افکار سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ

279

اسلام اور تحقیق
اسلامی تحریک جب دنیا میں اٹھی تھی، اس وقت مسلمانوں نے دوسری قوموں پر محض سیاسی یا فوجی غلبہ ہی حاصل نہیں کیا تھا بلکہ سب سے بڑی بات یہ تھی کہ مسلمان بھی اس وقت ایسے تھے جو تحقیقات کا کام کرنے میں سب سے پیش پیش تھے۔ جنہوں نے نہ صرف یہ کہ زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی، بلکہ ان معلومات کو اپنے نقطۂ نظر، اپنے طرزِ فکر اور اپنے عقیدے کے مطابق مرتب کیا۔ چنانچہ ایک ایسی غالب تہذیب اس کی بدولت وجود میں آئی جس کے رنگ میں دنیا رنگتی چلی گئی۔ (تہذیبی کشمکش میں علم و تحقیق کا کردار)
٭…٭…٭
اسلامی تعلیم؟
ہمارے ہاں معاملہ یہ ہے کہ اسلامی تعلیم کے معنی یہ سمجھے جاتے ہیں کہ تمام اوقات (گھنٹوں، Periods) میں تو ہم وہ علوم پڑھائیں جو ملحد مغربی مصنفین کی کتابوں میں ملتے ہیں اور دو ایک پیریڈ میں لوگوں سے یہ بھی کہہ دیا جائے کہ ایک ہستی کا نام خدا بھی ہے، جسے تم کو جاننا چاہیے اور ایک ہستی کو اللہ نے رسول بھی بنا کے بھیجا تھا۔ لیکن اس خدا اور اس رسول کا کوئی مظاہرہ (Function) ان کو باقی پیریڈز میں نظر نہیں آتا۔ بلکہ اس کے برعکس تمام علوم و فنون اس طرز پر پڑھائے جارہے ہیں، جس طرز پر اہلِ مغرب نے انہیں مرتب کیا ہے۔ یا جو ہمارے ہاں کے ان لوگوں کی لکھی ہوئی کتابیں ہیں جو اہلِ مغرب کی مکھی پر مکھی مارنے کے عادی ہیں۔ اس سے آپ بالکل توقع نہ رکھیں کہ آپ کے ہاں وہ نسل کبھی پروان چڑھ سکے گی جو یہاں اسلام کا احیا کرے اور احیا کرنا تو درکنار اسلام کو باقی رکھ سکے۔ (تہذیبی کشمکش میں علم و تحقیق کا کردار)
٭…٭…٭
تصوّرِ اسلام
اب اگر آپ مجھ سے دریافت کریں کہ آج ’’اسلام‘‘ اور ’’مسلم جماعت‘‘ اور ’’جہاد‘‘ کا وہ تصور‘ جو تم پیش کررہے ہو، کہاں غائب ہو گیا؟ اور کیوں دنیا بھر کے مسلمانوں میں کہیں بھی اس کا شائبہ تک نہیں پایا جاتا؟… تو میں عرض کروں گا کہ یہ سوال مجھ سے نہ کیجیے، بلکہ ان لوگوں سے کیجیے جنہوں نے مسلمانوں کی توجہ ان کے اصلی مشن سے ہٹا کر تعویذ، گنڈوں اور عملیات اور مراقبوں اور ریاضتوں کی طرف پھیر دی… جنہوں نے نجات، فلاح اور حصولِ مقاصد کے لیے شارٹ کٹ تجویز کیے، تاکہ مجاہدے اور جانفشانی کے بغیر سب کچھ تسبیح پھرانے یا کسی صاحبِ قبر کی عنایات حاصل کرلینے سے ہی میسر آجائے۔ جنہوں نے اسلام کے کلیات اور اصول و مقاصد کو لپیٹ کر تاریک گوشوں میں پھینک دیا اور مسلمانوں کے ذہن کو آمین بالجہر اور رَفع یَدین اور ایصالِ ثواب و زیارتِ قبور اور اسی قسم کے بے شمار جزئیات کی بحثوں میں ایسا پھنسایا کہ وہ اپنے آپ کو اور اپنے مقصدِ تخلیق کو اور اسلام کی حقیقت کو قطعی بھول گئے۔ اگر اس سے بھی آپ کی تشفی نہ ہو، تو پھر یہ سوال ان اُمرا اور احکام اور اصحابِ اقتدار کے سامنے پیش کیجیے، جو قرآن اور محمدؐ پر ایمان لانے کا دعویٰ تو کرتے ہیں، مگر قرآن کے قانون اور محمد رسول اللہؐ کی ہدایت کا اس سے زیادہ کوئی حق اپنے اوپر تسلیم نہیں کرتے کہ کبھی ختم قرآن کرا دیں… اور کبھی عید میلاد کے جلسے کروا دیں… اور کبھی اللہ میاں کو نعوذ باللہ ان کی شاعری کی داد دے دیا کریں۔ رہا اس قانون اور ہدایت کو عملاً نافذ کرنا، تو یہ حضرات اپنے آپ کو اس سے بری الذمہ سمجھتے ہیں… کیونکہ درحقیقت اِن کا نفس اْن پابندیوں کو قبول کرنے اور اْن ذمے داریوں کا بوجھ سنبھالنے کے لیے ہرگز تیار نہیں ہے، جو اسلام اِن پر عائد کرتا ہے۔ یہ بڑی سستی نجات کے طالب ہیں۔ (جہاد فی سبیل اللہ)