آثار و قرائن بتا رہے ہیں کہ صوبہ بہاولپور کا مطالبہ کرنے والوں کو احساس ہو گیا ہے کہ وہ حکومت سے ایسی چیز کا مطالبہ کر رہے ہیں جس کا کوئی وجود ہی نہیں۔ ہم بارہا انہی کالموں میں لکھ چکے ہیں کہ بہاولپور کا کوئی سیاست دان بہاولپور صوبے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ اگر بہاولپور صوبہ بن گیا تو یہ حکومت سے اپنی بے لگام خواہشات کی تکمیل نہیں کر اسکیں گے۔ اس لیے بہاولپور صوبے کی بحالی کا مطالبہ کر کے صوبے کی راہ میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔ کیونکہ عدالت سے بھی رجوع کیا جائے تو بہاولپور صوبے کا ثبوت پیش کرنا پڑے گا۔ جو ممکن ہی نہیں۔ قارئین کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ ریاست بہاولپور نے 1955-1956 کا بجٹ پیش کیا تھا۔ یہ بجٹ 25مارچ کو اعلیٰ حضرت امیر بہاولپور کے مشیر اعلیٰ جناب اے آر خان نے پیش کیا تھا۔ جو آمد و خرچ کی خصوصیت کے اعتبار سے قابل تحسین تھا۔ قبل ازیں اتنی رقم کا بجٹ کبھی بھی پیش نہیں کیا گیا۔ اس بجٹ کی نمایاں خصوصیت یہ بھی تھی کے آمد و خرچ کے بعد پانچ لاکھ پچیس ہزار روپے کی بچت تھی۔ ٹیوب ویل، اور چولستان کی ترقی کے لیے سڑکوں کی تعمیر، ہونہار اور غریب طلبہ کو وظیفہ دینا، برقی سپلائی کو بہتر بنا کر صنعتوں کا قیام بھی اس بجٹ کی ایک بڑی خوبی تھی۔
مجموعی طور پر یہ ایک قابل تعریف بجٹ تھا۔ جو ریاست بہاولپور کے عوام اور ترقیاتی کاموں کے لیے از حد مفید تھا۔ مگر بد قسمتی سے اس سال وحدت پاکستان کے نام پر ون یونٹ کا قیام عمل میں لایا گیا۔ یوں ریاست بہاولپور صوبہ پنجاب کی جھولی میں ڈال دیا گیا۔ اور ریاست بہاولپور کا بجٹ بھی پنجاب کے کشکول میں ڈال دیا گیا۔ حالانکہ عقل و دانش کا تقاضا تھا۔ کہ نواب آف بہاولپور کی خدمات اور پاکستان سے بے پناہ محبت اور عقیدت کے صلے میں ریاست بہاولپور کو صوبہ بہاولپور کا درجہ دیا جاتا۔ اور پنجاب کو اس کا ضلع بنایا جاتا۔ مگر پنجاب کی دہلیز پر سجدہ ریزی کے خوگر سیاستدانوں نے نہ صرف ریاست بہاولپور کو دفن کر دیا بلکہ اس کا بجٹ بھی اماں جان کا دودھ سمجھ کر ہڑپ کر گئے۔ اور اب بہاولپور کے عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے بحالی کا نعرہ لگایا جا رہا ہے۔ حالانکہ ون یونٹ کے ٹوٹتے ہی بہاولپور کو صوبہ کا درجہ دینا چاہیے تھا۔ اور بہاولپور کے سیاست دانوں کو پنجاب میں ضم کرنے سازش کے خلاف آواز بلند کرنا ان کا فرض اولین تھا۔ مگر گونگے بولا نہیں کرتے صرف اشارے کرتے ہیں۔ ان کی اسی اشارے بازی نے ریاست بہاولپور کی بازی پلٹ دی۔
