کیپٹل ہل پر بلووں سے ٹرمپ کا کردار مزید داغ دار

618
واشنگٹن: امریکی کانگریس کی عمارت پر قبضہ کرنے والے ٹرمپ کے حامی اپنی تصویریں اتارنے کے ساتھ سامان بھی چوری کرکے لے جارہے ہیں

 

امریکا میں ریبلکن پارٹی کے حامیوں کی جانب سے کانگریس کی عمارت پر دھاوے نے ’’سابق صدر‘‘ ٹرمپ کے سیاسی کردار پر بدنما داغ لگادیا۔ نومبر میں ہونے والے انتخابی معرکے میں شرم ناک شکست کے بعد ٹرمپ کا جانا قرار پاچکا تھا، لیکن انہوں نے خود کو اولوالعزم اور بلند حوصلہ ثابت کرنے کے چکر میں پستی میں گرنے کا کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ تاہم دلدل میں دھنسنے والے شخص کی طرح وہ جتنے ہاتھ پیر مارتے رہے، ہر طرف سے ناکامی ان کا مقدر بنتی رہی۔ ٹرمپ کی نااہلی اور متنازع پالیسیوں کے باعث دور اقتدار میں ان کے کئی دیرینہ رفیق ساتھ چھوڑ چکے تھے، تاہم آخری دھچکا انہیں اس وقت لگاکہ جب نائب صدر مائیک پنس نے ان کے حکم کو ہوا میں اڑاکر کانگریس میں صدر جوبائیڈن کی مخالفت کرنے سے انکار کردیا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ’’انتقال منصب‘‘ سے چند روز پہلے ٹرمپ نے خاموشی اختیار کرلی تھی، جب کہ ان کے حامی کانگریس ارکان بائیڈن کے باضابطہ صدر بننے اور الیکٹورل کالج کی توثیق کی تقریب میں ہنگامہ کھڑا کرنے کی منصوبہ بندی کررہے تھے۔ ٹرمپ 6 جنوری کو ایک فیصلہ کن دن قرار دے کر اقتدار منتقلی پر رضامند دکھائی دے رہے تھے، تاہم اپنے حامیوں کی واشنگٹن آمد کی خبر سن کر وہ ایک بار پھر جوش میں آگئے۔ انہوں نے ریپبلکن پارٹی سے ہمدردی رکھنے والے مظاہرین سے مطالبہ کیا کہ وہ واشنگٹن ڈی سی پہنچ کر جوبائیڈن کی توثیق کی کارروائی کو منسوخ کرانے میں اپنا کردار ادا کریں۔ ٹرمپ کے ذاتی وکیل روڈی جولیانی نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ انتخابی تنازع کا حل اب دونوں امیدواروں میں کشتی کے ذریعے طے کر دینا چاہیے۔
اس دوران ٹرمپ کے بڑے بیٹے ڈونلڈ ٹرمپ جونیئر نے اپنی جماعت کے ارکان کے نام پیغام بھیجا، جو اپنے رہنما کے لیے ڈیموکریٹس کی مخالف مول لینے سے گھبرا رہے تھے۔ پیغام میں کہا گیا کہ یہ ڈونلڈ ٹرمپ کی رپبلکن پارٹی ہے، اسے پہلے والی جماعت نہ سمجھا جائے۔اس کے بعد صدر نے خود مظاہرین کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے انہیں کیپٹل ہِل کی جانب مارچ کرنے پر اُکسایا۔ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ہم پیچھے ہٹیں گے نہ شکست تسلیم کریں گے۔ ہمارے ملک کے ساتھ بہت کھلواڑ ہو چکا ہے۔ اب ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے۔ عالمی میڈیا کو تعجب ہے کہ جس طرح ٹرمپ کی کال پر دیکھتے دیکھتے کیپٹل ہل پر ٹرمپ کے حامیوں کی یلغار ہوئی اْس کی مثال امریکی تاریخ میں نہیں ملتی۔ پولیس اور نیشنل گارڈز کی بھاری نفری موجود ہونے کے باوجود ہجوم نے قانون سازوں کے چیمبر پر حملہ کیا۔ پولیس کے ساتھ تصادم میں 4افراد جان سے گئے۔ ان واقعات کو امریکی تاریخ کا سیاہ باب کہنا کافی نہیںہے۔
واشنگٹن ڈی سی میں قائم امریکی پارلیمان کی عمارت کودنیا کی محفوظ ترین عمارتوں میں ایک قرار دیا جاتا ہے۔ وہاں بلوائیو ں کا عین اس وقت گھسنا کہ جب وہاں آیندہ صدر کی انتخابی فتح کی توثیق ہونا تھی، ایک ایسا شرم ناک واقعہ ہے، جس نے صرف ریپلکنز کے حامیوں اور بائیڈن کے مخالفین ہی نہیں، بلکہ پوری امریکی قوم کے چہرے کو داغ دار کردیا ہے۔ ٹرمپ کے طرزِ عمل نے ثابت کردیا کہ وہ سیاسی و سماجی شعور سے یکسر عاری ہیں۔ اقتدار کی ہوس، عزت نفس کا پاس نہ رکھنے اور دیانت داری کے فقدان نے انہیں آیندہ کسی بھی سیاسی میدان میں حصہ لینے کے قابل نہیں چھوڑا۔ان کے دورِ اقتدار میں ساتھ نبھانے والوں کا یہ حال رہا کہ تمام تر بدعنوانیوں اور نااہلی کے باوجود اقتدار سے چمٹے رہنے کی خواہش انہیں فکر میں گھلاتی رہی۔
