اکتالیسویں سالانہ خلیجی تعاون کونسل (GCC) کا اجلاس سعودی عرب کے شمال مغربی شہر ’’العْلا‘‘ میں پانچ جنوری سے شروع ہوا۔ اس اجلاس کی خاص بات خلیجی ریاستوں میں پائی جانے والی متنازع صورتِ حال کو پرامن انداز میں مصالحتی فضا کے ذریعے مذاکرات کی میز پر حل کرنا تھا جو کر لیا گیا۔ اس طرح العْلا سربراہ اجلاس کو خلیج کی عرب ریاستوں میں ایک نئے دور آغاز کہا جارہا ہے۔ اس اجلاس میں قطر کے امیر شیخ تمیم بن احمد الثانی بھی شریک تھے۔ اس سے ایران کی تنہائی میں اضافہ ہوا ہے۔ رائٹرز اور عالمی اخبارت کے مطابق اس کا سہرا امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشیرِ خصوصی برائے مشرِ ق وسطیٰ ’’جیرڈ کشنر‘‘ کے سر ہے۔
خلیجی ریاستوں میں بحرانی صورت حال کے پیدا ہونے کے بعد قطری امیر کا یہ پہلا سعودی دورہ ہے، العْلا گلف تعاون کونسل کانفرنس پہلا قدم ہے اور مزید مصالحتی اقدام کا تعین ابھی کرنا باقی ہے لیکن خلیجی خطے میں سے بحرانی حالات کے خاتمے کے لیے یہ معاہدہ انتہائی وقعت کا حامل ہے۔ اس معاہدے میں خلیجی ریاستوں میں موجود سب سے بڑی عوامی پارٹی اخوان المسلمین کا ذکر نہیں ہے جو سعودی قطرکشیدگی کا محور و مرکز تھا اس کے علاوہ قطر فلسطینی ریاست کا بھی بہت بڑا حامی ہے اور وہ معاشی ضروریات میں اس کی ہر ممکن مدد کرتی ہے۔ یہ ایک ایسا معاہدہ جس میں اخوان المسلمون نظر انداز ہوگئے؟ جس کی وجہ سے مصر اور قطر کے تعلقات میں کشیدگی پیدا ہوئی تھی۔
گزشتہ برس پانچ جون کو سعودی عرب، بحرین، متحدہ عرب امارات اور مصر نے قطر پر دہشت گردی کی حمایت اور اپنے حریف ایران سے تعلقات کے فروغ کا الزام عائد کرتے ہوئے دوحہ سے تعلقات منقطع کر دیے تھے۔ دوحہ نے ان تمام الزامات کو مسترد کیا ہے۔ سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں نے نہ صرف قطر پر پابندیاں عائد کیں بلکہ تعلقات کی بحالی کے لیے تیرہ مطالبات بھی پیش کیے۔ کویت فریقین کے درمیان ثالثی کی کوشش کر رہا تھا۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی ہمسایہ خلیجی ریاست قطر کے ساتھ تنازع جون 2017 میں شروع ہوا تو سعودی عرب کی حمایت میں کچھ اور ریاستیں بھی قطر کے بائیکاٹ میں شامل ہو گئیں۔ ان کا الزام تھا کہ قطر دہشت گردی کی اسپانسر شپ میں ملوث ہے اور ایران کے ساتھ بھی اس کے قریبی تعلقات ہیں۔ بائیکاٹ میں قطر کے ساتھ اقتصادی اور سفارتی رابطے منسوخ کرنے کے ساتھ ہوائی، زمینی اور سمندری راستوں کی پابندی بھی شامل تھی۔ قطر مسلسل ہر فورم پر ان الزامات کی تردید کرتا رہا۔ فریقین میں امریکا اور کویت نے مصالحت کی بہت کوششیں کی تھیں۔
لیکن بین الاقوامی تھنک ٹینک رائل یونائیٹڈ سروس انسٹیٹیوٹ کا کہنا ہے کہ خلیج فارس کی عرب ریاستوں میں امن ڈیل کا سہرا بھی ٹرمپ انتظامیہ کو جاتا ہے۔ یہ بہت حد تک ٹھیک بھی ہے۔ عرب ملک علاقے میں امریکی فورسز کی تعداد میں کمی، افغانستان میں طالبان کی بڑھتی ہوئی طاقت اور ایران کے بڑھتے ہوئے اثر رسوخ سے خوف زدہ ہیں جب کہ انہیں ٹیکنالوجی کے میدان میں اسرائیل کی برتری کا بھی علم تھا۔ اس پوری صورتحال کی وجہ سے عربوں کو خوف تھا کہ وہ تباہ، اور ان کی بادشاہت کا خاتمہ بھی ہو جائے گا۔