عوام بہاولپور کے سیاست دانوں سے اس حد تک بد ظن اور بد گمان ہو چکے ہیں کہ وہ ان کی کسی بات پر یقین کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اور جہاں تک صوبہ بہاولپور کی بحالی کے لیے ان کے بیانات ہیں وہ صرف نعرہ بازی ہے۔ کیونکہ اہل وطن نعرہ بازی میں بڑی دلچسپی رکھتے ہیں۔ پہلے ہمارے بزرگ قندھار چلو کا نعرہ لگایا کرتے تھے۔ اور اب نئی نسل پشاور چلو، کراچی چلو، لاہور چلو کا نعرہ لگاتی ہے۔ ریاست بہاولپور کا ہفت روزہ اخبار ’’سنہرا دیس‘‘ جس کے منیجنگ ایڈیٹر اقبال احمد صدیقی تھے۔ انہوں نے یکم مئی 1955 کے اخبار میں ریاست بہاولپور کے 1955-1956کے بارے میں جو کچھ تحریر کیا ہے۔ وہ بہت ہی حیرت انگیز اور عوام نواز ہے۔ ہم یہ بات پورے یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم شہید ملت لیاقت علی خان نے جو بجٹ پیش کیا تھا۔ وہ پاکستان کی آمدنی کے مطابق تھا۔ سو اس میں خسارے کی کوئی بات ہی نہیں تھی۔ ریاست بہاولپور کے 1955-1956 میں جو بجٹ پیش کیا گیا تھا۔ اس میں نہ صرف ریاست کی آمدنی کا خیال رکھا گیا تھا بلکہ یہ خیال بھی رکھا گیا تھا عوام کو کسی بھی معاملے میں رقم کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ بڑی تفصیل سے اس کا ذکر کیا گیا تھا۔ اور پانچ لاکھ پچیس ہزار کی بچت بھی پیش کی گئی تھی۔
خدا جانے ہمارے اقتصادی ماہرین کیسے بجٹ بناتے ہیں۔ اس میں خسارے کے سوا کوئی بات قابل ذکر نہیں ہوتی۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ آمدن سے زیادہ خرچ کیوں کیا جاتا ہے۔ ہمارا بجٹ اعداد و شمار کے گورکھ دھندے کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ شاید اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ عوام کی ضروریات کا خیال نہیں رکھا جاتا۔ اور نہ زرعی پیداوار کی کمی پیشی کو مد نظر رکھا جاتا ہے۔ حکمرانوں کی صو ابدیدی اختیارات کو فوقیت دی جاتی ہے۔ یوں حکمران اپنے منظور نظر لوگوں کو مراعات اور سہولتیں دیتے ہیں وہی خسارے کا سبب بنتی ہیں۔ ہماری کابینہ عدالت کی پیشی در پیشی کی طرح وزیر در وزیر، مشیر در مشیرکا ایک ایسا سونامی چکر چلتا ہے۔ جو عوام کے لیے کوئی سہولت کوئی مراعات کی گنجائش ہی نہیں چھوڑتا۔ سوال یہ بھی ہے کہ کسی نے حکمرانوں کے صوابدیدی اختیارات پر سوال کیوں نہیں اٹھایا۔ ہماری عدلیہ از خود نوٹس لینے میں بہت مقبول اور عالمگیر شہرت کی حامل ہے۔ مگر اس نے بھی کبھی وزیر در وزیر، مشیر در مشیرکے نا معقول رویے پر از خود نوٹس نہیں لیا۔
جمہوریت میں حکمران عوام کے خدمت گار ہوتے ہیں۔ عوام کی مرضی کے تابع ہوتے ہیں۔ مگر ہمارے ہاں جمہوریت کے نام پر جو حکمرانی قائم کی جاتی ہے وہ عوام کو خادم اور خانہ زاد بنانے کے لیے ہوتی ہے کہ سیاست دانوں کا یہی منشور ہوتا ہے۔ کسی کے گھر میں گھسنے والے لوٹ مار ہی کیا کرتے ہیں۔ اسی طرح ایوان اقتدار میں گھسنے والے بھی لوٹ مار کیا کرتے ہیں۔ جسے صوابدیدی اختیار کا دلکش نام دیا جاتا ہے۔ بیرونی ممالک سے ملنے والے تحفے و تحائف ذاتی مال سمجھ کر اپنی جیبوں میں ڈال لیے جاتے ہیں۔ اور جواباً جو تحفے تحائف دیے جاتے ہیں ان کی ادائیگی عوام کی جیبوں سے کی جاتی ہے۔