سپریم کورٹ آف پاکستان نے خیبر پختونخوا ملازمین کی ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھانے کے خلاف پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔
چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ سماعت پر ملازمین کا وکیل بھی عدالت میں پیش ہوا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ پشاور ہائی کورٹ قانون کے مطابق کیس کا فیصلہ کرے۔ چند سول سرونٹس کے تحفظات پر قانون کو غلط قرار نہیں دیا جاسکتا، صرف وضاحتوں سے قانون چیلنج نہیں ہوتے۔
جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ قانون بنانا حکومت کا کام ہے۔ عدالتیں اس پر عمل درآمد کراتی ہیں۔ قانون آئین کے تحت بنتا ہے رولز آف بزنس سے نہیں۔
ملازمین کے وکیل نے کہا کہ سول سرونٹ ایکٹ میں ریٹائرمنٹ کی عمر55 سال کردی گئی۔ 25 سال کی سروس پر ریٹائرمنٹ کا قانون ختم کردیا گیا۔ اسمبلی میں کسی کو سنے بغیر اور بنا بحث کیے بل پاس کیا گیا۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کسی کو اسمبلی کی کارروائی پر اعتراض ہے تو اسمبلی میں جاکر شکایت کرے۔ جب روٹی پک چکی تو یہ پوچھنا بےکار ہے کہ آٹا کہاں سے آیا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ جب قانون پر گورنر کے دستخط ہوگئے تو معاملہ ختم ہوگیا۔ قانون سازی میں کسی کا موقف سننے کا تصور نہیں ہے۔
سپریم کورٹ نے معاملہ دوبارہ فیصلہ کے لیے پشاور ہائی کورٹ کو واپس بھیج دیا۔