اسلام آباد (رپورٹ:میاں منیر احمد) عالمی سفارتی تعلقات، دوطرفہ امور اور عالمی سیاسیات پر نظر رکھنے والی سیاسی، شخصیات، قانون دانوں اور دانش ور تجزیہ کاروں کی رائے میں پاکستان کے لیے یہ فی الحال ممکن نہیں کہ وہ اچانک پلٹا کھاکر مکمل طور پر چین کے کیمپ میں چلا جائے اور نہ ایسی کوئی کوشش دکھائی دے رہی ہے پاکستان نے ہمیشہ یہ کوشش کی کہ وہ ایک متوازن خارجہ پالیسی کے ذریعے عالمی برادری کے ساتھ تعلقات رکھے،عالمی مالیاتی ادارے امریکا کے زیر اثر ہیں، تجارت کا حجم بھی اس کے ساتھ زیادہ ہے، دنیا میں اس کا اثرو رسوخ بھی واضح ہے ۔روزنامہ جسارت سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری نے کہا کہ دنیا میں ہر ملک بھی اپنی خارجہ پالیسی اپنے مفاد کے مطابق بناتا ہے اور خارجہ پالیسی
کسی خاص ملک اور کیمپ کے لیے نہیں ہوتی، تحریک انصاف کی حکومت خارجہ پالیسی کے لیے سب سے پہلے ملک کا مفاد دیکھ رہی ہے، ہمیں اپنا قومی مفاد عزیز ہے اور اسے ہی ہم مقدم رکھ رہے ہیں یہی ہماری خارجہ پالیسی کا مرکز اور محور ہے، ہماری خارجہ پالیسی کسی ملک یا کسی کیمپ کے لیے نہیں ہے۔ن لیگ کے رہنما سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی ہمیشہ متوازن رہی ہے اور عالمی سطح پر خارجہ پالیسی ہمیشہ دو طرفہ ترجیحات اور مفادات کے تابع رہتی ہے کوئی ملک بھی کسی کیمپ میں نہیں ہوتا، ہر ملک اپنی خارجہ پالیسی کے لیے اپنا مفاد دیکھتا ہے، امریکا دنیا کا بڑا ملک ہے، اس کی ترجیحات اپنی ہیں اور وہ دنیا کو اپنی نظر سے دیکھتا ہے مگر پاکستان نے ہمیشہ اپنے مفاد کو مقدم رکھا اور اسی کی گرد اپنی خارجہ پالیسی چلائی ہے۔ سابق ہائی کمشنر اور سفارتی امور کے ماہر ڈاکٹر عبدالباسط نے کہا کہ ہماری خارجہ پالیسی کبھی ایسی نہیں رہی کہ ہم کلی طور پر کسی ایک ملک کے ساتھ چل رہے ہوں بلکہ پاکستان نے ہمیشہ یہ کوشش کی کہ ہماری خارجہ پالیسی متوازن رہے اور عالمی امن کے لیے ہم نے امریکا اور چین کے مابین پل کا بھی کردار ادا کیا، ہمیں اپنے مفادات عزیز رہے ہیں ، ہماری خارجہ پالیسی میں مسلم دنیا کے ساتھ تعلقات کی بہت اہمیت رہی ہے، خارجہ پالیسی کا محور ہی یہی رہا کہ کسی جانب جھکائو کے بغیر ہم آزاد خارجہ پالیسی کے ذریعے ہم عالمی امن کو فروغ دیں اور اپنے مفادت کا تحفظ کریں۔پیپلزپارٹی کے رکن قومی اسمبلی اور جنوبی پنجاب کے لیے سیکرٹری اطلاعات نواب زادہ افتخار احمد خان بابر نے کہا کہ گزشتہ 2سال میں ملک میں خارجہ پالیسی سمیت ہر شعبے میں تباہی آئی ہے، ترکی، سعودی عرب، ملائشیا اور امارات جیسے ملکوں سے بھی ہمارے تعلقات ماضی جیسے نہیں رہے، ناکام سرکار ہر شعبے میں ناکام ہورہی ہے، اس سے کامیاب سفارت کاری کی امید ہے اور نہ اس میں صلاحیت ہے، یہ کسی بھی کیمپ میں نہیں جارہے بلکہ یہ سرکار ملک کو ناکامی کے کیمپ میں لے جارہی ہے۔ قومی اسمبلی میں جماعت اسلامی کے پارلیمانی لیڈر مولانا عبدلاکبر چترالی نے کہا کہ ہمیں قرآن و سنت کے کیمپ میں رہ کر اپنے فیصلے کرنے ہیں، ہم ایک اسلامی ملک ہیں اور نظریاتی مملکت ہیں، ہمیں اگر کوئی فیصلہ کرنا ہے تو سب سے پہلے یہ دیکھنا ہے کہ بطور اسلامی ملک ہم کیا فیصلہ کریں، امریکا نے تو ہمیں ہمیشہ نقصان ہی دیا ہے، ہمارے لیے مسائل پیدا کیے ہیں اور اس نے اپنی پالیسیاں یہاں نافذ اور مسلط کرنے کی کوشش کی ہے، اب ہمیں جائزہ لینا چاہیے کہ ہمیں کیا کرنا ہے۔ تحریک نوجوانان پاکستان کشمیر کے چیئرمین سیاسی رہنما اور دانش ور عبد اللہ حمید گل نے کہا کہ امریکا کی پاکستان میں بہت وسیع سرمایہ کاری ہے، یہ سرمایہ کاری محکموں میں ہے، خاندانوں میں ہے اور اجتماعی بھی ہے اور انفرادی بھی ہے، یہ سرمایہ کاری وہ یہاں ہمارے ملک میں گزشتہ 70 برس سے کر رہا ہے اور اس سے یہاں ہماری تیسری نسل ہے جو مستفید ہورہی ہے، چین نے یہاں جو سرمایہ کاری کی ہے اس کی ابھی دوسری نسل ہے جب کہ روس کے ساتھ ابھی اعتماد والا ماحول نہیں بنا ہے اور ویسے بھی اس کے ساتھ سفارتی تعلقات اور دو طرفہ دوستی کے لیے بہت سے کٹھن مراحل ابھی طے ہونا باقی ہیں، ہمیں یہ بھی دیکھنا ہے کہ پاکستان کے ساتھ امریکا کی تجارت کا تناسب بھی بہت زیادہ ہمیں وہاں زراعت، میڈیکل اور حتی کہ فوجکے لیے بھی بہت کچھ مل رہا ہے اور اس ملک کے ساتھ ٹیکنالوجی کی منتقلی کے لیے مواقع ملتے رہتے ہیں، یہ کہنا کہ پاکستان امریکی کیمپ سے نکل رہا ہے فی الحال یہ بات نہیں لگ رہی، امریکی کیمپ سے نکلنے کی کوشش تو گزشتہ 70سال سے بھی ہورہی ہے مگر اس میں کامیابی بھی نہیں ہورہی ہے اس کی بہت سی علاقائی اور عالمی وجوہات بھی ہیں البتہ پاکستان ایک متوازن خارجہ پالیسی کے تحت چلنا چاہتا ہے اور اس کی کوشش بھی کر رہا ہے، ویسے بھی 2 ملکوں کے درمیان دوستی ایسی نہیں ہوتی کہ اچانک شروع ہوجائے اور اچانک ختم ہوئے، یہ دو طرفہ مفادات کی بات ہوتی ہے اور خارجہ امور میں دو طرفہ مفادات کی بہت اہمیت تسلیم کی جاتی ہے ، ہم تو چین کے ذریعے روس تک پہنچے ہیں اور ابھی وقت لگے گا کہ ہمارے دو طرفہ تعلقات عروج آئیں، ابھی دونوں ملکوں کے تعلقات میں معمول پر آنے کے لیے بہت سے کٹھن مراحل بھی ہیں جنہیں طے کرنا بہت ضروری ہے، عالمی اسٹریجک اور سیاسی امور کے ماہر عمر فاروق نے کہا کہ ہماری ایلیٹ حکمران لابی یہ چاہتی ہے کہ امریکا اور چین کے درمیان توازن کے ساتھ رہا جائے اور حتی کہ وہ نئی سرد جنگ کے درمیان بھی اپنے لیے دونوں ملکوں کے ساتھ تعلقات میں توازن چاہتی ہے اور ہماری سفارتی ٹیم میں ایک لابی چاہتی ہے کہ ہمیں امریکا اور چین کے درمیان ایک بار پھر پل کا کردار ادا کرنا چاہیے لیکن اس کے باوجود میری رائے میں امریکا سے جان چھڑانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ تجزیہ کار