کراچی (رپورٹ :منیر عقیل انصاری) ہمارے مسائل کا حل صدارتی یا پارلیمانی نظام نہیں اسلامی نظام ہے لیکن آج تک ملک میں ایک دن کے لیے بھی اسلامی نظام کو نہیں آزمایا گیا ، پاکستان کے اصل مسائل سے توجہ ہٹانے کے لیے صدارتی نظام کے حوالے سے ایک خاص حلقے کی جانب سے نئی بحث کا آغاز کیا گیا ہے،پارلیمانی نظام ہی بہتر نظام حکومت ہے اور اسے چلنے دینا چاہیے،پارلیمانی نظام میں چھوٹے صوبوں اورعلاقائی جماعتوں کی اہمیت برقرار رہتی ہے جس سے وفاق مضبوط ہوتا ہے۔ پاکستان میں تمام طرز ہاے حکومت اپنائے جا چکے ہیں،مسئلہ طرز حکومت کا نہیں بلکہ مسئلہ اصل میں قانون کی بالادستی اور قانون کی اصل روح کے ساتھ اطاعت کا ہے۔ان خیالا ت کا اظہار جماعت اسلامی خیبرپختونخوا کے نائب امیر و رکن خیبر پختونخوا اسمبلی عنایت اللہ خان ،پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈیولپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی (پلڈاٹ) کے صدر احمد بلال محبوب، سابق ڈین سوشل سائنسزجامعہ کراچی پروفیسر ڈاکٹر احمد قادری اور پاکستان پیپلزپارٹی کی مرکزی ڈپٹی سیکرٹری اطلاعات پلوشہ خان نے جسارت سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے کیا۔ عنایت اللہ خان نے کہا ہے کہ ملک میں 37 سال تک صدارتی اور باقی آدھی مدت کے لیے نام نہاد جمہوری اور پارلیمانی نظام رہا، ایوب خان جنرل ضیا الحق اور جنرل مشرف پورے اختیارات کے ساتھ صدر رہے مگر مسائل حل نہیں ہو سکے، آج جو لوگ صدارتی نظام کے حق میں دلائل دے رہے ہیں وہ قومی تاریخ سے بے بہرہ ہیں، جمہوریت کے نام پر بار بار چوروں کا ٹولہ اقتدار پر قابض ہوجاتا ہے جو ایک دوسرے کی کرپشن کو تحفظ دیتے رہے ہیں، موجودہ حکومت نے بھی اب تک احتساب کے نام پر قوم سے مذاق کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے مسائل کا حل صدارتی یا پارلیمانی نظام نہیں اسلامی نظام ہے لیکن آج تک ملک میں ایک دن کے لیے بھی اسلامی نظام کو نہیں آزمایا گیا ہے۔ ہمارا سارا نظام سود کی بنیاد پر چل رہا ہے، سودی نظام کی موجودگی میں ملکی معیشت ترقی کر سکتی ہے نہ ٹھیک ہو سکتی ہے، اسلامی نظام معیشت کے بجائے سودی معیشت اپنانے کی وجہ سے ہر بچہ مقروض اور ہر پاکستانی کے ہاتھوں میں ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی ہتھکڑیاں ہیں، غربت، مہنگائی اور بیروزگاری نے لوگوں کی چیخیں نکال دی ہیں، ملک و قوم کو درپیش تمام مسائل کا حل اسلامی نظام کا نفاذ ہے۔احمد بلال محبوب نے کہا کہ میرے خیا ل میں صدارتی نظام پاکستان کے لیے پارلیمانی نظام سے بہتر ثابت نہیں ہوسکتا ہے، پاکستان پارلیمانی طرز جمہوریت سے کافی حد تک آشنا ہوچکا ہے،دنیا کے مختلف ممالک میں کہیں صدارتی تو کہیں پارلیمانی طرزِ حکومت رائج ہے۔انہوں نے کہا کہ پارلیمانی نظام میں وفاق کی تمام اکائیوں اور پارلیمان میں موجود چھوٹی جماعتوں کی حکومت سازی میں خاصی اہمیت ہوتی ہے۔ پارلیمانی نظام ہی بہتر نظام حکومت ہے اور اسے چلنے دینا چاہیے۔پارلیمانی نظام میں چھوٹے صوبوں اورعلاقائی جماعتوں کی اہمیت برقرار رہتی ہے جس سے وفاق مضبوط ہوتا ہے۔ اٹھارویں آئینی ترمیم اور پارلیمانی نظام کو قانونی طور پر صرف آئین میں ترمیم کے ذریعے ختم کیا جا سکتا ہے۔ اس وقت صدارتی نظام لانا ممکن نہیں ہے۔ پاکستان کی اکثر سیاسی جماعتیں پارلیمانی نظام کی حامی ہیں اس لیے عوامی سطح پر صدارتی نظام کو پزیرائی ملنا ناممکن ہے۔صدارتی نظام کی باتیں محض سازشی مفروضہ ہیں جو کہ ملک میں چلتی رہتی ہیں۔پارلیمانی نظام ایک ایسا نظام حکومت ہے جس میں ایک کابینہ بالواسطہ یا بلا واسطہ ایک پارلیمنٹ کے تحت کام کرتی ہے۔ اس نظام میں اختیارات عموما وزیر اعظم کے پاس ہوتے ہیں۔ اس نظام میں صدر تو ہوتا ہے مگر صدر کے اختیارات بہت کم اور وزیر اعظم کے سب سے زیادہ اختیارات ہوتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ پاکستان پارلیمانی نظام کے تحت کیوں نہیں چل سکتاہے لوگوں کا خیال ہے کہ اگر خداناخواستہ پاکستان میں صدارتی نظام آیا تو، صدر پاکستان کے سب سے بڑے صوبے سے منتخب ہوجائے گا جس سے دیگر صوبوں کی حق تلفی ہوگی اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ کسی صورت پاکستان میں صدارتی نظام کو نہیں لایا جائے،صدارتی نظام میں مجھے تو کوئی خوبی نظر نہیں آتی ہے ،انہوں نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ جیسے پاکستان میں آبادی کا ایک حصہ ہمیشہ صدارتی طرز حکومت سے کافی متاثر رہتا ہے۔ حالانکہ 46 برس قبل متفقہ رائے سے منظور ہونے والے 1973ء کے آئین نے پارلیمانی نظام کے حق میں اس سوال کو حل کردیا تھا مگر یہ سوال ہر کچھ عرصے بعد دوبارہ زندہ ہوجاتا ہے۔پاکستان گزشتہ کئی دہائیوں سے پارلیمانی نظام پر کامیابی کے ساتھ عمل پیرا ہے اور اس نظام کو من گھڑت عدم استحکام کا بہانہ بنا کر مصنوعی طور پر صدارتی نظام سے بدلنے کا بظاہر ایسا کوئی ایک بھی درست جواز موجود نہیں ہے ،پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی (PILDAT) کی ایک تحقیق کے مطابق اگست 1973ء سے اب تک پاکستان کی مختلف حکومتیں 1774 صدارتی آرڈیننس جاری کر چکی ہیں۔ ان میں سے تقریباً دو تہائی یعنی 63 فیصد آرڈیننس ملک کے دو آمروں جنرل ضیاالحق اور جنرل پرویز مشرف کے زمانے میں جاری کیے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمانی نظام میں اختیارات کا مرکز عوام کے ووٹوں سے براہِ راست منتخب ہونے والی پارلیمان ہوتی ہے جس کے فیصلوں پر وزیرِ اعظم اور اس کی کابینہ عمل کرتی ہے۔اس کے برعکس صدارتی نظام میں تمام اختیارات کا منبع صدر ہوتا ہے اور عوام کے منتخب پارلیمانی نمائندے بھی صدر کے زیرِ اثر ہوتے ہیں۔اس لیے میرے خیال میںپارلیمانی نظام کے تحت ہی پاکستان بہتری کی جانب گا مزن ہو سکتا ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر احمد قادری نے کہا کہ میرا یہ خیال ہے کہ پاکستان میں تمام طرز ہاے حکومت اپنائے جا چکے ہیں۔مسئلہ طرز حکومت کا نہیں بلکہ مسئلہ اصل میں قانون کی بالادستی اور قانون کی اصل روح کے ساتھ اطاعت کا ہے۔