کورونا کی وبا کیا آئی، انسانی بستیوں میں موت گھاس پھوس کی طرح اُگ رہی ہے، ہر روز کسی نہ کسی کی موت کی خبر مل رہی ہے، جنازے تھمنے میں نہیں آ رہے، ادریس بختیار کا غم ہلکا نہیں ہوا تھا، مسعود ملک چلے گئے، ابھی ان کا کفن میلا نہیں ہوا تھا محترم اطہر ہاشمی کا غم سامنے آن کھڑا ہوا، دل ابھی بوجھل ہی تھا کہ قبلہ سعود ساحر داعی اجل کو لبیک کہہ گئے اور اب جناب روئف طاہر بھی چل دیے، ان سے فون پر تو گاہے گاہے رابطہ رہتا تھا، آخری ملاقات قبلہ سعود ساحر کے جنازے کے موقع پر ہوئی، مجیب الرحمن شامی کے ساتھ لاہور سے تشریف لائے تھے، سعود ساحر کے صاحب زادوں کرنل (ر) احمد سعود اور عمر فاروق کے سر پر ہاتھ رکھا، انہیں دعائیں دیں، اچھے بھلے لگ رہے تھے، گمان نہیں تھا کہ ان کی صحت اچھی نہیں ہے، بہر حال موت کب دیکھتی ہے کہ کسے لے جارہی ہے، وہ تو مقرر وقت دیکھتی ہے، بالکل بھی اندازہ نہیں تھا کہ رؤف طاہر یوں چانک جہانِ فانی چھوڑ جائیں گے ان کے احباب میں سے کسی کو بھی اندازہ نہیں تھا، بظاہر صحت مند، دِل کی تکلیف تو تھی، لاہور ادریس بختیار کے لیے تعزیتی ریفرنس ہوا تو شامی صاحب کے ہاں رات کا کھانا تھا، قبلہ سعود ساحر بھی ہمارے ہمراہ تھے، مولانا ظفر علی خان ہال سے شامی صاحب کے گھر جاتے ہوئے انہوں نے اس تکلیف کا کچھ کچھ اظہار کیا تھا، سعود ساحر کے جنازے میں شرکت کے لیے آئے تو نواز رضا نے شامی صاحب، فرخ سعید خواجہ اور انہیں رات ٹھیر جانے اور اپنے گھر کھانا کھانے کی دعوت دی مگر معذرت کی کہ انہیں لاہور واپس پہنچنا ہے۔
مرحوم مرنجاں مرنج شخصیت کے مالک تھے، گفتگو میں مزاح کا عنصر غالب رہتا، کسی نہ کسی حوالے سے جملے بازی بھی کرتے رہتے تھے، کبھی اندازہ ہی نہ ہوا کہ یہ شخص دِل کا روگ پالے ہوئے ہے جو اسے اچانک عالم ِ جاودانی کی طرف لے جائے گا، وہ واقعی دھڑے کے آدمی تھے جیسا کہ ان کے بارے لکھا گیا ہے، دوستوں کے دوست تھے، اسلام آباد آتے تو قبلہ سعود ساحر سے ملتے، اور دونوں جنرل ضیاء الحق شہید کے مزار پر جاتے، ہفت روزہ صحافت سے روزناموں کی طرف آئے تو روزنامہ جسارت سے وابستہ ہوئے، پھر سعودی عرب کے اُردو نیوز کے لیے جدہ چلے گئے، واپس آئے تو کچھ عرصے فراغت رہی، پھر مسلم لیگ(ن) کے میڈیا سیل سے وابستہ ہوئے، اور خواجہ سعد رفیق کے دور میں ریلوے کے شعبہ تعلقات عامہ کے ڈائریکٹر رہے اس کے بعد صحافت میں واپس آئے اور باقاعدگی سے کالم لکھنا شروع کر دیا۔ اُن کا اسلوب منفرد تھا، واقعات کی صحت کا خصوصی اہتمام کرتے تھے، وہ داستاں کہتے کہتے اچانک خاموش ہو گئے، اللہ تعالیٰ اُن کی مغفرت فرمائے اور پس ماندگان کو صبر جمیل عطا کرے۔
بلا شبہ اپنے کردار، اور جرأت اظہار نے اُنہیں اعلیٰ مقام عطا کر رکھا تھا۔ ہر مکتبہ ٔ فکر کے اخبار نویسوں کے ساتھ ان کا رابطہ رہتا، اپنی بات کے پکے تھے، دوسروں کی دِل آزاری نہیں کرتے تھے شائستگی اور متانت کے ساتھ اپنا نقطۂ نظر بیان کرتے اور دِلوں میں گھر کر لیتے، عمر میں بڑے تھے، تجربے اور علم میں بھی، لیکن ان کے رویے سے اس کا کبھی اظہار نہ ہوتا، وہ جونیئرز کا حوصلہ بڑھاتے اور راہ نمائی کیا کرتے تھے ہمارے جیسے پچھلی صفوں کے اہل قلم کی پشتی بانی کے لیے یوں سینہ ٹھونک کے کھڑا ہو جائے۔ رؤف طاہرکی شخصیت ماڈل کی حیثیت رکھتی ہے انہوں نے اپنے نظریاتی رشتوں کے اظہار میں کبھی کسی تکلف اور مصلحت سے کام نہیں لیا ان کی نظریاتی تربیت سید ابوالاعلی مودودیؒ کے افکار کی روشنی میں ہوئی اور صحافتی دیانت پر کوئی سمجھوتا نہ کیا، ہمیشہ اسی فکر کی سربلندی کے لیے جان مار کر کام کیا جب سے وہ سعودی عرب سے واپس پاکستان لوٹے تھے، اللہ تعالیٰ ان کی قبر کو نور سے بھر دے، ان کی آئندہ کی منزلیں آسان فرمائے، رؤف طاہر یاد آتے رہیں گے، اسلام اور پاکستان کے لیے لکھنا، بولنا، سوچنا ان کی پہچان تھی کبھی مصلحت کا شکار نہیں ہوئے ڈنکے کی چوٹ دائیں بازو کے سرخیل تھے، یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ رئوف طاہر کے ساتھ ہی ہماری سیاسی تاریخ کی لاتعداد داستانیں گہری قبر میں اتر گئیں۔