قرآن کریم میں مال کو ضروریاتِ زندگی کی تکمیل کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے۔ (النساء: 5) شریعت چاہتی ہے کہ جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے مال و دولت سے نوازا ہے وہ اس میں اللہ کے دوسرے بندوں کا حق پہچانیں اور ان کی مدد کریں۔ چنانچہ انفاق کے عمومی احکام دیے گئے ہیں، ساتھ ہی جب مخصوص اموال متعین مقدار سے زیادہ ہو جائیں اور کسی شخص کے پاس ایک سال تک رہیں تو ان میں زکوٰۃ فرض کی گئی ہے۔ زکوٰۃ کی مخصوص مدّات ہیں، جنھیں سورہ التوبہ (آیت 60) میں بیان کر دیا گیا ہے۔ زکوٰۃ کے دو بڑے مصارف فقرا ومساکین ہیں۔
زکوٰۃ کا مقصد فقرا ومساکین کی ضروریات کی تکمیل ہے۔ اس لیے مطلوب یہ ہے کہ اموالِ زکوٰۃ پہنچانے میں بلا کسی عذر کے تاخیر نہ کی جائے۔ یہ روح شریعت کے خلاف ہے۔ اللہ کے رسولؐ نے سیدنا معاذ بن جبلؓ کو یمن بھیجتے وقت انھیں یہ ہدایت دی تھی:
’’تم انھیں بتاؤ کہ اللہ نے ان پر صدقہ (زکوٰۃ) فرض کیا ہے، جو ان کے مال داروں سے لیا جاتا ہے اور ان کے غریبوں کو لوٹا دیا جاتا ہے‘‘۔ (بخاری، مسلم)
خود رسول اللہؐ کا اور خلفاء راشدین کا بھی یہی معمول تھا کہ جو کچھ مالِ زکوٰۃ اکٹھا ہوتا، اسے جلد از جلد غریبوں میں تقسیم کروا دیتے تھے۔
موجودہ دور میں ایک نیا مسئلہ یہ سامنے آیا ہے کہ کیا نفع بخش تجارتی منصوبوں میں اموالِ زکوٰۃ کی سرمایہ کاری کی جاسکتی ہے؟ اس کی ممکنہ صورت یہ ہوسکتی ہے کہ دینی اور رفاہی تنظیموں اور زکوٰۃ کے جمع وصَرف کا کام انجام دینے والے اداروں کے پاس جو زکوٰۃ اکٹھی ہو اسے وہ فوری طور پر غریبوں میں تقسیم نہ کریں، بلکہ تجارتی منصوبوں میں لگا دیں، پھر ان سے جو منافع حاصل ہو اسے غریبوں میں تقسیم کریں۔ فقہائے متقدمین کے یہاں یہ بحث نہیں ملتی۔ اس لیے کہ پہلے کے زمانوں میں جو کچھ مالِِ زکوٰۃ جمع ہوتا تھا اسے بلا تاخیر مستحق افراد کے درمیان تقسیم کر دیا جاتا تھا۔ موجودہ دور کے فقہا نے اس مسئلے میں غور کیا تو ان کی جانب سے دو رائیں سامنے آئیں۔ بعض فقہا نے اموالِ زکوٰۃ میں سرمایہ کاری کو ناجائز قرار دیا ہے اور بعض کچھ شرائط کے ساتھ اسے جائز کہتے ہیں۔ ناجائز قرار دینے والوں میں مولانا مفتی محمد تقی عثمانی، شیخ ابن عثیمین، ڈاکٹر عبد اللہ العلوان اور ڈاکٹر محمد عطا السید ہیں اور جواز کے قائلین میں شیخ مصطفی الزرقاء، شیخ عبد الفتاح ابو غدہ، ڈاکٹر وہبہ زحیلی، ڈاکٹر یوسف القرضاوی، ڈاکٹر عبد العزیز خیاط، ڈاکٹر عبد السلام العبادی، ڈاکٹر حسن عبد اللہ الامین، ڈاکٹر محمد صلاح الفرفور، ڈاکٹر محمد فاروق النبہان، ڈاکٹر حسین شحاتہ، ڈاکٹر حسام الدین عفانہ، شیخ صابون محمد، شیخ احمد خلیلی اور ڈاکٹر فرید واصل قابل ذکر ہیں۔
