نئی دہلی (انٹرنیشنل ڈیسک) بھارتی عدالت عظمیٰ نے مودی سرکار کی جانب سے زراعت کے شعبے میں متعارف کرائے گئے اصلاحاتی قوانین پر تاحکم ثانی عمل رکوا دیا۔ خبررساں اداروں کے مطابق منگل کے روز عدالت عظمیٰ نے 45 روز سے سراپا احتجاج کسانوں کے ساتھ مذاکرات کے لیے ایک آزاد کمیٹی کے قیام کے احکامات بھی جاری کیے، جو فریقین سے بات چیت کے بعد اس بحران کا حل تلاش کرے گی۔ ایک روز قبل عدالت عظمیٰ کی ایک سماعت میں کسانوں کی جانب سے دائر کردہ پٹیشنیں سنی گئی تھیں۔ عدالت اس نتیجے پر پہنچی کہ قوانین کو متعلقہ افراد کے ساتھ صلاح مشورے کے بغیر منظور کیا گیا اور اختلافات کے حل کے لیے حکومت اور کسانوں کے مابین مذاکرات بھی کسی سمت نہیں بڑھ رہے۔ چیف جسٹس کی صدارت میں 3 رکنی بنچ نے سماعت کے دوران کہا کہ وہ اس معاملے کے حل کے لیے سنجیدہ ہے، اسی لیے اس سے جو کچھ بھی ہوسکتا ہے اقدامات کر رہی ہے۔ چیف جسٹس ایس اے بوبڈے نے کہا کہ آیندہ احکامات تک ہم ان قوانین کے نفاذ پر روک لگا رہے ہیں۔ دوران سماعت عدالت نے کہا کہ اب یہ زندگی اور موت کا معاملہ ہے۔ ہمیں قوانین پر تشویش ہے۔ ہمیں اس کے خلاف ہونے والے احتجاج سے متاثر ہونے والے اثاثوں کی بھی فکر ہے۔ ہم احسن طریقے سے اسے حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہمارے پاس ان قوانین کو معطل کرنے کا اختیار بھی ہے۔ بھارتی حکومت نے گزشتہ ستمبر میں یہ متنازع زرعی قوانین وضع کیے تھے اور اس کا موقف تھا کہ یہ قوانین جلد بازی میں نہیں وضع کیے گئے، بلکہ گزشتہ 2 عشروں کے غور وخوض کا نتیجہ ہیں، اس لیے عدالت ان کے خلاف حکم امتناع سے گریز کرے۔ تاہم عدالت نے صورت حال کی سنگینی کے مد نظرحکومت کے موقف کو مسترد کر دیا۔ عدالت کا کہنا تھا کہ وہ اس مسئلے کا دیرینہ حل چاہتی ہے، اسی لیے اس نے کمیٹی تشکیل دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ ہمیں آپ اس کمیٹی سے متعلق نام دیجیے اور ہم پھر ہم فیصلہ کریں گے۔ اطلاعات کے مطابق عدالت کی تشکیل کردہ اس کمیٹی میں کسان تنظیموں سمیت حکومت کے نمایندے بھی شامل ہوں گے۔ عدالت نے کسان تنظیموں کی جانب سے آیندہ 26 جنوری کو ٹریکٹر ریلی کرنے کے سلسلے میں کسان یونین کو بھی نوٹس جاری کیا ہے۔ دھرنے پر بیٹھے کسانوں نے مطالبات نہ تسلیم کرنے کی صورت میں یوم جمہوریہ کے موقع پر دہلی میں ایک بڑی ٹریکٹر ریلی کے انعقاد کا اعلان کیا تھا۔ حکومت نے عدالت سے اپیل کی تھی کہ وہ اس ریلی پر روک لگانے میں حکومت کی مدد کرے۔ پیر کے روز عدالت عظمیٰ نے کاشتکاری سے متعلق متنازع قوانین کے خلاف کئی درخواستوں پر سماعت کے دوران کہا تھا کہ جس انداز سے کسان تنظیموں اور حکومت کے درمیان بات چیت میں پیش رفت ہوئی ہے، اس پر اسے کافی مایوسی ہے اور عدالت اب خود جلد ہی اس پر فیصلہ سنائے گی۔