کراچی (رپورٹ:منیر عقیل انصاری) آج ہم نے اسلام کے اس بنیادی عقیدے یعنی تصورِ آخرت کو فراموش کردیا ہے، دنیاوی فوائد کے حصول کے لیے ہم اس طرح محنت کرتے ہیں گویا کہ ہمیں کبھی اس دنیا سے رخصت ہی نہیں ہونا ہے،دولت انسان کے لیے زندگی میں غیر ضروری آسانیاں اور تعیشات ، لالچ اور ہوس پیدا کردیتی ہے، معاشرے میں مقابلے کی دوڑ میں دولت اور ہوس نے ہماری خوشیوں کو محدود کردیا ہے، لوگوں میں بڑھتا ہوا لالچ ،حرص اور پیسوں کی فراوانی نے خوشیوں اور سکون کولوٹ لیا ہے،آج دولت کی فراوانی اور لا تعداد سہولیات کے باوجود بھی انسان بے سکون ہے۔ ان خیالات کا اظہار وفاقی اردو یونیورسٹی شعبہ ابلاغ عامہ کے سابق سربراہ، ہمدرد فائونڈیشن کے پروگرامز اینڈ پبلیکشنز کے ڈائریکٹر اور ہمددرنونہال کے سابق ایڈیٹر پروفیسر سلیم مغل ،سندھ بوائز اسکاؤٹس ایسوسی ایشن کے صوبائی سیکرٹری سید اختر میر،جامعہ کراچی شعبہ اسلامی تاریخ کے صدر پروفیسر ڈاکٹر حافظ محمد سہیل شفیق اور وفاقی اردو یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر محمد ضیاء الدین نے جسارت سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ جامعہ کراچی شعبہ اسلامی تاریخ کے صدر پروفیسر ڈاکٹر حافظ محمد سہیل شفیق نے کہا کہ قرآن کریم نے اس بات کو بالکل واضح طور پر بیان کیا ہے کہ یہ دنیا فانی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے زندگی اور موت کو اس لیے تخلیق کیا ہے کہ وہ آزمائش کرکے دیکھ لے کہ ہم میں سے کون اچھے عمل کرتا ہے۔ اسی لیے احادیث مبارکہ میں دنیا کو آخرت کی کھیتی کہا گیا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ انسان اس دنیا میں رہتے ہوئے وہ کام کرے جو آخرت میں اسے نفع بخشے اور اسے دائمی مسرت و کامیابی حاصل ہو۔ آج ہم نے اسلام کے اس بنیادی عقیدے یعنی تصورِ آخرت کو فراموش کردیا ہے۔دنیاوی فوائد کے حصول کے لیے ہم اس طرح محنت کرتے ہیں گویا کہ ہمیں کبھی اس دنیا سے رخصت ہی نہیں ہونا ہے۔ حالانکہ موت سے بڑی کوئی حقیقت نہیں۔آخرت کے تصور کو فراموش کردینے کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ہم نے مال و دولت کے حصول اور مادی فوائد ہی کو اپنا مطمع نظر بنالیا ہے اور یہ سمجھ لیا ہے کہ یہ مال و دولت، جاہومنصب ہی خوشی و اطمینان کا باعث ہے جبکہ ذرا سا غور و فکر کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ سب کچھ نہ تو اطمینان بخشنے والا ہے اور نہ ہی حقیقی مسرت کا باعث۔ یہ تو ایک سراب ہے جس کے پیچھے لوگ دوڑتے چلے جارہے ہیں۔ اور اس دوڑ میں حلا ل و حرام کی تمیز کو بھلا بیٹھے ہیں۔ یہاں تک کہ قرآن کے الفاظ میں مال و دولت کی یہ محبت اور ہوس انہیںقبر تک پہنچادیتی ہے۔لیکن حقیقی خوشی اورقلبی سکون حاصل نہیں ہوتا۔ یاد رکھیے آخرت پر ایمان جتنا پختہ ہوگا زندگی کی مشکلات اتنی ہی آسان ہوجائیں گی۔ قناعت کی دولت ، حقیقی اور دائمی خوشی اور اطمینان حاصل ہوگا۔ کیوں کہ الا بذکر اللہ تطمئن القلوب۔ (دلوں کا اطمینان اللہ کے ذکر ہی میں ہے) وفاقی اردو یونیورسٹی شعبہ ابلاغ عامہ کے سابق سربراہ، ہمدرد فائونڈیشن کے پروگرامز اینڈپبلیکیشنز کے ڈائریکٹر اور ہمددرنونہال کے سابق ایڈیٹر پروفیسر سلیم مغل نے کہا کہ آپ کا سوال ہماری خوشیاں صرف دولت اور مادی چیزوں تک کیوں محدود ہو گئی ہیں؟