کراچی (رپورٹ: حماد حسین) ملک کی ترقی اور خوشحالی کا انحصار سیاسی استحکام، عوامی مینڈیٹ کے احترام اور پالیسیوں میں تسلسل سے ہوتا ہے‘ موجودہ بحران کے تناظر میں پاکستان میں نئے انتخابات کا مطالبہ زمینی حقائق کے برخلاف ہے‘ ملک ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے گراس روٹ لیول سے سیاسی قیادت کو آگے لانے کی ضرورت ہے‘ ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں طلبہ یونینز کو بحال کیا جائے‘ جو رہنما طلبہ یونینز سے قومی سیاست میں آئے ان کی کارکردگی اور ان کا کردار ہمیشہ ہی ڈرائنگ رومز اور موروثی سیاستدانوں سے بہت بہتر رہا ہے۔ ان خیالات کا اظہار سابق ڈین سوشل سائنسز جامعہ کراچی پروفیسر ڈاکٹر احمد قادری، جامعہ کراچی کے شعبہ پولیٹیکل سائنس کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر محمد علی، ڈی ایچ اے صفا یونیورسٹی کی لیکچرار سدرہ احمد اور جناح یونیورسٹی برائے خواتین شعبہ سیاسیات کی چیئرمین اسسٹنٹ پروفیسر حنا محب نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ’’ کیا نئے انتخابات ملک کو درپیش مسائل کا حل ہیں ؟‘‘۔ ڈاکٹر احمد قادری کا کہنا تھا کہ نئے انتخابات ملک کو درپیش مسائل کا حل نہیں ہیں کیونکہ اگر انتخابات ملکی مسائل کا حل ہوتے تو آج ہمارے سارے مسائل حل ہو چکے ہوتے اور ہم ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہوتے‘ تمام حکومتوں نے انتخابات سے قبل وعدے اور سبز باغ دکھا کرعوام سے ووٹ مانگے اور جب وہ حکومت میں آئے تو وہ اپنے سارے وعدے بھول گئے‘ سچائی تو یہ ہے کہ انتخابات کے بجائے عوام میں سیاسی کلچر کو فروغ دیا جائے‘ نئے انتخابات کے انعقاد کا مطالبہ بہت آسان جبکہ اس پر عملدرآمدکرانا بہت مشکل ہے‘ پاکستان شدید معاشی بحران کا شکار ہے‘ اس بحران کی وجہ سے سماجی صورت حال بھی ابتر ہے‘ کسی سیاسی جماعت حتیٰ کہ برسراقتدار جماعت کے پاس بھی کوئی منصوبہ نہیں ہے‘ گھسے پٹے انداز میں معاشی بحران سے نمٹنے کی ناکام کوششیں کی جا رہی ہیں جن کا منفی نتیجہ عوام کو متاثر کر رہا ہے‘ معاشی مسائل کا حل کسی ایک سیاسی جماعت کے پاس نہیں ہے بلکہ تمام سیاسی جماعتوں کو مل کر ان مسائل کے بارے میں غور کرنا ہو گا اور ان کا حل تلاش کرنا ہو گا‘ دنیا کے جمہوری ممالک میں طلبہ یونین کو سیاست کی نرسری کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے جہاں ایک پڑھے لکھے ماحول میں اپنی بات کرنا اور خدشات کا کھل کر اظہار کرنا تعلیمی اداروں کا خاصا ہوتا ہے مگر پاکستان میں کئی دہائیوں سے یہ عمل رکا ہوا ہے‘ طلبہ یونینز نے پاکستان کی قومی سیاست کو جو سیاسی رہنما دیے ان کی فہرست کافی طویل ہے‘ اس سے باصلاحیت غریب نوجوانوں کو بھی قومی دھارے میں اپنا کردار ادا کرنے کا موقع ملتا ہے‘ جو لوگ طلبہ یونینز سے قومی سیاست میں آئے ان کی کارکردگی اور ان کا کردار ہمیشہ ہی ڈرائنگ رومز سیاستدانوں اور ‘الیکٹیبلز‘ سے بہت بہتر رہا ہے اور ایسے باصلاحیت نوجوان جو اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں‘ ان کو یہ مشورہ دوں گا کہ وہ ملکی سیاست میں آگے آئیں اور انتخابات میں آزاد حیثیت سے حصہ لیں اس بات سے بالاتر ہو کر کہ وہ ہاریں گے یا جیتیں گے‘ ان نوجوانوں کو نظریہ پاکستان آگے بڑھانے کی کوششیں کرنی چاہیے۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد علی کا کہنا تھا کہ ملک کی ترقی اور خوشحالی کا انحصار سیاسی استحکام، عوامی مینڈیٹ کے احترام اور پالیسیوں میں تسلسل سے ہوتا ہے‘موجودہ بحران کے تناظر میں پاکستان میں نئے انتخابات کا مطالبہ زمینی حقائق کے برخلاف ہے‘ ملک کو اس وقت معاشی بین الاقوامی چیلنجز کا سامنا ہے‘ ایسے میں ازسرنو انتخابات