امیرِ کویت کی جانب سے اکتوبر 2020ء میں کوششوں کا عملی آغازہو چکا تھا لیکن ان کو اس حوالے سے کی جانے والی کوششوں کو مضبوط حمایت اس وقت ملی جب صدر ٹرمپ کے داماد اور مشرق وسطیٰ کے لیے ان کے نمائندے جیرڈ کشنر نے دسمبر 2020 میں خلیجی ممالک کا دورہ کیا۔ اس دوران سعودی عرب کے شہر ’’نیوم‘‘ میں سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اور جیرڈ کشنر کے درمیان ملاقات ہوئی تھی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جیرڈ کشنر گزشتہ چار سال سے وائٹ ہائوس میں ہیں انہوں نے اس دوران میں سعودی عرب اور قطر کے درمیان تنازعات حل کروانے کی کوشش کیوں نہیں کی؟ کیا وجہ ہے کہ انہیں ریاض اور دوحہ میں صلح کروانے کا خیال اب آیا ہے۔ اس کا صرف ایک ہی مقصد ہو سکتا ہے کہ 20جنوری سے قبل قطر کے ساتھ بھی ’’ابرہیم ایکارڈ‘‘ پر دستخط کا کام مکمل کر لیا جائے۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشیر خصوصی برائے مشرِ ق وسطیٰ جیرڈ کشنر ہوں یا جو بائیڈن ان میں کسی کو بھی مسلمانوں کے فائدہ سے کوئی غرض نہیں۔ قطر کا تین سال قبل بائیکاٹ کرنے والے ممالک نے قطر پر شدت پسندوں کی مالی امداد اور ایران کو تنہا کرنے کے لیے کی جانے والی کوششوں میں ساتھ نہ دینے کا الزام عائد کیا تھا۔ اب قطر سے دوستی کا بھی یہی مقصد ہے کہ ایران کو تنہا اور پاکستان کے خلاف بھی عربوں کو متحد کیا جائے۔ صدر ٹرمپ طویل عرصے سے اس سعودی قطر تنازعے کو حل کرنا چاہتے تھے تاکہ وہ ایران کے خلاف اپنی بھرپور دباؤ کی پالیسی کو کامیابی سے نافذ کر سکیں اور آنے والے صدر جو بائیڈن کے لیے ان اقدامات کو واپس لینا ممکن آسان نہ ہو۔
اس پوری صورتحال میں اب دنیا میں دو ممالک ایسے ہیں جنہیں امریکا کی جانب سے معاشی پابندی کا سامنا ہے ان میں ایران اور شمالی کوریا شامل ہیں۔ اسی لیے جس دوران قطر اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کی بحالی ہو رہی تھی ایرانی فورسز نے خلیج فارس کے آبنائے ہرمز میں کیمیاوی اشیاء سے لدے ہوئے جنوبی کوریا کے ایک ٹینکر جس پر سات ہزار 200 ٹن کیمیاوی تیل لدا ہوا ہے کو ضبط کرلیا۔ ٹینکر کو بندرعباس کی بندرگاہ پر پہنچا دیا گیا ہے۔ تہران چاہتا ہے کہ امریکی پابندیوں کی وجہ سے جنوبی کوریائی بینکوں میں اس کے منجمد اثاثے کھولے جائیں۔ جنوبی کوریا کی وزارت خارجہ نے جہاز کو جلد از جلد چھوڑ دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ لیکن اس نے ایران کے ان الزامات پر فی الحال کوئی تبصرہ نہیں کیا کہ یہ ٹینکر خلیج کے پانیوں کو کیمیکل سے آلودہ کر رہا تھا۔ یہ سب کچھ ایسے وقت ہوا ہے جب جنوبی کوریا کے نائب وزیر خارجہ تہران کے دورے پر آنے والے ہیں۔ جوہری معاہدے سے امریکا کی دستبرداری نے ایرانی کاروباری اداروں کو پریشان کردیا ہے۔ بحرین میں تعینات امریکی بحریہ کے پانچویں بیڑے کا کہنا ہے کہ اسے اس پیش رفت کی خبر ہے اور وہ صورت حال پر نگاہ رکھے ہوئے ہے۔ اگر اس بحران نے جنگ کی صورتحال پیدا کر دی تواس کے بعد ’’عالمی جنگ‘‘ کو روکنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہو جائے گا۔