سرمایہ کاری کے عدم جواز کے قائلین نے درج ذیل دلائل دیے ہیں:
1۔مصارف زکوٰۃ کے بیان (التوبہ: 60) میں ’حصر‘ ہے۔ آیت میں ’اِنَّمَا‘ کا لفظ آیا ہے، یعنی زکوٰۃ صرف انہی مدات میں خرچ کی جاسکتی ہے۔
2۔ آیت میں’لام تملیک‘ کا استعمال ہوا ہے۔ (لِلفْقَرَائِ)، یعنی فقرا کو مالک بنانا ضروری ہے۔ ان کی ملکیت میں جائے بغیر زکوٰۃ ادا نہیں سمجھی جائے گی۔
3۔ زکوٰۃ کا مقصد فقرا کی ضروریات کی تکمیل ہے۔ اموالِ زکوٰۃ کی سرمایہ کاری کرنے سے ان کی ضروریات کی فوری تکمیل ممکن نہیں، بلکہ ان تک زکوٰۃ پہنچنے میں تاخیر ہوتی ہے۔
4۔ سرمایہ کاری کے نتیجے میں مکمل زکوٰۃ مستحقین پر صرف نہیں ہوتی، بلکہ کچھ سرمایہ کاری منصوبوں میں لگی رہتی ہے۔
5۔سرمایہ کاری میں خسارے کا امکان رہتا ہے، کیوں کہ تجارت میں نفع بھی ہوسکتا ہے اور نقصان بھی۔ اس لیے غریبوں کے مفادات کے پیش نظر یہ خطرہ مول لینا درست نہیں۔
6۔سرمایہ کاری کی وجہ سے زکوٰۃ کا خاصا حصہ انتظامی کاموں میں صرف ہوجاتا ہے۔
7۔زکوٰۃ جمع کرنے والوں کے پاس وہ مال بطور امانت ہوتا ہے۔ وہ اسے غریبوں تک پہنچانے کے پابند ہوتے ہیں۔ انھیں اس میں تصرف کرنے کا حق حاصل نہیں رہتا۔
سرمایہ کاری کے جواز کے قائلین یہ دلائل دیتے ہیں:
1۔آیتِ مصارفِ زکوٰۃ میں ’حصر‘ کا مطلب یہ ہے کہ صرف انہی مستحقین کو زکوٰۃ دی جائے جن کا آیت میں ذکر ہے۔ ان کو زکوٰۃ کس طرح دی جائے؟ اس کی صراحت نہیں ہے۔ یہ ایک اجتہادی امر ہے۔ چنانچہ زکوٰۃ کی سرمایہ کاری کرکے اور اس میں اضافہ کرکے اسے غریبوں کو دیا جاسکتا ہے۔
2۔زکوٰۃ میں تملیک کی شرط تمام فقہا کے نزدیک نہیں ہے۔ احناف کے نزدیک آٹھوں مصارف کے لیے تملیک شرط ہے۔ شوافع اور حنابلہ کے نزدیک صرف چار اصناف کے لیے تملیک ضروری ہے۔ مالکیہ ابتدائی چار اصناف کے ساتھ مسافر (ابن السبیل )کے لیے بھی تملیک ضروری قرار دیتے ہیں۔ علامہ شوکانی کہتے ہیں کہ تملیک کی شرط کسی کے لیے نہیں ہے۔ بعض معاصر فقہا مثلاً شیخ مصفطی الزرقاء اور شیخ محمد ابو زہرہ نے بھی اسی کو راجح قرار دیا ہے۔
3۔ فقرا تک مالِ زکوٰۃ جلد از جلد پہنچانا پسندیدہ اور بہتر ہے، البتہ اگر کسی سبب سے کچھ تاخیر ہوجائے تو کوئی مضائقہ نہیں۔ سیدنا انس بن مالکؓ نے بیان کیا ہے کہ ایک مرتبہ وہ رسول اللہؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو دیکھا کہ آپؐ کے ہاتھ میں داغ لگانے کا آلہ ہے اور آپؐ زکوٰۃ کے اونٹوں پر داغ لگا رہے ہیں۔ (بخاری) اگر اونٹوں کو فوراً مستحقین کو دے دینا ضروری ہوتا تو حفاظت اور پہچان کے مقصد سے ان پر داغ لگانے کی ضرورت ہی نہ رہتی۔
