مقصود احمد چغتائی نے جو بینکنگ گائڈ بھیجی ہے اس میں اکائونٹ کھولنے سے لے کر بینکنگ کے تمام طریقوں کا ذکر ہے۔ چغتائی صاحب نے بڑی محنت کی ہے بینکوں میں جو قوانین وضع ہیں ان کی پابندی کی ہدایت بھی کی ہے۔ چغتائی صاحب کی ہدایات و مشورے سر آنکھوں پر لیکن بینکوں کی جانب سے ہر مرتبہ نت نئے قوانین کی اطلاع ملتی ہے ان سے بحث کریں، اعتراض کریں، احتجاج کریں یا ہنگامہ وہ اپنے قوانین پر عمل کرتے رہیں گے۔ ان کے پاس جواز ہے کیا کریں اسٹیٹ بینک کے آرڈر ہیں۔ ارے جناب فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی ہدایت ہے۔ لیکن بینک کر کیا رہے ہیں؟ کیا انہیں ایف اے ٹی ایف نے وہ ہدایات دی ہیں جو وہ کررہے ہیں۔ پاکستان بھر میں بیش تر بینک صارفین کے اربوں روپے ان کی مرضی کے بغیر ہڑپ کررہے ہیں۔ پہلی مثال موبائل فون پر پیغام دینے کا سلسلہ ہے۔ ہر ماہ صارف کے 50 روپے اس لیے کاٹ لیتے ہیں کہ ہم آپ کو موبائل پر آپ کے اکائونٹ کی معلومات دیتے ہیں۔ خواہ صارف نے یہ سہولت طلب کی ہو یا نہیں۔ زبردستی پہلے مفت میں دی جاتی ہے پھر اس کے پیسے کاٹنا شروع کردیتے ہیں۔ صارف بینک سے آن لائن شکایت کرتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ برانچ میں جا کر یہ سلسلہ بند کروائیں۔ صارف کہتا ہے کہ ہم نے تو برانچ سے نہیں کہا تھا لیکن اصرار کیا جاتا ہے کہ برانچ میں جائیں۔ اور برانچ والے کہتے ہیں کہ ارے آن لائن یہ سلسلہ بند ہوجاتا ہے۔ جس صارف کے لاکھوں کروڑوں روپے کھاتے میں ہوں تو اسے یہ سروس اچھی لگے گی۔ لیکن چھوٹی تنخواہوں والے، گھریلو خواتین جو بچت کرکے چند ہزار روپے جمع کرتی ہیں ان سب کے اکائونٹس سے ان کی اجازت کے بغیر ماہانہ پچاس روپے کاٹ لیے جاتے ہیں۔ مقصود چغتائی صاحب بینکنگ گائڈ کے اگلے شمارے میں یہ بات ضرور لکھیں کہ اکائونٹ کھولتے وقت بینک منفی شرائط پر صارف سے دستخط کرواتا ہے وہ نہایت باریک لکھی ہوتی ہیں ان کو پڑھنے کا وقت بھی نہیں ہوتا بس دستخط کرنے کی جگہ بتادی جاتی ہے۔ یہ مسئلہ حل ہوتا نظر نہیں آرہا۔ ماہانہ پچاس روپے اگر دس ہزار صارفین سے لیے جائیں تو کیا حساب بنتا
ہے۔ اور یہی حساب ہر بینک کا ہو اور صارفین کی تعداد زیادہ ہو تو اندھی کمائی کا ڈاکا ہے۔ ایک اور اہم مسئلہ ہے کاغذ کا بے تحاشا ضیاع۔ چیک دوسری برانچ کا ہے تو آن لائن کے لیے شناختی کارڈ اصلی دکھائیں۔ کاپی نہ ہو تو برا سا منہ بنا کر کسی ملازم سے کاپی کرائی جاتی ہے۔ بہت سے بینک موٹر گیراج جتنی جگہوں پر بنے ہوئے ہیں وہاں بیٹھنے کی جگہ نہیں۔ ٹوکن مشین نہیں یا خراب ہے۔ اور فوٹو کاپی مشین ہر ایک کے پاس نہیںہے۔ تقریباً ہر بینک کو یہ توجہ دلائی جاچکی ہے کہ اگر کاغذ ہی بھرنے ہیں تو بائیو میٹرک کیوں کرایا تھا۔ شناختی کارڈ ہروقت لے کر چلنے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ بائیو میٹرک سسٹم شناخت کا بہترین ذریعہ ہے۔ انگوٹھا یا انگلی لگائیں اور معلوم کرلیں کہ کون صاحب بینک آئے ہیں۔ لیکن یوٹیلٹی بل کے ساتھ بھی شناختی کارڈ لیے جارہے ہیں۔ ظاہر ہے اسٹیٹ بینک کا حکم ہے۔ کیوں ہے؟… اس کا کوئی جواب نہیں۔ بجلی، گیس، ٹیلی فون، واٹر بورڈ، کنٹونمنٹ بورڈ، اسکول کالج یونیورسٹی کی فیسیں۔ ہر ایک فیس اور بل پر الگ کارڈ لے کر جائو۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بینکوں نے ردی جمع کرنے کا کاروبار شروع کردیا ہے۔ یہ جدید ٹیکنالوجی کسی کام کی ہے۔ یہ جو بینک ٹیلی فون پر پیغام کے 50 روپے کاٹ لیتے ہیں۔ یہ پیغام نہیں دیتے کہ آپ کا اکائونٹ ڈارمینٹ ہونے والا ہے۔ لیکن یہ کام کروڑ پتی صارف کے ساتھ نہیں ہوتا ہے۔ اسے فون کرکے منیجر صاحب اطلاع دیتے ہیں کہ کچھ جمع کرادیں اور کچھ نکال لیں۔ یہ دو قانون کیوں ہیں۔ غریب صارف ہی کو تنگ کیا جاتا ہے۔
ہم ایسے بہت سے لوگوں کو جانتے ہیں کہ ان کے بینک اکائونٹ کے چیک اگر نیا فرد لائے تو بینک سے ان کے پاس فون جاتا ہے کہ کیا آپ نے یہ چیک جاری کیا ہے؟ بینک کو ایسا ہی کرنا چاہیے تھا۔ لیکن جب کسی عام تنخواہ دار کے اکائونٹ سے ہزاروں روپے غائب ہوجاتے ہیں تو اسے اِدھر اُدھر بھیجا جاتا ہے۔ پہلے تو اسی پر شک کیا جاتا ہے۔ اکائونٹ والے کو پہلے اپنی بے گناہی ثابت کرنا ہوتی ہے اس کے بعد آگے کارروائی ہوتی ہے اور اب تک یہ خبر نہیں ملی کہ کسی غریب کے اکائونٹ سے پیسے نکلے اور اسے واپس بھی مل گئے ہوں۔ اس حوالے سے چند چیدہ چیدہ واقعات پیش خدمت ہیں۔ ایک بینک میں خاتون نے اکائونٹ کھلوایا۔ اے ٹی ایم کی ریکویسٹ بھی دی۔ ایک دو ہفتے بعد نہیں آیا تو بینک سے رابطہ کیا انہوں نے کہا کہ خود گھر آجائے گا۔ ایک دن موبائل پر پیغام آیا کہ آپ کا اے ٹی ایم آگیا ہے بینک سے وصول کرلیں۔ خاتون بیرون شہر تھیں۔ واپس آکر بینک سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ آن لائن رابطہ کریں۔ آن لائن سے جواب ملا کہ بینک سے رابطہ کریں۔ اب بینک میں دلچسپ صورت حال قابل غور ہے۔ ایک افسر کہتا ہے کہ آپ کا کارڈ بنا ہی نہیں ہے۔ ان کو موبائل کا پیغام دکھایا گیا تو انہوں نے حیرت کا اظہار کیا پھر کہا کہ ہوسکتا ہے آپ نے کارڈ وصول کرلیا ہو آپ کو یاد نہیں۔ اس پر صارف نے کہا کہ آپ نے کسی کو دے دیا ہوگا اب تک تو دو چار کروڑ نکال لیے ہوں گے۔ بینک افسر نے اس پر برا منایا شور سن کر سینئر افسر آگئے کچھ کاغذات نکلوائے، پھر یہ طے پایا کہ آپ نے اے ٹی ایم کی درخواست ہی نہیں دی تھی۔ تو پھر یہ موبائل پیغام… وہ ہم نے نہیں بھیجا… اچھا تو اکائونٹ کھلواتے وقت کے کاغذات لائیں۔ وہ تو ہیڈ آفس میں ہیں۔ یہ صارف کو چکر دے دیتے۔ وہ خاتون تو سارے پیسے چیک کے ذریعے نکال کر بینک کو الوداع کہہ کر ملک سے چلی گئیں۔ لیکن ایک اور بینک جو میرا بھی ہے اور میرا بھی تو ہے۔ اس کے صارف کا اکائونٹ ڈارمینٹ کردیا گیا۔ اسی دوران لاک ڈائون شروع ہوگیا۔ پھر برانچ بند ہوگئی۔ مذکورہ برانچ کے افسر طارق روڈ برانچ میں بیٹھ رہے تھے۔ ان سے رابطہ کیا گیا تو کہنے لگے کہ آمدنی کا سرٹیفکیٹ لائو۔ یہ صارف بھی خاتون خانہ تھیں تو کہنے لگیں کہ میں تو گھریلو خاتون ہوں۔ ان سے پوچھا گیا کہ اکائونٹ کیسے کھولا تھا۔ تو جواب ملا کہ اب ضرورت ہے۔ ہم نے اسٹیٹ بینک سے شکایت کی اور دوبارہ اس افسر سے رابطہ کیا۔ اس کا رویہ تبدیل تھا۔ کہنے لگا کہ جی کسی بھی روز تشریف لے آئیں۔ اصل شناختی کارڈ اور صارف کو لے کر۔ اور یوں ایک دن چند لمحوں میں اکائونٹ بحال ہوگیا۔ تو پھر وہ تنخواہ کا سرٹیفکیٹ وغیرہ کہاں گئے کیا ہر فرد اسٹیٹ بینک سے شکایت کرسکتا ہے۔
اب ملاحظہ کریں دلچسپ ترین لطیفہ بینک میں جائیں تو گیٹ پر سیکورٹی والا آپ کو نمبر نکال کر دے گا۔ اندر سیکورٹی گارڈ پانی پلا رہا ہوگا۔ فوٹو کاپی کراکے دے رہا ہوگا۔ اسٹاف کا کھانا گرم کرکے اطلاع دے رہا ہوگا۔ تازہ ترین واقعہ گلستان جوہر میں بینک کے سیکورٹی گارڈ کے ذریعے کھاتیداروں کو لائن سے بٹھا کر ان میں نمبر تقسیم کرنے کا ہے۔ 100 نمبر پورے ہونے کے بعد گارڈ نے 32 نمبر سے نمبر تقسیم کرنا شروع کردیے اندر 85 نمبر چل رہا تھا۔ جن صاحب کے پاس 32 نمبر تھا انہوں نے احتجاج کیا کہ وہ شرافت سے بیٹھے ہیں اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ آپ ہمیں بے وقوف بنائیں، تو سیکورٹی والے نے نہایت غصے سے کہا کہ دیکھ تجھے ابھی تک کچھ نہیں کہا گیا تو آرام سے کھڑا رہ۔ ہم نے بھی آواز لگائی کہ بینک کا کام تم کیوں کررہے ہو تو جواب ملا کہ تجھے بھی نمبر دے دیں گے شور کیوں کرتا ہے۔ ہم تو نمبر واپس کرکے آگئے لیکن یہ بینکوں میں کیا ہورہا ہے گویا ملک کے نظام کی طرح بینکوں کا نظام بھی سیکورٹی والوں کے ہاتھ میں ہے۔ اسٹیٹ بینک کے نام پر روز فون پر پیغام آتا ہے کہ ہمارا بینک آپ کو فون نہیں کرے گا لیکن ہمیں یاد ہے فیصل بینک نے فون کیا تھا۔ معلومات کے لیے کیا تھا۔ اپنی سروس فروخت کرنا چاہتے تھے۔ تقریباً تمام بینکوں نے اپنے اپنے پیغامات بھیج دیے ہیں۔ کیوں کہ وہ قانونی طور پر بری الذمہ ہونا چاہتے ہیں کہ ہم نے صارف کو پہلے ہی آگاہ کردیا تھا۔ لیکن یہ بن کباب والے، رکشے والے اور مکینکوں وغیرہ کے اکائونٹ میں اربوں روپے ڈال کر کس نے کھولے۔ سارے جعلی کھاتے بینک افسران ہی نے تو کھولے ہیں پھر بینک ڈکیتی بڑا جرم ہے یا بینکوں کی ڈکیتی۔