2020 ء کا آغاز ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک ایسے اعلان سے کیا تھا، جس کا مقصد امریکی قوم کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں پائے جانے والے اپنے اتحادیوں، مغربی قوتوں اور خاص طور پر اسرائیل کی خوشنودی حاصل کرنا تھا۔ 3 جنوری 2020 ء کو ڈونلڈ ٹرمپ نے ایرانی جنرل قاسم سلیمانی سمیت 9 افراد کی عراق میں امریکی ڈرون کے نتیجے میں ہلاکت کی خوش خبری سناتے ہوئے فاخرانہ لہجے میں کہا تھا کہ وہ دہشت گردوں کو انجام تک پہنچانے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ ادھر ٹرمپ کورونا جیسی ہلاکت خیز وبا کی حقیقت کو ماننے سے پہلو تہی کرتے رہے۔ نتیجہ امریکا میں ہونے والی اموات اور ملک کو پہنچنے والے اقتصادی و سماجی نقصانات کی صورت میں سامنے آیا۔ نسل پرستی کو ہوا دینا ٹرمپ کا شعار رہا، جس کے سبب خود امریکا کے اندر سے اْٹھنے والی تحریک نے جو بائیڈن کی شکل میں امریکی عوام کے لیے ایک بار پھر امید کی کرن پیدا کر کی، جسے ٹرمپ قبول نہیں کر پا رہے۔
2021 ء کے آغاز پر جب ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنے ستارے ڈوبتے نظر آنے لگے اور آخری امیدوں کے دم توڑنے کا احساس بڑھنے لگا تو چلتے چلتے انہوں نے ایران پر مزید پابندیوں کا اعلان کردیا۔ ان کی اس حرکت سے لگنے لگا کہ وہ جو بائیڈن کے آگے ہار ماننے سے انکار اور آخری لمحوں تک مظاہرہ کرنے کا منصوبہ بنا چکیہیں۔ وائٹ ہاؤس کے سامنے انہوں نے اپنے ہزاروں حامیوں کو شہ دی کہ وہ کیپٹل ہل پر دھاوا بول دیں۔
کانگریس کی عمارت میں ان کے حامیوں نے جو رویہ اختیار کیا، دنیا اس کو دیکھ کر دنگ رہ گئی۔ شرپسند سیکورٹی توڑ کر اندر داخل ہوئے اور اجلاس کی کارروائی کو روک دیا۔ یہ دیکھ کر کانگریس کے ارکان، عملہ اور میڈیا کے نمایندمحفوظ مقام کی طرف دوڑلگاگئے۔ ٹی وی چینلوں پر مظاہرین کی ایسی تصاویر نشر ہوئیں، جن میں وہ رقص کر تے دکھائی دیے۔ دنگا فساد کرنے والوں کی سوشل میڈیا پر بھی تصاویر آئیں، جن میں وہ قانون ساز ایوانوں میں گھسنے کی کوشش کرتے نظر آئے۔ اس دوران وہ منتخب نمایندوں اور سیکورٹی افسران کے دفاتر میں بیٹھ کر تصاویر بنوا تے رہے۔ ایوانِ نمایندگان کا حال یہ تھا کہ وہاں اسلحہ کی نمایش کی جاتی رہی۔
نومنتخب صدر جو بائیڈن کا کہنا ہے کہ یہ ہماری جمہوریت پر ایک ایسا حملہ ہے کہ، جس کی جدید دور میں مثال نہیں ملتی۔ انہوں نے اپنے خطاب کے اختتام پر صدر ٹرمپ کو چیلنج دیا کہ اگر وہ ان فسادات کی ذمے داری اٹھانے سے انکار کرتے ہیں تو ٹی وی پر تشدد کی مذمت کریں اور محاصرے کے خاتمے کا مطالبہ کریں۔ دوسری جانب ٹرمپ کے حامیوں کی حرکت پر عالمی سطح پر بھی مذمت کی جارہی ہے اور یہ دنیا پر بات مخفی نہیں رہی کہ فسادات کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے۔ جرمن چانسلر انجیلا مرکل کا کہنا ہے کہ کیپٹل ہل کے مناظر نے مجھے بہت غم زدہ کردیا۔ افسوس ہے کہ ٹرمپ نے شکست تسلیم نہیں کی۔ برلن حکومت کو یقین ہے کہ امریکی جمہوریت پارلیمان پر حملہ کرنے والوں سے زیادہ طاقتور ہے۔ جوبائیڈن اور کملا ہیرس امریکی جمہوریت کے نئے باب کی شروعات کریں گے۔
ایرانی صدر حسن روحانی نے کہا کیپٹل ہل پر ٹرمپ کے حامیوں کے حملے نے مغربی جمہوریت کی کمزوریوں کا پول کھول دیا۔ امید کرتے ہیں کہ نئی امریکی انتظامیہ ان واقعات سے سبق سیکھے گی اور اپنے رویے میں تبدیلی لائے گی۔ سائنس اور صنعتی ترقی کے باوجود صرف ایک شخص کی وجہ سے امریکا کے حصے میں بدنامی آئی۔ اقتدار کے لالچ میں مبتلا سابق صدر نے 4سال میں میں ملک کو تباہی کے دہانے پر پہنچادیا۔ایرانی صدر نے کہا کہ وہ نو منتخب امریکی صدر بائیڈن سے اچھے تعلقات کی امید کرتے ہیں۔