معاوضے اور شہرت کی دوڑ نے شاعر و ادیب کو بچوں کے ادب کی تخلیق سے دور رکھا ہوا ہے

490

 

کراچی (رپورٹ: خالد مخدومی) بچوں کے ادب کی طرف توجہ نہ ہونے کی وجہ ادب کے بڑے لکھاریوں کا عجلتی شہرت کا رسیا ہو نا ہے، ہر ادیب بچوں کے لیے لکھ نہیں سکتا، بچوں کا ادب لکھنا ایک مخصوص صلاحیت ہے جو خاص عطا کردہ ہے، بچوں کی نفسیات چونکہ پل پل بدلتی رہتی ہے اس لیے ادیب اُسے جانچنے میں مشکل صورتحال سے دوچار ہوتا ہے ، انٹر نیٹ تک بچوں کی رسائی نے ان میں کتابیں پڑھنے کا رحجان ختم کردیا ہے، بڑے لکھنے والے والوں کے خیال میں بچے خود ان کی تحریوں کے خریدار نہیں، انہیں ان کی تخلیقات کا
مناسب معاوضہ نہیں ملتا، اکثر ادیبوں کو اپنے بال بچوں کا پیٹ کاٹ کر، بھوک پیاس اور تنگی ترشی برداشت کر کے اپنی جیب سے تخلیقات شائع کرانا پڑتی ہیں، بڑے ادبیوں کی جانب سے اس طرف عدم توجہ کے باوجود آج بھی بچوں کا میعاری اور اچھا ادب تخلیق ہورہا ہے، ان خیالات کا اظہار معروف شعراء ، ادبیوں،بچوں کے رسالوں کے مالکان اور ایک اشاعتی اداروں نے جسارت اس کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کیا جس میںپوچھا گیا تھا کہ کیا وجہ ہے کیا کہ کیا وجہ ہے کہ ہمارے بڑے شاعر اور ادیب بچوں کا ادب تخلیق کرنے پر مائل نہیں ہوتے معروف شاعر ، ادیب اور جامعہ کراچی کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر پیرزادہ قاسم رضاصدیقی کا کہنا تھا کہ بچوں کا ادب ناپید ہوتا جا رہا ہے،بچوں کاا دب تخلیق کرنا آسان کام نہیں ہے ،اس کے باوجود بہت سے شاعر اور ادیب کوشش کرتے ہیں کہ وہ بچوں کے لیے لکھ سکیں لیکن ان کے لیے یہ ممکن نہیں ہوتا، پیرزادہ قاسم کا کہنا تھا کہ ہر ادیب بچوں کے لیے لکھ نہیں سکتا یہ ایک خاص صلاحیت ہے جو خاص عطا کردہ ہے کہ بچوں کا ادب تخلیق کیا جائے بچوں کے ادب کے ذریعے پہلے شخصیت کی تعمیر ہوتی تھی اور اب بچوں کے ادیب کم ہوتے جا رہے ہیں تاہم ٹیکنالوجی کے اس دور میں بھی بچوں کے لیے کچھ نہ کچھ لکھا جا رہا ہے لیکن وہ انتہائی مختصر ہے اور پڑھنے والوں کو وہ پسند بھی نہیں ۔پیرزادہ قاسم کا کہنا تھا کہ بچوں میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کم ہوتی جا رہی ہے، ٹیکنالوجی کے نام پر ہم نے بچوں روبوٹس میں تبدیل کردیا ہے،سچائی اور حقیقت یہ ہے کہ بچوں کا ادب فروغ پانے سے بچوں میں تعلیمی میدان میں آگے بڑھنے کا شوق بھی پیدا کرتا ہے،بچوں کی شخصیت کو نکھارتا اور ان کی صلاحیتوں کو ابھارتا ہے، نونہال اور آنکھ مچولی جیسے بچوں کے معروف رسالوں کے