لاہور (رپورٹ: حامد ریاض ڈوگر) نوجوانوں میں بے راہ روی کے بڑھتے ہوئے رجحان کے بڑے اسباب میں ذرائع ابلاغ، دین سے دوری، نظام تعلیم کی خرابیاں اور تعلیم کی کمی شامل ہیں، حکومت اور سیاسی و دینی جماعتوں کو اس ضمن میںاپنی ذمے داریوں کا احساس کرتے ہوئے صورت حال کی اصلاح کے لیے مؤثر کردار ادا کرنا چاہیے۔ ان خیالات کا اظہار اہل فکر و دانش نے روزنامہ جسارت سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ جماعت اسلامی یوتھ کے صدر زبیر گوندل نے کہا کہ نوجوان نسل کے بگاڑ اور بے راہ روی کی جانب مائل ہونے میں بنیادی سبب دین سے دوری، ذرائع ابلاغ اور خاص طور پر سماجی ذرائع ابلاغ ہیں۔ عالمی استعمار اپنے مخصوص ایجنڈے کے تحت ہمارے معاشرے میں این جی اوز اور ذرائع ابلاغ
کے ذریعے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کر رہا ہے اور یہاںخاندانی نظام کو ٹوٹ پھوٹ سے دو چار کیا جا رہا ہے۔ آزادی اور ترقی کا نام دے کر فحاشی عریانی کو فروغ دیا جاتا ہے، حکومت کی ذمے داری ہے کہ نوجوانوں کو بے حیائی کے اس طوفان سے محفوظ رکھنے کے لیے ذرائع ابلاغ خصوصاً سماجی ذرائع ابلاغ سے متعلق ایسی پالیسی تشکیل دے جس کے ذریعے ان کو بے راہ روی اور فحاشی و عریانی کی ترویج سے روکا جا سکے اور ملک میں اعلیٰ دینی و اخلاقی اقدار کے فروغ میں ان ذرائع ابلاغ کے کردار کو مؤثر بنایا جائے۔ ممتاز ماہر تعلیم اور دانشور پروفیسر محمد ایوب منیر نے جسارت کے سوال پر بتایا کہ پاکستان کے حالات کا جائز ہ لیا جائے تو نوجوان نسل میں بڑھتی ہوئی بے راہ روی کا سب سے بڑا سبب تعلیم کی کمی ہے حکومت کا دعویٰ ہے کہ پاکستان میں خواندگی کی شرح 60 فیصد ہے مگر فی الحقیقت یہ شرح اس سے کہیں کم ہے چنانچہ ہمارا نوجوان بنیادی اخلاقیات اور سماجی روایات و اقدار سے ناواقف ہے اور ہمارے ذرائع ابلاغ سے جس طرح بے مقصد زندگی، سنسنی خیزی، لاقانونیت اور جرائم پر مبنی ماحول کو دکھایا اور سکھایا جاتا ہے اس سے پڑھا لکھا اور ان پڑھ دونوں یکساں متاثر ہوتے ہیں خصوصاً کم پڑے لکھے اور بے روز گار نوجوانوں میں یہاں سے منفی سوچ کو تقویت ملتی ہے اور وہ ذرائع ابلاغ کی گمراہ کن سرگرمیوں میں سکون تلاش کرتے ہیں، جدید تہذیب اور ذرائع ابلاغ نے خاندان کے مضبوط رشتے کو بھی کمزور کر دیا ہے اب اہل خانہ کے پاس مل بیٹھ کر اکٹھے کھانا کھانے تک کا وقت نہیں اگر کبھی اکٹھے بیٹھ بھی جائیں تو ہر کوئی اپنے اپنے موبائل میں مگن نظر آتا ہے زوال پذیر معاشرتی رویوں کی اصلاح کے لیے لازم ہے کہ حکومت لوگوں میں سماجی شعور پیدا کرے، تعلیم کو عام کرنے پر توجہ دے اور اپنے وعدوں کے مطابق تعلیم کے بجٹ میں خاطر خواہ اضافہ کرے اسی طرح پورا ہفتے 24گھنٹے ذرائع ابلاغ کی نشریات کو بھی 8سے 10 گھنٹے تک محدود کیا جائے تاکہ لوگ دیگر معاشرتی سرگرمیوں کے لیے وقت نکال سکیں ۔قومی زبان تحریک کے بانی صدر ڈاکٹر محمد شریف نظامی نے جسارت کے سوال پر کہا کہ جوانی یوں بھی دیوانی ہوتی ہے اور خیر و شر کا ہوش بھی کم ہی ہوتا ہے چنانچہ شیطان اور انسانوں میں موجود اس کے چیلوں کا نوجوان آسان ہدف ہوتے ہیں پھر ہمارے نظام تعلیم میں نوجوانوں کو بے مقصدیت اور بے راہ روی کی جانب دھکیلنے میں شیطانی قوتوں کا مدد گار ہوتا ہے خاص طور پر نجی شعبے کے انگریزی میڈیم مہنگے اسکول نوجوان نسل کو بگاڑنے میں اپنا پورا زور صرف کر رہے ہیں یہ تعلیمی ادارے کم اور نوجوانوں کی قتل گاہیں زیادہ ہیں انہی سے متعلق اکبر الہ آبادی مرحوم نے فرمایا تھا کہ افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی ظلم یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں کو بھی اس بڑھتی ہوئی خرابی کا احساس نہیں اور نہ ہی سیاسی اور دینی جماعتیں اس اہم قومی بحران پر توجہ دے رہی ہیں۔ حکومت پورے ملک میں یکساں نصاب تعلیم رائج کرنے کے لیے پر عزم دکھائی دیتی ہے جو یقینا ایک مثبت اور قابل ستائش اقدام ہے مگر اس سے بھی زیادہ ضروری یہ ہے کہ نصاب کو ملک کی نظریاتی اساس، دینی تقاضوں اور قومی و ملی، اقدار سے ہم آہنگ کیا جائے جسے صرف سرکاری ہی نہیں نجی تعلیمی ادارے بھی اختیار کرنے کے پابند ہوں۔