تعلیم و تربیت کا فقدان قوم و ملت کی بربادی کا سبب بن رہا ہے

2749

کراچی (رپورٹ: حماد حسین) معاشرے میں تعلیم و تربیت کا فقدان قوم و ملت کی بربادی کا سبب بنتا ہے‘ موجودہ تعلیمی نظام اور نصاب بچے کی معاشرتی، تاریخی، ثقافتی اور مذہبی لحاظ سے کردار سازی اور شخصیت سازی کرنے کے لیے نہ کافی ہے۔ ان خیالات کا اظہار جناح یونیورسٹی برائے خواتین کے شعبہ اسلامی تعلیم کی چیئرپرسن پروفیسر ثریا قمر، بحریہ یونیورسٹی میں شعبہ تدریس سے وابستہ ثمرین باری اور شعبہ تعلیم و تربیت سے17سال سے وابستہ اور لیڈ کی ڈائریکٹر کنول فواد نے نمائندہ جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’تربیت سے محروم تعلیمی نظام کے معاشرے پر کیا اثرات مرتب ہوئے ہیں؟۔ پروفیسر ثریا قمر کا کہنا تھا کہ تربیت کا آغاز تو ماں کی گود سے ہوتا ہے‘ بچے اپنے والد کے طور طریقے اپناتے ہیں‘ گھر ہی بنیادی درس گاہ ہے جہاں تعلیم و تربیت کا آغاز ہوتا ہے‘ گویا پہلے استاد ماں باپ ہوتے ہیں‘ یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ اکثر والدین ڈگری یافتہ نہیں ہوتے‘ ان کو بنیادی طور پر ان عقائد کی تعلیم دی جاتی ہے جس مذہب کے وہ پیروکار ہوتے ہیں‘ اللہ کے رسول پر جو پہلی وحی نازل ہوئی تھی ‘وہ بھی پڑھنے کے حوالے سے تھی‘ معاشرے میں جو انتشار و انارکی بڑھی ہے اس کی وجہ تعلیم و تربیت کا فقدان ہے اور ان دونوں کے درمیان فرق پیدا کردیا گیا ہے‘ تعلیم کو ترقی دی جارہی ہے اور تربیت کو یکسر نظرانداز کردیا گیا ہے‘ اب مقصد یہ رہ گیا ہے کہ تعلیم حاصل کر کے دنیا میں کامیاب زندگی بسر کریں اور دوسروں کی نظر میں انہیں معزز مقام حاصل ہو لیکن اخلاقی و عملی تربیت کے پہلو پر ان کی توجہ اتنی نہیں ہے‘ تربیت سے متعلق اصول و نظریات کے مطابق اسلامی و غیر اسلامی اصولوں کے مابین ایک فرق ہے۔ اسلامی نظریہ یہ کہتا ہے کہ انسان صرف جسم یا عقل یا روح کا نام نہیں بلکہ ان تینوں کا مجموعہ سے انسان کا وجود قائم ہوتا ہے‘ ان اجزا کو باہم منفصل نہیں کیا جاسکتا‘ اگر جسم کو روح و عقل سے یا عقل کو جسم و روح سے علیحدہ کر دیا جائے تو اس وجود کی کوئی حقیقت باقی نہیں رہ سکتی‘ غیر اسلامی نظریہ کہتا ہے کہ”اچھے وطن پرست انسان” تیار کیے جائیں‘ پھر وطن پرستی کا معیار ہر جگہ الگ الگ ہے‘ بہت سے لوگ خدا کے منکر افراد کو بھی اچھا وطن پرست مانتے ہیں‘ بہت سے لوگ نسل پرست متعصب فرد کو بھی وطن پرست مانتے ہیں۔ اسلام کا نقطہ نظر اس سلسلے میں قطعی طور پر مختلف ہے‘ وہ وطن یا نسل ورنگ کے دائرے میں محدود ہوکر تربیت کے مقاصد کا تعین نہیں کرتا بلکہ اس کا اولین تربیتی مقصد “اچھے انسان” کی تیاری ہے جس کے دل میں ایمان، اصلاح و تقویٰ اور ایثار و قربانی کی شمع روشن ہو‘ وہ اپنے مفاد سے پہلے دوسروں کے مفاد کو اہمیت دے اور انسان کو غیراللہ کی بندش سے نکال کر رب العالمین کی بارگاہ میں سربسجود کرے۔ ثمرین باری کا کہنا تھا کہ ایک ماں ، ایک استاد اور ایک طالب علم کی حیثیت سے میرا یہ مشاہدہ ہے کہ معاشرے میں پریشانیاں آ رہی ہے‘ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم نے تعلیم کو صرف ایک ڈگری کے حصول تک محدود کردیا ہے‘ عالمگیریت کی وجہ سے دنیا بھر کے معاشرے میں بڑی تبدیلیاں پیدا ہو رہی ہیں‘بطور ایک پاکستانی اور استاد ہمارا کردار بہت اہم ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم اپنی نسلوں کو تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت بھی دیں‘ اور ایک بہتر معاشرے کی تشکیل میں اپنا حصہ ڈالیں‘تعلیم کی اہمیت سے انکار نہیں ہے‘ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہو گا کہ ہمارے معاشرے میں تعلیم کا حصول صرف ڈگری اور اچھی نوکری تک محدود کردیا گیا ہے جبکہ دیکھا جائے تو تعلیم جسمانی، روحانی اور ذہنی نشوونما کرتی ہے‘ اخلاقی تربیت بھی خصوصی اہمیت کی حامل ہے۔ معروف مفکر روزویلٹ کا کہنا تھا کہ’’ اگر تعلیم کے حصول کے بعد انسان اپنے آپ کو دیگر انسانوں سے برتر سمجھے تو وہ اخلاقی تنزلی کا شکار ہو چکا ہے اور اس کے بعد پورا معاشرہ اخلاقی پستی کا شکار ہو جاتا ہے‘‘ ۔ شاید یہ بات ہمارے معاشرے کے لیے ہی کہی گئی تھی‘ ہم اپنے بچوں کو درسی کتابیں پڑھا کر سمجھتے ہیں کہ ہمارا فرض پورا ہو گیا جبکہ بات اس کے بالکل برعکس ہے۔ بچوں کی تربیت سازی ایک مسلسل عمل کا نام ہے‘ ہمیں مسلسل کردار سازی پر کام کرنا چاہیے‘ ہمارا مسئلہ کیا ہے کہ ہمارا سارا نصاب ہمارے نوآبادیاتی نظام سے ادھار لیا گیا ہے‘ ہم اس کی وجہ سے ان کے دیے گئے نصاب کو ویسے ہی پڑھا رہے ہیں‘ ہم یہ نہیں دیکھ رہے کہ ہمیں معاشرتی تاریخی، ثقافتی اور مذہبی لحاظ سے اپنے بچوں کی کردار سازی اور شخصیت سازی کرنی چاہییلیکن ہم اس تمام معاملے سے نابلد ہیں‘ ہم نوآبادیاتی نظام سے پیچھا نہیں چھڑا پا رہے ہیں ‘ اس کی وجہ سے ہماری نسلیں شخصی بحران کا شکار ہیں‘ ہمارے بچے نہ ٹھیک طرح سے اردو بول پاتے ہیں اور نہ ہی بہتر طور پر انگریزی پر عبور ہے جس کی وجہ سے ان کی شخصیت متاثر ہوتی ہے‘ ہمیں اپنے نصاب تعلیم کو اس طرح ترتیب دینا چاہیے کہ جس میں مذہبی، ثقافت اور ہمارے تاریخی ہیروز کا ذکر ہو جس کی مدد سے استاد بہتر طور پر طالبعلم کی تعلیم اور تربیت پر زیادہ توجہ دے سکیں۔ کنول فواد کا کہنا تھا کہ کیا ہمارے بچے استاد کو ایک مثالی شخصیت سمجھتے ہیں؟ کیا ہوتا ہے جب کوئی استاد اخلاقی اقدار کی خلاف ورزی کرتا ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جو معاشرے میں بڑھتی ہوئی بدنظمی اور بے راہ روی کو دیکھتے ہوئے ہمارے ذہنوں میں سر اْٹھاتے ہیں۔ یہ کہہ دینا کہ اس سب کے ذمے دار صرف اساتذہ ہیں‘ بے جا ہوگا کیونکہ ہم سب خواہ والدین، استاد، حکومت، معاشرہ یا نظام تعلیم برابر سے اس کے ذمے دار ہیں‘ موجودہ حالات کا جائزہ لیتے ہوئے یہ بات واضح طور پر نظر آتی ہے کہ ہم نے اپنے تعلیمی نظام سے ’’تعلیم و تربیت‘‘ کو علیحدہ علیحدہ کردیا ہے‘ بچوں کی تربیت کے دونوں اہم ستون یعنی والدین اور اساتذہ نے اپنی اپنی ذمے داریوں کو بانٹ لیا ہے۔ والدین کے خیال میں تعلیم صرف اسکول اور اساتذہ کا کام ہے اور اساتذہ کے حساب سے تربیت فقط والدین کی ذمے داری ہے‘ تعلیم و تربیت کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ حضرت ابراہیمؑ نے اللہ تعالیٰ سے جس رسول کے مبعوث فرمانے کی دعا کی‘ اس کی صفت یہ بیان کی کہ وہ پیغمبرؐ ایسا ہو جو لوگوں کو کتاب سکھا کر ان کی تعلیم و تربیت کرے۔ ترجمہ:۔ اور ہمارے پروردگار! ان میں سے ایک ایسا رسول بھیجنا جو انہی میں سے ہو‘ جو ان کے سامنے تیری آیتوں کی تلاوت کرے‘ انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے اور ان کو پاکیزہ بنائے۔ (البقرہ: 129-2) نیز اللہ تعالیٰ نے بھی مومنین پر احسان جتلاتے ہوئے فرمایا ہے کہ میں نے تمہارے اندر ایک ایسا رسول بھیجا ہے جس کے فرائضِ منصبی میں تعلیم و تربیت شامل ہے۔ (مفہوم) آلِ عمران: 164-3) معاشرے میں تعلیم و تربیت کا فقدان پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے اور قوم و ملت کی بربادی کا سبب بنتا ہے‘ ہماری کوتاہی اور لاپرواہی بچوں میں جھوٹ، چوری، گالم گلوچ، بے راہ روی، عدم برداشت، فضول خرچی، حسد، دشمنی، قتل و غارت، کرپشن اور منشیات جیسی بے شمار غیر اخلاقی اقدار کا سبب بنتی ہے اور یوں اس کا اثر صرف انفرادی نہیں بلکہ معاشرتی سطح پر بھی ہے لہٰذا اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ تعلیم و تربیت کے فقدان کے اسباب کو تلاش کیا جائے اور ان کا سدباب کیا جائے‘ بحیثیت ایک ایجوکیشن کنسٹنٹ جب ہم اپنے ملک میں رائج تعلیمی نظام کا جائزہ لیتے ہیں تو کئی عوامل سامنے آتے ہیں جن میں سے چند کا ذکر کرنا میں ضروری سمجھتی ہوں۔ ان میں حکومتی عدم توجہی، طبقاتی نظامِ تعلیم، نصاب میں خیالات و تصورات کے ساتھ ساتھ تربیت کے پہلو کا شامل نہ ہونا، اساتذہ کی نیم خواندگی اور تربیت کی کمی، نقل سفارش اور جعل سازی، نصاب کا کثیر اللسان/ ہفت زبان نہ ہونا، معاشرے کا تعلیم و تربیت کی اہمیت سے بے بہرہ ہونا شامل ہیں‘ جیسا کہ پہلے بھی موضوع بحث لایا گیا ہے کہ تعلیم و تربیت کے فقدان میں کئی عوامل ہیں۔ مثلاً والدین، اساتذہ، نظام تعلیم، میڈیا، حکومت، سیاسی و مذہبی جماعتیں۔ لہٰذا اس کے سدباب کی ذمے داری بھی ان ہی پر عاید ہوتی ہے‘ ہمیں مل جل کر تعلیم و تربیت میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنا ہوگا اور معاشرے کو اس بحران سے نکالنا ہوگا‘ کوئی بعید نہیں کہ ہم اپنے بچوں کو مختصر مدت میں تعلیم و تربیت کے زیور سے آراستہ کرسکیں۔