معاشرے میں کیسے سماجی انصاف کو عام کیا جائے اور کمتر اور برتر کے فرق کو کم کیا جائے مایوسی کی کیفیت سے کیسے قوم کو نکالا جائے اور علاقائی قیادت کو کس طرح سے وفاق کی قیادت میں تبدیل کیا جائے یہ وہ مسائل ہیں کہ اگر انہیں حل کرلیا جائے تو پاکستان میں کوئی بھی طرز حکومت ہو وہ کامیاب ہو جائے گی ۔عدلیہ انتظامیہ اور مقننہ یہ ادارے ہر طرز حکومت میں نظر آتے ہیں۔ادارے اپنی جگہ موجود ہیں قانون اپنی جگہ موجود ہے اسمبلی اپنی جگہ موجود ہے حکومت کے کارندے اپنی جگہ موجود ہیں لیکن اس کے باوجود بھی حکومت کسی بھی طرز کی ہو پاکستان کے سیاسی سماجی میں کامیاب نظر نہیں آتی اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ حزب اقتدار اور حزب اختلاف نے قانون کی بالادستی کو اور نظر انداز کیا جس کا نتیجہ مارشل لا کی صورت میں نکلا۔ہم جلد بازی میں حکومتیں گرانے کے لیے متحد ہو جاتے ہیں اور جلد بازی میں حکومت بنا کر جلد از جلد اپنے مقاصد حاصل کرنے کی کوشش شروع کر دیتے ہیں اس طرز عمل کی وجہ سے ملک سیاسی عدم استحکام کا شکار ہوتا ہے نتیجے کی صورت میں نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے ہیں۔پلوشہ خان نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے اصل مسائل سے توجہ ہٹانے کے لیے صدارتی نظام کے حوالے سے ایک خاص حلقے کی جانب سے نئی بحث کا آغاز کیا گیا ہے۔ پہلے بھی بہت سی سازشیں پارلیمانی نظام کے خلاف کی گئی ہے اور ہر دفعہ ہی صدارتی نظام پاکستان کے لیے ناکام ثابت ہوا ہے۔ پاکستان میں پارلیمانی نظام ہی بہتر ہے پارلیمانی نظام کو فیل کرنے کے لیے نقشہ تیار کیا جارہا ہے لیکن یہ کسی صورت کارآمد ثابت نہیں ہو سکتا ہے۔ پہلے کی طرح صدارتی نظام کے لیے راہ ہموار کرنے والے بری طرح ناکام ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمانی نظام کے خاتمے اور صدارتی نظام کو لانے کے لیے پاکستان میں ایک خطرناک تماشا شروع کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ پاکستان کی بقا پارلیمانی نظام میں ہی ہے۔ صدارتی نظام نے ہی پاکستان کو دولخت کیا ہے اور اب بھی سازشوں کے ذریعے پارلیمانی نظام کو تباہ کیا جارہا ہے۔ پاکستان میں صدارتی اور پارلیمانی نظامِ حکومت کے فوائد اور نقصانات پر بحث زور و شور سے جاری ہے۔ اس بحث کا آغاز پاکستان تحریکِ انصاف کے حامیوں نے کیا ہے جو صدارتی نظام کو ملک کے لیے بہتر قرار دے رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ پاکستان ایک وفاق ہے جس میں صوبوں کی صورت میں 4اکائیاں ہیں اور اس نظام میں صدارتی طرزِ حکومت کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ صدارتی نظام سے متعلق بحث کو اصل مسائل سے توجہ ہٹانے کی کوشش کی جارہی ہیں، پاکستان کے مخصوص حالات کے لیے پارلیمانی طرزِ حکومت ہی بہتر ہے جس پر تمام سیاسی قوتیں متفق ہیں اور ہمیں اسی کی مضبوطی کے لیے کام کرنا چاہیے۔حزبِ اختلاف کی تمام بڑی جماعتیں صدارتی نظام کی مخالف ہیں، انہوں نے خبردار کیا ہے کہ پی ٹی آئی پارلیمانی نظامِ حکومت کے ساتھ چھیڑ چھاڑ سے باز رہے۔میرے خیال میں پاکستان کے عوام کی دانش پر اعتماد کا وقت آگیا ہے۔ اسے پارلیمانی نظام کے ساتھ ہی رہنے دیا جائے تو بہتر ہو گا۔