عظیم چودھری نے کہا کہ آئی ایم ایف، عالمی بینک، ایشائی ترقیاتی بینک، پیرس کلب سمیت دنیا کے تمام عالمی مالیاتی اداروں پر چین نہیں امریکا کا کنٹرول ہے اور پاکستان کے پاس 16سولہ طیارے اور زیادہ تر اسلحہ بھی امریکااور برطانیہ کا ہے، میراج طیارے فرانس سے ہیں جو چین کے بجائے امریکا کے کنٹرول میں ہے یا اس کے زیر اثر ہے، عالمی اور علاقائی معروضی حالات بھی ایسے نہیں ہیں کہ پاکستان امریکی کیمپ سے باہر نکل رہا ہو، اگر یہ فیصلہ کرنا ہے تو پھر ہمیں گھاس کھانے کے لیے تیار رہنا ہوگا، ہمیں تیل ایران دے سکتا ہے، آذر بائیجان، ترکمانستان اورقطر گیس دے سکتے ہیں، ترکی ہمیں پیسے دے سکتا ہے مگر ہمیں یہ بھی دیکھنا ہے کہ کیا یہ ملک ہماری مدد کے لیے امریکی دبائو برداشت کرسکتے ہیں، غیر جانبدارانہ اور حقائق پر مبنی تجزیہ یہی ہے کہ یہ ملک ہمارا بوجھ برداشت نہیں کرسکتے ہمیں،ہمیں یہ بھی علم ہے کہ ہمارے اوپر غیرملکی قرضوں کی صورت حال کیا ہے، ہم نے اگر امریکا کے کیمپ سے نکل کر چین کے کیمپ میں چلے جانے کا فیصلہ کیا تو ہمارے لیے مشکلات بڑھ سکتی ہیں اور اگر ہم اس کے لیے تیار ہیں اور ہمارے اندر تحمل اور برداشت بھی ہے تو پھر یہ ممکن ہے ورنہ نہیں، اگر ہم تجارتی مقاصد کے لیے مکمل طور پر چین کے کیمپ میں جاناچاہیں تو ہمیں اس کے نتائج بھی دیکھنا ہوں گے۔مسلم لیگ(ج) کے سربراہ محمد اقبال ڈار نے کہا کہ پاکستان اپنے مسقبل کی تلاش میں ہے،امریکی کیمپ میں رہ کر بہت کچھ کھویا،اب اپنے قریبی ممالک میں دوست بنا رہا ہے،گوادر بندرگاہ کامسئلہ پرانا ہے،چین پہلے بھی ہر امتحان کے موقع پر پاکستان کا دوست ثابت ہوا ہے،بھارت کے امریکی بلاک میں جانے سے بھی ھم روس کے قریب آرہے ہیں لہذا آپ کہہ سکتے ھیں کہ ہم روس اور چین کے قریب جار رہے ہیں۔معاشی ماہر اور انجینئر عبدالرب خان نے کہا کہ روس کی قربت کی بات تو شاید قبل از وقت ہولیکن پاکستان چین کے قریب ہو رہا ہے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوگئی ہے، اس پس منظر میں یہ کہناکہ پاکستان امریکی کیمپ سے نکل رہا ہے شاید یہ بات درست نہ ہوکیونکہ پاکستان امریکی کیمپ سے نکلنا پسند نہیں کر رہا اور تمام معروضی حالات کے باوجودیہ بات سننا پسند نہیں کرتاکہ اس کی امریکی کیمپ سے کوئی دوری سمجھی بھی جاسکے،اس لیے منظر نامے کو اس تناظر میں دیکھیںکہ پاکستان مختلف کیمپوں کوایک دوسرے کے ساتھ چلانے کی کوشش کررہا ہے ناکہ ایک کیمپ سے نکل کردوسرے میں جائے۔ پارلیمانی رپورٹر ایسوسی ایشن کے سیکرٹری اور پارلیمانی امور کے ماہر تجزیہ کار علی شیر نے کہا کہ ہمارا جھکاؤ روس اور چین کی طرف ہے مگر پاکستان امریکا کو بھی چھوڑ نہیں رہا بلکہ متوازن خارجہ پالیسی کے ساتھ چل رہا ہے،ہم کیس ٹو کیس پالیسی کے ساتھ چل رہے ہیں ہماری سفارت کاری اپنے مطلب اور مقصد کی ترجیح کو اپنائے ہوئے ہے۔