’’حق دو کراچی کو‘‘

854

جماعت اسلامی کراچی کے امیر انجینئر حافظ نعیم الرحمن کی جانب سے ’’حق دو کراچی کو‘‘ کا نعرہ کسی شعبدہ بازی کے لیے نہیں لگایا بلکہ وفاق اور حکومت سندھ کی جانب سے ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کے ساتھ کی جانے والی مسلسل نا انصافیوں اور حق تلفیوں کے ردعمل کے طور پر اور ان کی تلافی لیے لگایا جارہا۔ یہ حق تلفی کس طرح کی جاتی ہے اس کا اظہار سیکرٹری لوکل گورنمنٹ بورڈ حکومت سندھ ضمیر عباسی نے ایک نوٹیفیکیشن کے ذریعہ کیا ہے۔ یہ نوٹیفیکیشن بلدیہ عظمیٰ کراچی اور صوبے بھر کے بلدیاتی اداروں سے متعلق ہے مگر ویسے اس وقت جاری کیا گیا جب منتخب بلدیاتی کونسلیں نہیں ہیں۔ منتخب بلدیاتی کونسلوں کی عدم موجودگی میں ان کونسلوں کی آسامیوں کے حوالے سے جاری کیے جانے والے اس نوٹیفیکیشن سے صوبائی حکومت کی بدنیتی واضح ہے۔
اس نوٹیفیکیشن کے مطابق حکومت سندھ نے بلدیہ عظمیٰ کراچی سمیت تمام بلدیاتی اداروں کی اہم آسامیوں کو اپنے کنٹرول میں لے لیا ہے۔ جس کے نتیجے میں صوبے کے سب سے بڑے بلدیاتی ادارے بلدیہ عظمیٰ کراچی 74 اسامیوں پر اب حکومت سندھ کا کنٹرول رہے گا اور وہی ان آسامیوں پر اپنے افسران کا تقرر کر سکے گی۔ اس بڑے فیصلے کے بعد بلدیہ کراچی اور ڈسٹرکٹ میونسپل کارپوریشنز (ڈی ایم سی) کے افسران میں شدید تشویش پھیل گئی ہے ان کا کہنا ہے کہ حکومت سندھ کا یہ عمل متعصبانہ ہے۔ جس سے سندھ شہری اور دیہی کے درمیان تفریق پیدا ہوگی۔ سرکاری ذرائع کے مطابق حکومت سندھ کے محکمہ لوکل گورنمنٹ بورڈ کا یہ فیصلہ بظاہر تو ایک انتظامی فیصلہ ہے دراصل یہ فیصلہ کراچی کے حقوق اور اس کی آمدنی پر ایک کاری ضرب ہے۔ فیصلے کے نتیجے میں سندھ یونیفائیڈ گریڈ کونسل سروس (ایس یو جی سی ایس) سے تعلق رکھنے والے تمام افسران کی ماہانہ تنخواہ کا بوجھ بلدیہ عظمیٰ پر پڑجائے گا۔ کیونکہ سندھ یونیفائیڈ گریٹ کونسل سروس کے قوانین کے تحت اس کے جو افسر جہاں تعینات کیے جائیں وہیں سے وہ تنخواہیں لینے کے پابند ہوتے ہیں۔ گریڈ 16 تا 21 کے یہاں تعینات کیے جانے والے افسران کی تنخواہ بلدیہ عظمیٰ کراچی کو دینا پڑے گی جبکہ حکومت سندھ اس مد میں مالی بوجھ سے مبرا ہوجائے گی۔ جب کہ صورت حال یہ ہے کہ بلدیہ عظمیٰ کراچی شدید مالی بحران کی وجہ سے اپنے ملازمین کو ماہانہ تنخواہیں ادا تک نہیں کر پا رہی یہ تنخواہ حکومت سندھ کی جانب سے بلدیہ عظمیٰ کراچی کو آکٹرائے لا ٹیکس کی مد میں دی جانے والی گرانٹ سے ادا کرتی ہے۔ یہ وہی گرانٹ ہے جو آکٹرائے ضلع ٹیکس کراچی سے ختم کیے جانے کے بعد وفاقی حکومت کی جانب سے اس کے بدلے میں دی جاتی ہے گوکہ یہ کوئی کراچی پر احسان نہیں کیا جاتا بلکہ اس کا حق دیا جاتا ہے۔ چونکہ حکومت سندھ گزشتہ بارہ سال سے صوبائی مالیاتی ایوارڈ کا اعلان نہیں کرسکی نہیں جس کے تحت بلدیاتی اداروں کو حکومت کی جانب سے ملنے والی سالانہ رقم میں کوئی خاطر خواہ اضافہ کیا گیا نہ ہی آکٹرائے ضلع ٹیکس کی مد دیے جانے والی رقم بڑھائی گئی۔
