نواز کھوکھر بھی یہ فانی دنیا چھوڑ گئے، ایسا لگ رہا ہے کہ ایک نسل ہی اٹھتی چلی جارہی ہے، یہ رواداری اور وضع داری والی نسل جارہی ہے، وہ راولپنڈی کی سیاست کا اہم نام اور کردار رہے، تین بار قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے، ڈپٹی اسپیکر بھی رہے، سیاسی زندگی پیپلزپارٹی سے شروع کی، پارٹی کے بانی ارکان میں شمار ہوتے تھے، تاہم بعد ازاں سیاسی وابستگی تبدیل کی، اسلامی جمہوری اتحاد میں مسلم لیگ کے کوٹے سے ٹکٹ ملا اور قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے، مسلم لیگ میں رہے مگر 1996 میں پیپلزپارٹی میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ کھڑے ہوئے اور آخری وقت تک پارٹی کا ساتھ نبھاتے رہے، سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر ان کے بڑے صاحب زادے ہیں نواز کھوکھر نے اپنی سیاسی زندگی میں بہت سے نشیب فراز دیکھے ہیں، بے شمار سیاسی راز ان کے سینے میں دفن تھے، اگر وہ ان میں سے کوئی ایک راز بھی کھول دیتے تو ملکی سیاست میں طوفان کھڑا ہوجاتا، اور کئی سیاسی جماعتوں کے گلشن جل جاتے اور سیاسی رہنمائوں کی انائوں کے پہاڑ زمین بوس ہوجاتے مگر وہ سب کچھ اپنے دامن میں سمیٹ کر اللہ کے حضور پہنچ چکے ہیں، اب ان سے متعلق کوئی بھی دعویٰ کرنا بے معنی اور بے مقصد ہوگا، وہ ذاتی زندگی میں بہترین منتظم تھے، کاروباری دائو پیچ سے بھی خوب واقف تھے، اور حد درجہ کھلے دل کے مالک تھے، دوستوں کے دوست، چند سال قبل ایک کوشش ہوئی کہ انہیں چودھری نثار علی خان کے مقابلے میں انتخابی دنگل میں اُتارا جائے، مگر رکھ رکھائو کے باعث وہ اس جانب نہیں آئے، پیپلزپارٹی راولپنڈی اور کسی حد تک مرکزی تنظیم ان کی موت سے بے حد متاثر ہوئی ہے، پارٹی کے لیے جب بھی ضرورت پڑی، ان کی جیب نے کبھی بخل سے کام نہیں لیا، پانی سیاسی لیڈر شپ کے ساتھ ان کی وفاداری بھی ایک مثال تھی، مسلم لیگ میں تھے تو نواز شریف کے حد درجہ وفادار رہے، مگر جب مسلم لیگ سے الگ ہوئے اور پیپلزپارٹی میں آئے تو آخری حد تک وفاداری نبھائی۔
1997 کے عام انتخابات میں پیپلزپارٹی کو بہت بری انتخابی شکست ہوئی تھی، پنجاب میں اس کی دور دور تک کوئی نشست نہیں تھی، سندھ میں اسے کامیابی ملی تھی، یوں اس طرح پیپلزپارٹی قومی اسمبلی میں ننھی سی پارلیمانی جماعت بنی، انتخابات کے نتائج کے دو چار روز بعد نواز کھوکھر نے اپنی رہائش گاہ ایف ایٹ ناظم الدین روڈ میں افطار ڈنر دیا، محترمہ بے نظیر بھٹو، حامد ناصر چٹھہ اور دیگر سیاسی اتحادی رہنماء اور میڈیا پرسنز بھی افطار ڈنر میں شریک تھے، انتخابی عمل میں مداخلت سے متعلق حامد ناصر چٹھہ نے کہا کہ ’’انہوں‘‘ نے ٹھپے لگائے ہیں، انتخابات میں مسلم لیگ(ن) دوتہائی اکثریت سے کامیاب ہوئی تھی اسی پس منظر میں ان سے میڈیا نے سوال کیا کہ سیاسی منظر نامہ بدل چکا ہے آپ کتنے عرصے کے لیے پارٹی میں رہیں گے، نواز کھوکھر نے جواب دیا تھا کہ ’’اب پکا فیصلہ کرلیا ہے کہ زندگی کی آخری سانس تک محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ رہوں گا، اور کسی اور طرف جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا‘‘ نواز کھوکھر کا یہ جواب محترمہ بے نظیر بھٹو کے لیے بہت حوصلہ افزاء تھا، حوصلہ افزاء اس لیے کہ ملک میں سیاسی منظر نامہ ایک سو اسی کے زاویے کے ساتھ تبدیل ہوا تھا، چند ہفتوں کے بعد نو منتخب اسمبلی کا اجلاس ہوا، الٰہی بخش سومرو قومی اسمبلی کے اسپیکر منتخب ہوئے، اسپیکر شپ کے لیے ان کے انتخاب نے پیپلزپارٹی کے لیے بہت سے سوالات رکھ دیے تھے، مگر نہایت چھوٹی سی پارلیمانی پارلیمانی پارٹی کے ساتھ اس وقت کی لیڈر آف اپوزیشن بے نظیر بھٹو نے کہا کہ ’’حکومت اپنا رویہ تبدیل کرے، یہ ابھی ابتداء ہے اگر یہی ماحول اور رویہ رکھا گیا تو آپ زیادہ عرصہ تک نہیں چل سکیں گے‘‘۔ بے نظیر بھٹو نے یہ چیلنج دوتہائی اکثریت والی پارٹی کو دیا تھا، اور پھر وقت نے ثابت کیا کہ دوتہائی اکثریت والی نواز شریف حکومت محض دو اڑھائی سال کے بعد ہی بارہ اکتوبر 1999 میں بر طرف کردی گئی۔
آئی جے آئی کے زمانے میں نواز کھوکھر نواز شریف کے ساتھ تھے، ملک میں سیاسی کشمکش بھی عروج پر تھی، یہ وہی زمانہ ہے کہ جب ملک کی کچھ سیاسی شخصیات کے لیے ’’من و سلویٰ‘‘ اُتارا گیا، نواز کھوکھر اس من و سلویٰ کے بارے میں بہت کچھ جانتے تھے، یہی کیس بعد میں اصغر خان کے ذریعے عدالت عظمیٰ تک پہنچا، بڑے بڑے سیاسی نام ان کی پٹیشن میں لیے گئے، یہ سب کچھ سچ تھا، مگر تلخ سچ کہ کسی میں ہمت نہیں ہوئی کہ وہ اعتراف کرے، یہ سچ کبھی نہیں جھٹلایا جاسکتا کہ من و سلویٰ ان سیاسی رہنمائوں کے گھروں تک پہنچایا گیا تھا، ایک سیاسی جماعت نے اعلیٰ عدلیہ میں تحریری جواب میں کہا کہ ہمارا اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے، جب کہ سچ سچ ہی ہوتا ہے، کوئی مانے یا نہ مانے، یہ سب کچھ ہماری سیاسی زندگی کا ایک ایسا سچ ہے جسے کوئی بھی بیان نہیں کرسکے گا۔ مستفید ہونے والی سیاسی شخصیات یا کوئی سیاسی جماعت، لاکھ تردید کرے سچ تو سچ ہی رہے گا، یہ سب حقائق نواز کھوکھر اپنے ساتھ ہی لے گئے ہیں، نواز کھوکھر خود بھی ایک سیاسی تاریخ تھے، پاکستان قومی اتحاد کے زمانے کی بات ہے کہ جب قومی اتحاد کی قیادت حکومتی تحویل میں تھی، بھٹو حکومت جناب پروفیسر غفور احمد، محترم مفتی محمود اور دیگر رہنمائوں میں کسی کو جیل اور کسی کو ریسٹ ہائوس میں رکھا ہوا تھا، نواز کھوکھر سے منسوب ایک روایت یہ بھی ہے کہ انہیں ایک پولیس آفیسر نے بتایا کہ بھٹو صاحب سے کہیں کہ ان درویشوں سے ٹکر نہ لیں انہیں میں نے دیکھا ہے کہ یہ لوگ تو جیسی چائے دی جاتی ہے کبھی اس کی شکایت نہیں کرتے اور اسے نوش کر لیتے ہیں اور اینٹ سرہانے رکھ کر سو جاتے ہیں کوئی نخرہ نہیں ہے لہٰذا ایسے لوگ سوائے اللہ کے کسی سے نہیں ڈرتے بہتر ہے کہ بھٹو صاحب ان سے ٹکر نہ لیں۔ بہر حال، اب ملک میں ایسی قیادت کہاں جو اینٹ سرہانے رکھ کر سو جائے؟ سادگی اب صرف باتوں اور دعوئوں کی حد تک ہے اور ایسے دعوی ملکی سیاست میں بہت ہیں۔