4۔سرمایہ کاری کے نتیجے میں تجارت میں جو نفع حاصل ہوتا ہے وہ غریبوں پر ہی خرچ ہوتا ہے۔ جو باقی رقم سرمایے کے منصوبوں میں لگی رہتی ہے اس کا فائدہ بھی آخر کار غریبوں ہی تک پہنچتا ہے، اگرچہ اس میں کچھ تاخیر ہوتی ہے۔ مستحقین ہی کے مصالح کی بنا پر اتنی تاخیر گوارا کی جاسکتی ہے۔
5۔ہر تجارت میں نفع اور خسارہ دونوں کا امکان رہتا ہے۔ خسارے کے اندیشے سے تجارت سے ہاتھ نہیں کھینچ لیا جاتا۔ منصوبوں کا تفصیلی اور باریکی سے جائزہ لینے کے بعد کسی ایسے نفع بخش پروجکٹ کا انتخاب کیا جائے جس میں خسارے کا امکان کم سے کم ہو اور نگرانی کے لیے ماہر، ایمان دار اور اچھی انتظامی صلاحیت رکھنے والا عملہ رکھا جائے تو خسارے کا امکان بہت کم رہے گا۔ نقصان کا خطرہ مزید کم کرنے کے لیے یہ کیا جا سکتا ہے کہ کسی ایک پروجکٹ کے بجائے متعدد منصوبوں میں سرمایہ کاری کی جائے۔
6۔زکوٰۃ کو انتظامی کاموں میں خرچ کرنا ممنوع نہیں ہے۔ چنانچہ ایک مستقل مد ’عاملین‘ کی بیان کی گئی ہے۔ اگر زکوٰۃ کی سرمایہ کاری کی اچھی طرح منصوبہ بندی کی جائے تو انتظامی کاموں پر زیادہ صرفہ نہیں آئے گا۔
7۔اموالِ زکوٰۃ کی سرمایہ کاری کو خیانت سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا۔ سرمایہ کاری کرنے والوں کے پیش نظر یہ ہوتا ہے کہ ان اموال میں زیادہ سے زیادہ اضافہ ہو اور ان کا فائدہ غریبوں تک پہنچے۔ ان کا یہ عمل ان میں بے جا تصرف نہیں، بلکہ حسنِ انتظام کے ذیل میں آتا ہے۔
اموالِ زکوٰۃ کی سرمایہ کاری کا موضوع فقہی اکیڈمیوں میں بھی زیر بحث آیا ہے۔ بعض اکیڈمیوں میں اس کے جائز ہونے کی تجویز منظور ہوئی ہے تو بعض نے ناجائز ہونے کی رائے دی ہے۔
اس تفصیل سے واضح ہے کہ زکوٰۃ کی سرمایہ کاری کے سلسلے میں معاصر فقہا کے یہاں جواز اور عدم جواز، دونوں طرح کی آراء پائی جاتی ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک اجتہادی اور استنباطی مسئلہ ہے۔ میرے نزدیک راجح یہ رائے ہے کہ مالِ زکوٰۃ کی سرمایہ کاری کی جاسکتی ہے، البتہ اس میں چند شرائط کو لازماً ملحوظ رکھنا چاہیے:
1۔کل اموالِ زکوٰۃ کی سرمایہ کاری نہ کی جائے، بلکہ زیادہ حصہ غریبوں اور مستحقین کو دے دیا جائے، تھوڑے حصے کو سرمایہ کاری کے منصوبوں میں لگایا جائے۔
2۔سرمایہ کاری مختصر مدت کے منصوبوں میں کی جائے، تاکہ زیادہ عرصے تک زکوٰۃ پھنسی نہ رہے اور مستحقین جلد از جلد اس سے فائدہ اٹھا سکیں۔
3۔مالِ زکوٰۃ ایسے منصوبے میں لگایا جائے جس میں نفع کی قوی امید ہو اور خسارے کا امکان کم سے کم ہو۔ نگرانی کے لیے ماہر، با صلاحیت، تجربہ کار اور ایمان دار افراد کی خدمات حاصل کی جائیں۔ بہتر ہے کہ سرمایہ کاری ایک سے زیادہ منصوبوں میں کی جائے، تاکہ کسی منصوبے میں ممکنہ خسارہ کا اثر دیگر منصوبوں پر نہ پڑے۔