سابق مدیر پروفیسر سلیم مغل نے جسارت کے سوال کے جواب میں کہاکہ ہر کام کے پیچھے ایک محرک جذبہ ہو تا ہے یا کو ئی خیال ہوتا ہے ،بڑے لکھاری کی تخلیقات کے پیچھے عموعا پیسہ ،ان کے لکھے کی پذیرائی اور شہر ت کا خیال ہوتا ہے،جبکہ بڑے لکھنے والے والوں کے خیال میں بچے خود ان کی تحریوں کے خریدار نہیں، ان کے سرپرستوں کی اکثریت اب بچوں کی غیر نصابی کتابوں کی خریداری کو فضول سمجھتی ہے،جبکہ بڑے ادبیوں اور شعراء کاخیال ہے بچوں کا ادب لکھنے سے ان کو شہر ت بھی حاصل نہیںہو گی، پروفیسرسلیم مغل کا مزید کہنا تھا کہ بدقسمتی سے سرکاری طور پر بھی اور نجی ادبی انجمنوں اور اداروں نے اس ا س معاملے پر اپنا فرض ادا نہیں کیا، اگر وہ چاہتے تو اپنے اداروں میں بچوں کا ادب تخلیق کرنے والوں کے لیے جگہ بنا سکتے تھے۔ اسلامی جمعیت طلبہ کی جانب سے شائع ہونے بچوں کے رسالے ساتھی اور بچوں کے ایک اور رسالے شاباش کے سابق مدیر اعظم منہاس نے جسارت کے سوال کے جواب میں کہا کہ اس کی بنیادی وجہ بچوں کے ادب کے قارئین کی تعدا د بہت محدود ہوگئی ہے بلکہ ختم ہونے کے قریب ہے،انٹر نیٹ تک بچوں کی رسائی نے ان میں کتابیں پڑھنے کا رحجان ختم کردیا ہے، اعظم منہا س کا کہنا تھاکہ گوکہ انٹرنٹ پر بچوں کے لیے کافی موا د موجود ہے، لیکن پاکستانی شعراء ،دانشوروں اور ادبیوں کی عدم توجہ کی وجہ سے ہمارا نظریاتی اور ثفاقتی ادب انٹر نیٹ پر موجود نہیں ہے ان کا کہناتھاکہ بڑے ادبیوں ،دانشوروں اور شعرا ء کا بچوں کے لیے ادبی تخلیقات نہ کرنے اور بچوں میں کتاب پڑھنے کا شوق ختم ہونے میں ملک کے حکمرانوں ،سیاسی اور معاشی رسوخ رکھنے والوں کا بچوں کے ادب اوراس کے لکھاری کی طرف توجہ نہ دیناہے ۔ جسارت کے سوال پر معروف شاعر اور ادیب فیض عالم بابر نے کہا کہ تمام صنفِ ادب میں مشکل ترین صنف بچوں کا ادب ہے۔بچوں کی نفسیات چونکہ پل پل بدلتی رہتی ہے اس لیے ادیب اُسے جانچنے میں مشکل صورتحال سے دوچار ہوتا ہے ۔آج کے اس دورِ نا پرساں میں ہر شعبہ ہائے زندگی کی طرح ادب کے لکھاری بھی عجلتی شہرت کے رسیا ہیں، فیض عالم بابر کا کہناتھا کہ پبلشرز حضرات بھی مقبول عام ادب کوشرفِ پذیرائی بخشتے ہیں اور چونکہ بچوں کا ادب کمائی کا نہیں ذہنی تربیت اور اخلاقیات کے پنپنے کا ذریعہ ہے اورموجودہ دور میں تربیت، اخلاقیات متروک الفاظ کی طرح صرف بوسیدہ کتابوں میں دیمک نذر ہورہے ہیں۔ حکومتی سطح پر بھی اس حوالے سے ہر دور میں اغماض برتا گیا ہے، یہی وجوہات ہیں کہ اب بچوں کا ادب تخلیق نہیں ہورہا، معروف ادیب اور ایک اشاعتی ادارے کے مالک عبدالرحیم عزم کا کہناتھا کہ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ بچوں کے ادب کو حکمرانوں کی جانب سے کوئی سرپرستی حاصل نہیں، برائے نام چند ایک اداروں کے سوا کوئی قابل ذکر ادارہ نہیں اگر ہے تو وہ خود مالی اور دیگر مسائل کا شکار ہے وہ اپنے اصل کام کی طرف توجہ کیسے دے سکتا ہے ،دوسری بات یہ کہ بچوں کے لیے لکھنے والوں کی قدر نہ ہونے کے برابر ہے، اگر کی بھی جاتی ہے تو بھی محض بہلانے کے لیے جب بچوں کے لیے لکھنے والوں کی قدر نہیں ہو گی تو اچھا ادب کہاں سے تخلیق ہو گا۔ اس سلسلہ میں اہم بات تو یہ ہے کہ اول تو بچوں کے ادیبوں کو ادیب تسلیم ہی نہیں کیا جاتا اگر کر بھی لیا جائے تو بھی پھر سال ہا سال سے انہیں کوئی خاص ایوارڈ یا اعزاز نہیں دیا جارہا ہے۔ ان کا مزید کہناتھا کہ بچوں کے لیے لکھنے والے ادبا کو اول تو ناشر ادارے کچھ دیتے نہیں،اگر دیتے ہیں تو وہ بھی اونٹ کے منہ میں زیرہ یعنی برائے نام یوں انہیں ان کی تخلیقات کا مناسب معاوضہ نہیں ملتا۔ اکثر کو اپنے بال بچوں کا پیٹ کاٹ کر، بھوک پیاس اور تنگی ترشی برداشت کر کے اپنی جیب سے تخلیقات شائع کرانا پڑتی ہیں. پھر کتاب کی فروخت کے مسائل بھی حائل ہوتے ہیں جس سے ادبا میں یاسیت کا عنصر پیدا ہوتا ہے اور وہ قنوطیت و یاسیت کے اس ماحول میں اچھا ادب تخلیق نہیں کر پاتے، عبدالرحیم عزم کے مطابق بچوں کے ادب کے مسائل میں ایک اور بات جو خاص طور پر ادبی حلقوں موضوع گفتگو ہے، وہ جدید ٹیکنالوجی سے ذرائع ابلاغ کی سہولتوں کا عام ہونا ہے، بالخصوص اس میں موبائل اور انٹر نیٹ کا کردار سب سے زیادہ اثر انداز ہے جو کتب و رسائل پڑھنے، مطالعہ کرنے کی جگہ لے رہا ہے۔ کراچی کی معروف انجمن بزم شعر وسخن کے بانی طارق جمیل نے جسارت کے جواب میں کہا کہ آپ کی یہ بات درست نہیں ہے کہ آج کے بڑے شاعر و ادیب کی توجہ اس جانب نہیں ہیں آج بھی بچوں کا معیاری اور اچھا ادب تخلیق ہورہا ہے ۔ہر دور کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں آج مہارت اسپیشلائزیشن کا دور ہے ہر فیلڈ کے اپنے ماہر ہیں اور وہ اپنے میدان میں اپنا نام پیدا کرنا چاہتے ہیں بڑے ادیب یا شاعر بچوں کے ادب میں آج بھی موجود ہیں لیکن شاید وہ بڑوں کے ادب میں وہ مقام نہیں رکھتے جو اسے بچوں کے ادب میں حاصل ہیں۔ طبعی میلانات ہی تخلیق کی بنیاد بنتے ہیں یہ ضروری نہیں کہ ایک اچھا یا بڑا ادیب ادب کی تمام اصناف پر یکساں قدرت رکھتا ہو۔ سوال پھر یہ بھی بنتا ہیں کہ بچوں کے بڑے ادیب و شاعر بڑوں کا ادب تخلیق کرنے پر کیوں مائل نہیں۔