انگیج افریقا پالیسی

370

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ حکومت افریقی ممالک کے ساتھ معاشی روابط کے فروغ کے لیے پرعزم ہے، پاکستان افریقی ممالک سے معاشی تعاون کا فروغ، دو طرفہ تعلقات اور عوام کی سطح پر روابط کو فروغ دے گا، افریقی ممالک کے ساتھ زراعت، صحت، ٹیکنالوجی، مذہبی سیاحت سمیت متعدد شعبوں میں دو طرفہ تعاون کو فروغ دے سکتے ہیں کیونکہ افریقا اور پاکستان کے مابین دو طرفہ تعلقات اور معاشی و تجارتی تعاون کے وسیع مواقع موجود ہیں۔ یہ بات انہوں نے معاشی سفارت کاری کے فروغ اور انگیج افریقا پالیسی کے حوالے سے وزارت خارجہ میں افریقی ممالک کے سفراء کے ساتھ ملاقات کے دوران کہی ہے۔ اطلاعات کے مطابق پاکستان افریقی ممالک میں نہ صرف اپنے سفارت خانوں کو اپ گریڈ کر رہا ہے بلکہ وزیراعظم کی مشاورت سے وزارت خارجہ بعض نئے افریقی ممالک میں سفارت خانے کھولنے کا فیصلہ بھی کر چکا ہے۔ وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے افریقی ممالک میں تعینات پاکستانی سفراء کو خصوصی ہدایت کی ہے کہ وہ پاکستان اور افریقا کے مابین دو طرفہ تجارت اور معاشی تعاون کے فروغ کے لیے اپنی تمام تر توانائیاں صرف کریں۔ اس ضمن میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ پاکستان نے چند ماہ قبل کورونا کی صورتحال کے باوجود وزارت تجارت کی معاونت سے کینیا کے دارالحکومت نیروبی میں ٹریڈ کانفرنس منعقد کی ہے نتیجتاً افریقی ممالک سے گزشتہ چند ماہ کے دوران ہماری تجارت کے حجم میں 7 فی صد اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان کے لیے افریقی ممالک کے ساتھ زراعت، صحت، سائنس وٹیکنالوجی، مذہبی سیاحت سمیت متعدد شعبوں میں دو طرفہ تعاون کو فروغ دینے کے وسیع امکانات موجود ہیں۔ وزارت خارجہ کے مطابق پاکستان نے ویزے کے حصول میں سہولتیں فراہم کرنے کے لیے کئی عملی اقدامات اٹھائے ہیں لہٰذا توقع ہے کہ افریقی ممالک بھی پاکستانی بزنس کمیونٹی کو ویزے کے اجراء میں سہولت فراہم کریں گے۔ افریقی ممالک کی پاکستان سے جغرافیائی دوری نیز ان ممالک کے کمزور انفرا اسٹرکچر کے باعث ماضی میں ان ممالک کے ساتھ پاکستان کے روابط اور خاص کر تجارتی تعلقات میں کئی رکاوٹیں حائل رہی ہیں لیکن ٹیکنالوجی کے میدان میں انقلاب نے ان دور دراز ممالک سے ہمارے روابط کو سہل بنا دیا ہے ہم اس ٹیکنالوجی سے استفادہ کرتے ہوئے اپنے روابط کو سیاسی تعلقات کے ساتھ ساتھ زراعت، صحت، ٹیکنالوجی، مذہبی سیاحت حتیٰ کہ کھیل کود سمیت ہر شعبہ زندگی میں فروغ دے سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں موجودہ حکومت نے انگیج افریقا پالیسی کے تحت جو اقدامات شروع کررکھے ہیں امید کی جانی چاہیے کہ اس کے انتہائی خوشگوار نتائج جلد سامنے آئیں گے۔