کا مطالبہ معقول معلوم نہیں ہوتا‘ اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ نئے انتخابات اور اس کے نتیجے میں وجود میں آنے والی حکومت ملکی مسائل حل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہوگی تاہم انتخابات کا مطالبہ اپوزیشن کا حق اور احتساب کا عمل ہے‘ حکومت کو چاہیے کہ حزب اختلاف کے ساتھ ملک کو درپیش مسائل باالخصوص مہنگائی کے خاتمے کے حوالے سے مذاکرات کرے‘اگر حکومت سنجیدہ لوگوں کو سامنے لاکر حالات کی نزاکت کے پیش نظر اپوزیشن سے مذاکرات کرتی ہے تو حالات معمول پر آسکتے ہیں۔ لیکچرار سدرہ احمد کا کہنا تھا کہ ہماری معیشت کی حالت خراب ہے اور کورونا وبا پر قابو پانا بھی بہت بڑا چیلنج ہے‘دنیا بھر میںکورونا وبا سے لاکھوں انسانی جانیں ضائع ہو چکی ہیں اور اس کو قابو کرنے میں عالمی طاقتیں بھی لاچار نظر آرہی ہے ‘ ان حالات میں کوئی بھی صاحب عقل انسان جاری جمہوری نظام کو پٹری سے اتارنے کے حق میں نہیں ہو گا‘ اگر ناگزیر حالات کی بنا پر قبل ازوقت انتخابات کا سوچا بھی جائے تو حالات اس نوعیت کے ابھی نہیں ہیں ‘ جن جماعتوں کی طرف سے فرمائش کی جا رہی ہے کہ موجودہ وزیر اعظم مستعفی ہو ں اور نئے انتخابات کا انعقاد کیا جائے‘ شاید یہ جماعتیں سوچ رہی ہیں کہ دوبارہ انتخابات سے یہ لوگ جیت کر آجائیں گے اور یہ آکر کوئی معجزہ کریں گے جو شاید ان کو اپنے گزشتہ ادوار میں کرنے کا موقع نہیں ملا تھا اور یہ ناممکن ہے کیوں ان جماعتوں کے نظریات اور منشور الگ الگ ہیں‘ اپوزیشن کی تمام جماعتوں کے اراکین استعفا دینے کے موڈ میں نہیں ہیں اور خاص طور پر پیپلز پارٹی اس بارے میں اب تک کامیاب رہی ہے کیونکہ ان کی سندھ میں صوبائی حکومت ہے اور اگر انہوں نے استعفے دیے تو ان کو آئندہ سندھ میں حکومت بنانے میں مشکلات ہوسکتی ہیں ‘ انتخابات کا فائدہ اس وقت ہو سکتا ہے‘ جب کسی کرپٹ اور نا اہل حکومت کو ہٹانے کی کوشش کی جائے‘ کئی ممالک میں کبھی ایسے لوگوںکی بھی حکومت آ جاتی ہے جو کہ عوام کی امیدوں پر پورا نہیں اترتے ‘ اس کی وجہ لیڈرشپ کا وژن نہ ہونا ہے اور بالکل ایسا ہی معاملہ اس وقت پاکستان میں بھی ہے جس کی وجہ لیڈرشپ کا وژن اور سسٹم کی کمزوری ہے‘ اگر حکومت کی کوئی بڑی کرپشن نہ ہو تو قبل از وقت انتخابات نہیں کرانے چاہئیں‘ چند ہزار لوگوں کو جمع کر کے عوام کی طاقت سے آئی‘ کسی بھی حکومت کو گھر جانے کا نہیں کہا جاسکتا‘اس وقت حکومت کی کوشش ہے کہ معاشی طور پر پاکستان کو جو مسائل ہیں ان کو دور کیا جائے‘ اب ہمیں اپنے تجربات سے سیکھنا چاہیے‘ اب ہمیں حکومتیں گرانا اور حکومتیں بنانے کی سوچ کو ختم کر کے اس جمہوری سسٹم کو چلنے دینا چاہیے تاکہ ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکے‘ پاکستان میں جمہوری عمل کو چلتے رہنا چاہیے اور ہمیںکوشش کرنی چاہیے کہ گراس روٹ لیول سے سیاسی قیادت کو لایا جائے‘ موروثی سیاست ناکام ہو گئی ہے‘ تمام تعلیمی اداروں میں طلبہ یونینز کو بحال کیا جائے‘ جس طرح سول سرونٹس کی تربیت کے لیے اکیڈمی قائم ہے‘ اسی طرح جو بھی شہری سیاست میں حصہ لینا چاہتا ہے ان کی بھی تربیت کا نظام بنایا جائے۔ پروفیسر حنا محب کا کہنا تھا کہ نئے انتخابات ملک کو درپیش مسائل کا حل نہیں ہیں کیونکہ مسئلہ حکومت سے زیادہ پالیسیوں کا ہے جوکہ دن بدن ملکی حالات کو زوال کی طرف لے کر جا رہی ہیں‘ اس وقت معاشی، سماجی، دفاعی و دیگر پالیسیوں کے لیے مضبوط اور مثبت حکمت عملیکی ضرورت ہے کیونکہ نئے انتخابات محض پیسے، وقت کا ضیاع ہیں‘ اس وقت پالیسی ساز اداروں کواپنا کردار ادا کرنا چاہیے اور آئین کی روشنی میں پارلیمنٹ کو مسائل کا حل نکالنا چاہیے کیونکہ نئی حکومت بھی ان حالات میں اپنا کردار ادا کرنے سے قاصر رہے گی۔