستان کے خلاف جہاد کررہے ہیں وہ بھارت کے کشمیر پر غاصبانہ قبضے سے آزادی حاصل کرنا چاہتے ہیں، اب کشمیر کے معاملے میں جس کا ذہن ہی صاف نہ ہو اسے ہی کشمیر کمیٹی کا ذمے دار بنا دیا جائے گا تو وہ ساری مراعات تو وصول کر لے گا لیکن کوئی کام کرکے نہیں دے گا مولانا کم وبیش پندرہ سال سے زائد اس منصب پر فائز رہے وہ کوئی اس حوالے سے اپنی کارکردگی رپورٹ پیش کر سکیں گے، جبکہ ان کے مقابلے میں نواب زادہ نصراللہ جب کشمیر کمیٹی کے سربراہ تھے تو وہ پوری دنیا میںکشمیر کے ایشو کو لے کر جاتے تھے۔
الیکشن کمیشن ایک ریٹائرڈ بیوروکریٹ کنور دلشاد نے اپنے ایک آرٹیکل میں لکھا ہے کہ سیاسی جماعتوں کو غیر ممالک سے جو فنڈنگ ہوتی ہے وہ اسٹیٹ بینک کے توسط سے ہوتی ہے، اس کے علاوہ کسی اور ذریعے سے فارن فنڈنگ وصول کرنا جرم ہے۔ پی ٹی آئی کے ایک بانی رکن نے 2014 میں الیکشن کمیشن میں یہ شکایت درج کرئی تھی کہ عمران خان نے غیر قانونی طور پر باہر کے ممالک سے فنڈ وصول کیے ہیں، کئی سال سے فارن فنڈنگ کا یہ کیس الیکشن کمیشن کے پاس التواء میں پڑا ہو اہے۔ 19 جنوری کو گیارہ جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم نے الیکشن کمیشن کے دفتر کے سامنے مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں جو احتجاجی مظاہرہ کیا ہے اس میں بنیادی مطالبہ یہ ہے کہ الیکشن کمیشن فارن فنڈنگ کا فوری فیصلہ سنائے اور پی ٹی آئی پر پابندی لگائی جائے مولانا کہتے ہیں یہ ملکی تاریخ کا سب سے بڑا اسکینڈل ہے اور عمران خان اس کے سب سے بڑے مجرم ہیں۔
ایک ٹی وی پروگرام میں معروف صحافی ہارون الرشید کہہ رہے تھے کہ اگر یہ فیصلہ پی ٹی آئی کے خلاف بھی آیا تو کیا اپوزیشن یہ سمجھتی ہے کہ یہ حکومت ختم ہو جائے گی، ایسا نہیں ہو سکے گا۔ حکومت اس فیصلے کے خلاف عدالت عظمیٰ میں چلی جائے گی، دوسری اہم بات یہ ہے کہ 2017 میں پی ٹی آئی نے ن لیگ اور پی پی پی کے خلاف بھی الیکشن کمیشن میں فارن فنڈنگ کا کیس دائر کیا ہوا ہے، یہ بھی ہوسکتا ہے کہ الیکشن کمیشن تینوں جماعتوں کے مقدمے کی ایک ساتھ سماعت کرے اور ان کا ایک ہی ساتھ فیصلہ آئے یا الگ الگ آئے یہ الیکشن کمیشن کی مرضی پر منحصر ہے پی ڈی ایم نے الیکشن کمیشن کے دفتر کے سامنے مظاہرہ کر کے دبائو ڈالنے کی جو کوشش کی ہے وہ کہیں الٹا ان کے خلاف نہ پڑ جائے کہ معلوم ہوا کہ تینوں جماعتیں کالعدم قرار دے دی جائیں۔
بہر حال پی ڈی ایم کا الیکشن کمیشن کے باہر ایک بھرپور مظاہرہ ہوگیا اس مظاہرے سے مریم نواز نے بھی خطاب کیا اور انہوں نے عمران خان کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ مولانا نے اپنے خطاب میں کہا کہ یہ نا اہل اور نالائق حکومت ہے عمران خان نے خود اپنی ناکامی کا اعتراف کیا ہے، مولانا نے بھی مریم نواز کے ان نکات کو ہائی لائٹ کیا کہ عمران خان کو انڈیا اور اسرائیل نے فندنگ کی ہے جب ہی تو ہمارے وزیر اعظم نے مودی کی کامیابی کے لیے دعائیں کی تھیں مولانا نے یہ نعرہ بھی لگوایا کہ جو مودی کا یار ہے غدار ہے جو یہودیوں کا یار ہے غدار ہے۔
اس نکتے پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ آج کے اتنے اہم مظاہرے میں بلاول زرداری کیوں شریک نہیں ہوئے اس لیے ان کی جماعت ضمنی انتخاب میں حصہ لے رہی ہے حصہ تو ویسے ن لیگ بھی لے رہی ہے۔ لیکن پی پی پی کا اسٹیک بہت زیادہ ہے اس لیے وہ اس اہم مرحلے پر الیکشن کمیشن کو ناراض کرنا نہیں چاہتے اور اس کے ساتھ ہی ملک کی مقتدر قوتوں کو یہ پیغام بھی دینا چاہتے ہیں کہ وہ سسٹم کے اندر رہ کر ہر قسم کے تعاون کے لیے تیار ہیں اس لیے کہ ان کی نظریں مستقبل قریب میں سینیٹ کے انتخاب پر اور مستقبل بعید میں 2024 کے عام انتخاب پر مرکوز ہیں، اسی وہ پی ڈی ایم ہیں بھی اور نہیں بھی۔ بلاول زرداری پی ڈی ایم کے ساتھ رہ کر حکومت پر دبائو بڑھانا چاہتے ہیں لیکن ساتھ ہی اپنی طرف سے ہر قسم کی معاونت کا تاثر بھی دینا چاہتے ہیں۔