یہاں اس امر کی نشاندہی اہمیت کی حامل ہے کہ انگیج افریقا پالیسی کے عنوان سے گزشتہ دنوں ہونے والے اجلاس میں افریقا میں قائم پاکستان کے چودہ سفارت خانوں کے سفیروں نے ورچول شرکت کی تھی جن میں ابوجا، عدیسا اباابا، الجزائر، نیروبی، ٹرائی پولی، پورٹ لوئس، رباط، پری ٹوریا، نیامے، خرطوم، دارالسلام، ڈاکار، ہرارے، قاہرہ اور تیونس میں متعین سفراء شامل تھے۔ اس اجلاس میں پاکستانی سفراء نے معاشی سفارت کاری کے تحت وزارت خارجہ کی طرف سے طے کردہ اہداف کے حصول کے لیے کی جانے والی کاوشوں سے وزیر خارجہ کو آگاہ کیا۔ دراصل یہاں ہمیں اس حقیقت کو سمجھنا ہوگا کہ معاشی سفارت کاری محض درآمدات اور برآمدات تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ ایک کثیر الجہتی اور جامع عمل ہے جس میں تجارت کے ساتھ ساتھ سرمایہ کاری، خدمات، سیاحت، ٹیکنالوجی کا تبادلہ اور دیگر شعبہ جات میں دو طرفہ تعاون کا فروغ بھی شامل ہے۔
افریقی ممالک کے ساتھ تعلقات کی بہتری کے حوالے سے یہ بات قابل ذکر ہے کہ افریقا 1.3 ارب آبادی اور 54 ممالک پر مشتمل دنیا کا ایک اہم براعظم ہے لیکن بدقسمتی سے اس کے ساتھ ہمارے وہ مثالی سفارتی روابط نہیں ہیں جو ہونے چاہئیں حالانکہ گزشتہ صدی میں پاکستان نے افریقی ممالک کی بیرونی تسلط سے نجات کی جدوجہد میں بلا تفریق رنگ، نسل ومذہب ہرممکن مدد کی تھی جس کی سب سے نمایاں مثال جنوبی افریقا کی نیلسن مینڈیلا کی قیادت میں سفید فام نسل پرست انتظامیہ سے آزادی کی تاریخی جدوجہد میں پاکستان کا ہر فورم پر ان کا ساتھ دینا تھا۔ اسی طرح پاکستان کافی عرصے سے افریقی ممالک میں امن کی بحالی کے لیے اقوام متحدہ کے قیام امن کی کوششوں میں جو فعال اور نمایاں کردار ادا کرتا آ رہا ہے افریقی ممالک اس پر بھی پاکستان کو اپنا دوست اور محسن ملک سمجھتے ہیں۔ واضح رہے کہ بہت سے افریقی ممالک او آئی سی کے رکن ہیں اور وہ بین الاقوامی سطح پر مسئلہ کشمیر کے حوالے سے پاکستانی موقف کی تائید اور حمایت میں آواز بلند کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ بڑھتی ہوئی باہمی خیر سگالی کے باوجود تجارت اور معاشی میدان میں پاکستان اور افریقی ممالک کے درمیان دونوں فریقوں میں مطلوبہ جوش وخروش کا جو فقدان نظر آتا ہے وہ ہمارے ارباب اختیار کے لیے ہر لحاظ سے لمحہ فکر ہے کیونکہ یہ حقیقت محتاج بیان نہیں ہے کہ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران افریقا نے تقریباً تمام شعبوں میں نمایاں پیش رفت کی ہے جس کی بناء پر ماضی میں گمنام کہلایا جانے والا یہ براعظم بجا طور پر مستقبل کا براعظم کہلائے جانے کا مستحق ہے۔ افریقی ممالک نے غربت کے خاتمے، ناخواندگی کو کم کرنے کے سلسلے میں جو پیش رفت کی ہے نیز زراعت کی ترقی، بنیادی ڈھانچے کی تعمیر، ماحولیاتی آلودگی اور دہشت گردی پر قابو پانے اور توانائی کے متبادل ذرائع تلاش کرنے میں جو کامیابیاں حاصل کی ہیں وہ بھی یقینا قابل ستائش ہیں لہٰذا توقع ہے کہ پاکستان افریقی ممالک سے تجارت اور سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے علاوہ سلامتی اور دفاع کے ساتھ ساتھ باہمی عوامی روابط کے فروغ پر بھی خصوصی توجہ دے گا۔