اس کا جواب صحیح معنوں میں بتانے کے لیے تھوڑا سا پیچھے جانا ہوگا اور چیزوں کو ایک دوسرے سے جوڑتے ہوئے سمجھنا ہوگا۔ جب جنگ عظیم دوم ختم ہوئی اس وقت تک پورا مغرب اور دنیا کے بہت سارے یورپی اور ایشیائی ممالک اور امریکا جنگی سامان بنانے کے بہت بڑے ادارے بن چکے تھے جب جنگ عظیم دوم ختم ہوئی تو ان اداروں نے اپنی شکل بدل لی اور بڑے لیول کے ماس پروڈکشن میں چلے گئے اور مشینری بنانا شروع کی اور بڑی بڑی فیکٹریاں اور کارخانے بنائے گئے۔اب یہ کارخانے لاکھوں، کروڑوں کی تعداد میں پروڈکشن دے رہے تھے۔ اگر یہ چیزیں نہ فروخت ہوتی ہیں تو کارخانے بند ہوجاتے لہٰذا انہوں نے نئے طریقے دنیا میں متعارف کرائے۔ جیسے مارکیٹنگ، ایڈور ٹائزنگ اور پروموشنز کہا جاتاہے۔ پھر انہوں نے یہ طے کیا کہ ہم بڑے لیول پر چیزوں کو بنائیں گے کہ لوگ ان چیزوں کے عادی ہوجائیں۔ لہٰذا ایک صارف کے طور پر معاشرے کی بنیاد رکھی تو سادگی ختم ہوگئی اور پھر یہ ہوا کہ لوگ برانڈز کے پیچھے بھاگنے لگے۔ ان برانڈز کے طریقے نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور پھر آپ کے سوال کا جواب آجاتا ہے کہ لوگ مادی چیزوں کے حصول کے لیے پیسوں اور سرمایہ سے محبت کرنے لگے اور پیسہ جمع کرنے لگے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اس وقت پاکستان میں ایک طرف غربت بڑھ رہی ہے تو دوسری طرف امراء کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ دولت کی نمائش گاڑیوں، گھروں، لباس، زیورات، فرنیچر اور دیگر اسباب زندگی کی شکل میں اس طرح ہورہی ہے کہ لگتا ہے کہ ملک میں دولت کے خزانے امڈ رہے ہیں۔پیسہ کمانا اور زیادہ سے زیادہ پیسہ کمانا اس وقت ہمارے معاشرے کے ایک عام آدمی کی زندگی کا نصب العین بن چکا ہے۔ دولت انسان کے لیے زندگی میں غیر ضروری آسانیاں اور تعیشات ، لالچ اور ہوس پیدا کردیتی ہے۔ دولت کی ریس میں آخری حد کوئی نہیں ہوتی ہے۔ انسان زیادہ سے زیادہ کی کوشش میں لگا رہتا ہے۔دولت کی یہ ہوس آگے بڑھتی ہے اور انسان حرام وحلال کی تمیز سے محروم ہوجاتا ہے۔ پھر اگلا قدم وہ ہوتا ہے جب انسان ظلم پر اترآتا ہے۔ وہ بندوں کا حق غصب کرتا اور رب کو ناراض کرکے سونے چاندی کے ڈھیر جمع کرتا ہے۔جتنا اس کا زر بڑھتا ہے اتنا ہی وہ بخل میں آگے بڑھتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ قبر میں پہنچ جاتا ہے جہاںاس کی قسمت میں ابد تک رونا اور چلانا ہی رہتا ہے۔رہا اس کا مال تو وہ اس کے وارثوں کے حوالے کردیا جاتا ہے۔سندھ بوائز اسکاؤٹس ایسوسی ایشن کے صوبائی سیکرٹری سید اختر میر نے کہا کہ معاشرے میں مقابلے کی دوڑ میں دولت اور ہوس نے ہماری خوشیوں کو محدود کردیا ہے،دورِ جدید کا موازنہ ماضی سے کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ دورِ جدید میں لوگ دولت کے اعتبار سے تو پرانے زمانے کے لوگوں سے آگے نکل چکے ہیں مگر بد قسمتی سے اخلاقی قدرے انحطاط کا شکار ہیں۔اس کی اہم وجہ لوگوں میں بڑھتا ہوا لالچ و حرص ہے۔ پیسے کی فراوانی نے خوشیوں اور سکون کولوٹ لیا ہے۔ پہلے لوگ بہت مطمئن اور پُر سکون ہوتے تھے حالانکہ وہ محنت مزدوری کرتے تھے اور انہیںکسی بھی قسم کی آسائشیں میسر نہ تھیں جبکہ آج دولت کی فراوانی اور لا تعداد سہولیات کے باوجود بھی انسان بے سکون ہے۔ ہر شخص نے اپنے ذہن میں پیسوں کا تخمینہ بنا رکھا ہے کہ اتنی فراوانی ہو جائے تو زندگی پْر سکون ہو جائے گی۔پُر سکون زندگی گزارنے کے لیے سب سے اہم چیز دل کا مطمئن ہونا ہے۔ یقین جانیے دولت کا سکون سے ہر گز کوئی تعلق نہیں سکون اور خوشیوں کا تعلق دل سے ہوتا ہے۔ اگر خوشیوں کا تعلق دولت سے ہوتا تو غریبوں کے بچوں کو مسکرانا ہی نہ آتا۔اگر انسان کچھ حقیقتیں تسلیم کر لے تو یقین جانیے کہ آپ کو اپنی زندگی حسین لگے گی۔ جب انسان یہ حقیقت مان لے کہ اْس کے نصیب کا کسی کو مِل نہیں سکتا اور اْسے کسی کے نصیب کا مل نہیں سکتا تو انسان کے دل سے حسد، لالچ اور حرص خود بخود نکل جائے گی اور جب حسد اور لالچ دل سے نکل جائے تو دل پْر سکون ہو جائے گا۔انہوں نے کہا کہ خوشگوار اور پُر سکون زندگی گزارنے کے لیے دوسروں کے کام آئیے۔ دوسروں کا خیال رکھنا ہماری خوشی کے لیے بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ دوسروں کے کام آنے سے نہ صرف دوسروں کو فائدہ پہنچتا ہے بلکہ ذہنی خوشی بھی ہوتی ہے جس سے صحت پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ مثبت جذبات مثلاً خوشی، شکر گزاری، قناعت ، جوش اور فخر نہ صرف وقتی طور پر خوشگوار اثر چھوڑتے ہیں ۔ہمیں زندگی میں جہاں خوشیاں اور کامیابیاں ملتی ہیں وہیں ہم مشکلات، نقصانات، ناکامیوں اور صدمات سے بھی گزرتے ہیں۔ اصل انسان وہی ہوتا ہے جو خوشیوں کی طرح غم میں بھی ثابت قدم رہے۔ کیونکہ نقصانات یا مشکلات کو روکنا ہمارے بس میں نہیں ہوتا، مگر اس سے نبرد آزما ہونا ہمارے بس میں ہوتا ہے۔یہ آسان تو نہیں مگر اپنے عزم اور ثابت قدمی سے ہم مشکل حالات سے نکل سکتے ہیں۔خوشگوار اور پُر سکون زندگی گزارنے کے لیے اپنی شخصیت سے مطمئن رہنا بھی بہت ضروری ہے۔ اللہ تبارک تعالیٰ کی ذات کے علاوہ کائنات کی کوئی شے مکمل نہیں، دنیا کا کوئی انسان عیب سے پاک نہیں اس لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی شخصیت سے مطمئن رہیں کیونکہ اگر ہم اپنے پاس موجود چیزوں کو چھوڑ کر ان چیزوں کا ماتم کرتے ہیںجو ہم حاصل نہیں کر سکے تو یہ چیز ہماری خوشی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن جاتی ہے۔ ہمیں کامیابی کے لیے محنت اور صرف محنت کی ضرورت ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد ضیاء الدین نے کہا کہ معاشرے میں دولت کی تقسیم مناسب طریقے سے نہیں ہوگی تو معاشرے میں عدم توازن کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے، جو علم معاشیات پڑھتے ہیں یا پڑھاتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ دولت کی منصفانہ تقسیم کس حد تک ضروری ہے، اگر ہم اپنے اسلامی نظام کو بھی دیکھیں تو بھی پتا چلتا ہے کہ دولت کی منصفانہ تقسیم پرزور دیا گیا ہے زکوٰۃکا اس میں کانسپٹ موجود ہے تا کہ دولت کا ارتکازنہ رہ سکے، مزدور کو اس کا پیسہ پسینہ خشک ہونے سے پہلے مل جائے جب ہم اپنے معاشرے کو دیکھتے ہیں تو مڈل کلاس تو ختم ہوتی جارہی ہے جو مڈل کلاس ہوا کرتی تھی وہ اب لوئر مڈل کلاس رہ گئی ہے تو ہمارے ہاں 2 طرح کے طبقات ہیں ایک پریولیج کلاس اور ایک ان پریولیج کلاس ہے یعنی مراعات یافیہ طبقہ اور غیر مراعات یافتہ طبقہ وجود میں آتا ہے۔