سود
یہ وہ بلائے عظیم ہے جس میں ہر ملک کے غریب اور متوسط الحال طبقوں کی بڑی اکثریت بری طرح پھنسی ہوئی ہے۔ اس کی وجہ سے قلیل المعاشی کارکنوں کی آمدنی کا بڑا حصہ مہاجن لے جاتا ہے۔ شب وروز کی انتھک محنت کے بعد جو تھوڑی سی تنخواہیں یا مزدوریاں ان کو ملتی ہیں ان میں سے سود ادا کرنے کے بعد ان کے پاس اتنا بھی نہیں بچتا کہ وہ دو وقت کی روٹی چلا سکیں۔ یہ چیز صرف یہی نہیں کہ ان کے اخلاق کو بگاڑتی اور انہیں جرائم کی طرف دھکیلتی ہے بلکہ ان کے معیار ِزندگی کو پست اور ان کی اولاد کے معیار تعلیم وتربیت کو پست تر کردیتی ہے… سودی کاروبار کی یہ قسم صرف ایک ظلم ہی نہیں بلکہ اس میں اجتماعی معیشت کا بھی بڑا بھاری نقصان ہے‘‘۔ (سود)
٭…٭…٭
سود گھٹتا ہے
سرمایہ دار سمجھتا ہے کہ دولت ک وجمع کرکے اس کو سود پر چلانے سے دولت بڑھتی ہے۔ اسلام کہتا ہے کہ نہیں۔ سود سے تو دولت گھٹ جاتی ہے۔ دولت بڑھانے کا ذریعہ نیک کاموں میں اسے خرچ کرنا ہے۔ اللہ سود کا منہ ماردیتا ہے اور صدقات کو نشوونما دیتا ہے‘‘۔ (اسلام اورجدید معاشی نظریات)
٭…٭…٭
خرچ کرنے کا حکم
1)انفاق
اسلام خرچ کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔ مگر خرچ کرنے سے اس کا مقصد یہ نہیں ہے کہ آپ اپنے عیش وآرام اورگلچھر ے اڑانے میں دولت لگائیں۔ بلکہ وہ خرچ کرنے کا حکم فی سبیل اللہ کی قید کے ساتھ دیتا ہے۔ یعنی آپ کے پاس اپنی ضرورت سے جو کچھ بچ جائے اس کو جماعت کی بھلائی کے کاموں میں خرچ کردیں کہ یہی فی سبیل اللہ ہے۔
(2) زکوٰۃ:
اسلام قانون بناتا ہے کہ جو لوگ فیاض کی اس تعلیم کے باوجود اپنی افتادِ طبع کی وجہ سے روپیہ جوڑنے اور مال سمیٹنے کے خوگر ہوں، ان کے مال میں سے کم ازکم ایک حصہ سوسائٹی کی فلاح وبہبود کے لیے ضرور نکلوا لیا جائے۔ اسی چیز کا نام زکوٰۃ ہے۔
لفظ زکوٰۃ خود اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ مالدار آدمی کے پاس جو دولت جمع ہوتی ہے وہ اسلام کی نگاہ میں ایک نجاست ہے اور وہ پاک نہیں ہوسکتی جب تک کہ اس کا مالک اس میں سے ہر سال کم از کم ڈھائی فیصدی راہِ خدا میں خرچ نہ کردے۔
(3) قانونِ شریعت:
اس قانون کا منشاء یہ ہے کہ جو شخص مال چھوڑکر مرجائے خواہ وہ زیادہ ہو یا کم، اس کو ٹکڑے ٹکڑے کر نزدیک و دور کے تمام رشتے داروں میں درجہ بدرجہ پھیلا دیا جائے اور اگر کسی کا کوئی وارث بھی نہ ہو تو بجائے اس کے کہ اسے متنبیٰ بنانے کا حق دیا جائے، اس کے مال کو مسلمانوں کے بیت المال میں داخل کردینا چاہیے تا کہ اس سے پوری قوم فائدہ اْٹھائے۔=
(4)غنائمِ جنگ:
جنگ میں جو مالِ غنیمت فوجوں کے ہاتھ آئے اس کے متعلق یہ قانون بنایا گیا ہے کہ اس کے پانچ حصے کیے جائیں۔ چار حصے فوج میں تقسیم کردیے جائیں اور ایک حصہ اس غرض کے لیے رکھ لیا جائے کہ عام قومی مصالح میں صرف ہو۔
(5) اقتصاد:
اسلام ہر شخص کو اپنے خرچ میں اقتصاد اور کفایت شعاری ملحوظ رکھنے کا حکم دیتا ہے۔ تاکہ افراد اپنے معاشی وسائل سے کام لینے میں افراط یا تفریط کی روش اختیار کرکے تقسیمِ ثروت کے توازن کونہ بگاڑیں‘‘۔ (اسلام اور جدید معاشی نظریات)