یہی نہیں بلکہ حکومت کی طرف سے بلدیاتی قوانین پر سختی سے عمل درامد نہ کرکے کرپٹ عناصر کو کراچی کے فنڈز کو ہڑپ کرنے کا موقع دیا جارہا ہے۔ اگرچہ صوبائی وزیر بلدیات و اطلاعات ناصر شاہ زیادہ فعال خوش اخلاق اور بااصول شخصیت لگتے ہیں لیکن دو مرتبہ وزیر بلدیات و اطلاعات اور ٹرانسپورٹ رہنے کے باوجود کراچی کو کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں ہو سکا یقینا اس کی وجوہات ہوںگی، انہیں بہت سی مجبوریوں کا بھی سامنا ہوگا۔ صوبائی حکومت کچھ کرے یا نہ کرے لیکن عام خیال یہ ہے وہ کرپٹ عناصر کو کرپشن کا بھرپور موقع فراہم کر رہی ہے اس مقصد کے لیے ایک بار پھر شہر کے بد عنوان افسران کو سامنے لایا جا رہا ہے۔ بلدیہ عظمیٰ کراچی میں گزشتہ بارہ سال سے ایسے افسران کا راج رہا ہے جو بلدیہ عظمیٰ کراچی کے ملازمین بھی نہیں ہیں مگر سب با اثر افراد کے قریب رہ کر کراچی کو نقصان پہنچاتے رہے۔ ایک بار پھر ایسے ہی کرپٹ افسران کو موقع دیا جا رہا ہے حالانکہ میں جن دس افسران کا ذکر کر رہا ہوں انہیں خود حکومت سندھ کے محکمہ لوکل گورنمنٹ بورڈ نے واپس اپنے سابقہ محکموں میں اصل گریٹ کے ساتھ واپس بھیجنے کی ہدایات کی تھی مگر پھر ایڈمنسٹریٹر لئیق احمد نے من پسند تعینات کردیا ہے۔ مذکورہ افسران میں وہ بھی ہیں جو 2008 سے سینئر ڈائریکٹر فل سروسز کی ذمے داریاں انجام دیتے رہے اس دوران مبینہ طور پر اربوں روپے کے فنڈز کی ہیرا پھری کی گئی، نالوں کی صفائی ہو یا محکمہ فائر بریگیڈ کے معاملات انہوں نے دل کھول کر بلدیہ عظمیٰ کراچی کو نقصان پہنچایا اب جب وفاقی حکومت کی جانب سے پچاس نئے فائر ٹینڈر کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن کو فراہم کر دیے گئے مذکورہ افسر اپنی ٹیم کے ساتھ دوبارہ سینئر ڈائریکٹر میونسپل سروسز کی اہم ترین اسامی پر آ بیٹھا ہے جس کی وجہ سے خدشات ہیں کہ ایک بار پھر فائر ٹینڈرز کی تعداد تیزی سے خراب ہو کر کام ہو جائے گی، یاد رہے کہ 2008 میں 64 فائر ٹینڈرز تھے جو اب کم ہوکر صرف آٹھ رہ گئے تھے جو حال ہی میں نئے چیف فائر آفیسر مبین احمد کی بھر پور توجہ کی وجہ سے 14 ہوچکے ہیں۔ حکومت اگر محکمہ فائر بریگیڈ کی بہتری چاہتی ہے تو اسے چاہیے کہ اس ڈپارٹمنٹ کو محکمہ میونسپل سروسز سے فوری علٰیحدہ کرکے براہ راست میٹروپولیٹن کمشنر ایڈمنسٹریٹر کی نگرانی میں دے دیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ محکمہ فائر بریگیڈ کو تجربہ کار مگر کرپٹ افسران سے دور رکھا جائے تمام کرپٹ افسران کو بلدیہ کراچی ہی سے دور کر دیا جائے۔ اگر ایسا نہیں کیا گیا تو محکمہ فائر بریگیڈ کی مستقبل قریب میں تباہی کی ذمے داری ایڈمنسٹریٹر اور صوبائی حکومت پر ہوگی۔