اسلام آباد: پالیسیوں کے خلاف آرمی چیف اور سینئر افسران کو خطوط لکھنے پر پاک فوج کے ایک ریٹائرڈ میجر جنرل نے فوجی حکام کی تحویل سے اپنے بیٹے کی رہائی کے لیے اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع کرلیا ہے جبکہ ریٹائرڈ افسر کا موقف ہے کہ میرے بیٹے کو خطوط لکھنے کے الزام میں بلاجواز قید کیا گیا ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق ابتدائی سماعت کے بعد جسٹس محسن اختر کیانی نے شالیمار پولیس اسٹیشن کے ایس ایچ او اور آرمی ایڈجنٹ جنرل کو نوٹس جاری کرتے ہوئے ان سے میجر جنرل (ر) سید ظفر مہدی عسکری کی دائر کردہ درخواست پر 20 جنوری تک جواب طلب کرلیا ہے۔
درخواست گزار کی وکیل زینب جنجوعہ نے عدالت کو بتایا کہ ظفر مہدی عسکری کے بیٹے حسن عسکری ایک شہری ہے جنہیں دفعہ 131 کے تحت ایک مقدمے میں نامزد کیا گیا تھا لیکن جوڈیشل مجسٹریٹ نے انہیں فوج کے ایڈجنٹ جنرل کے حوالے کردیا تھا۔
درخواست گزار نے عدالت سے استدعا کی ان کے بیٹے کو رہا کرنے اور اس معاملے میں کورٹ مارشل کی کارروئی روکنے کا حکم دیا جائے۔
کیس کی تفصیلات کے مطابق حسن عسکری پیشے کے لحاظ سے ایک انجینئر ہیں اور بی آئی اے ایف او انڈسٹریز میں کام کررہے تھے، جب انہیں 2 اکتوبر 2020 کو اسلام آباد کے سیکٹر ایف-11 میں ان کی رہائش گاہ سے اٹھایا گیا۔
بعد میں مجسٹریٹ نے ان کے خلاف کورٹ مارشل کی کارروائی کے لیے اسی روز انہیں فوجی حکام کی تحویل میں دے دیا تھا۔
درخواست کے مطابق حسن عسکری نے چند مرتبہ چیف آف آرمی اسٹاف (سی او اے ایس) کو خط لکھ کر مسلح افواج کے افعال پر عدم اطمینان کا اظہار کیا تھا۔
درخواست میں کہا گیا کہ خطوط میں فوج کی موجودہ قیادت کی کچھ پالیسیز تنقید کی گئی تھی، شاید انہوں نے خطوط میں سخت الفاظ استعمال کیے جو محض ایک شہری کی مایوسی کو ظاہر کرتے ہیں جو ریاستی اداروں کی کچھ پالیسیز اور افعال پر عدم اطمینان کے لیے خطوط کا سہارا لے رہا تھا’۔
درخواست میں مزید کہا گیا کہ حسن عسکری نے کبھی تضحیک آمیز یا متنازع خطوط نہیں لکھے، ان کی کسی تحریر میں کبھی بھی جمہوری حکومت کو ختم کرنے پر اکسایا یا اس کی حوصلہ افزائی نہیں کی گئی۔
درخواست گزار کا کہنا تھا کہ ‘اس کے بجائے ان خطوط کے پیچھے مقصد موجودہ امور میں خامیوں کو اجاگر کرنا تھا’، درخواست گزار نے عدالت سے استدعا کی کہ ان کے بیٹے کے خلاف مقدمہ ختم اور ان کی رہائی کا حکم دیا جائے۔