ملک کے ساتھ ہونیوالی ڈکیتی پر فکر مند ہیں‘ عدالت عظمیٰ

320

اسلام آباد( نمائندہ جسارت) عدالت عظمیٰ نے ریمارکس دیے ہیں کہ ملک کے ساتھ ہونے والی ڈکیتی پر فکر مند ہیں، لوگوں کو سردرد کی دوا تک نہیں مل رہی، کرپشن کے ملزمان کے لیے دل کیسے بڑاکریں ؟ وائٹ کالرکرائم کے ملزمان پر ہاتھ ہلکا کیوں رکھیں ؟بدھ کو جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے 3رکنی بینچ نے سابق ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) پارکس کراچی لیاقت قائم خانی کی درخواست ضمانت کی سماعت کی اور فیصلہ محفوظ کر لیا گیا۔ ملزم لیاقت قائم خانی کے وکیل خواجہ حارث نے عدالت کو بتایا باغ ابن قاسم کا 7 ہزار 900 اسکوائر یارڈ کا رقبہ ڈی جی پارکس کے قبضے میں نہیں تھا، لیاقت قائم خانی کی عمر 70 سال ہے اور 15 ماہ سے جیل میں ہیں، ان پر الزام یہ ہے کہ سرکاری زمین پر قبضے کے وقت انہوں نے اتھارٹی کا استعمال نہیں کیا، عدالت ملزمان کے ساتھ ہونے والی زیادتی کو بھی دیکھے،لیاقت قائم خانی پر صرف اعتراف نہ کرنے کا الزام ہے۔خواجہ حارث کی جانب سے چوری ڈکیتی کے مقدمات کے حوالے دینے پر عدالت نے اظہار برہمی کیا۔جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے وکیل لیاقت قائم خانی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ چوری ڈکیتی کے ملزمان کے مقدمات کے حوالے دے رہے،پورے ملک کی چوری ڈکیتیوں کے پیسے بھی جمع کر لیے جائیں تو لیاقت قائم خانی کی کرپشن کے مساوی نہیں بنتے، لیاقت قائم خانی کے خلاف ٹھوس شواہد موجود ہیں، پورے ملک کی ڈکیتیاں ایک طرف اور یہ مقدمہ ایک طرف ہے۔ آرٹیکل 10 اے کی غلط تشریح کی جا رہی ہے۔عدالت عظمیٰ نے جمیل بلوچ اور ڈی جی پارکس سے متعلق دیگر درخواستوں پر سماعت آئندہ ہفتے تک ملتوی کر دی۔ علاوہ ازیں جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 3رکنی بینچ نے جعلی بینک اکاؤنٹس کیس کی سماعت کرتے ہوئے ملزم ڈاکٹر ڈنشا کی ضمانت منظور کرلی۔ دوران سماعت جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے نیب کی طرف سے کیس کے مرکزی ملزمان کو رعایت دینے کے عمل پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ نیب ہمیں ٹرک کی بتی کے پیچھے نہ لگائے،نیب نے اس کیس میں چھوٹے افسران کو تو پکڑ لیا اصل فائدہ لینے کو نہیں پکڑاگیا،نیب کے پاس اپنی مرضی سے کام کرنے کا اختیار نہیں، نیب نے اپنی مرضی کرنی ہے تو سیکش 9 میں ترمیم کرے پھر جو مرضی کرے،ملک کو بچانا ہے یا نہیں؟ملک میں بکری چور 5سال جیل چلا جاتا ہے، اتنی بڑی کرپشن کرنے والے آزاد گھوم رہے ہیں، اس ملک کے ساتھ نیب کیا کر رہا ہے،کرتا نیب ہے بھگتی عدالت عظمیٰ ہے ،ملزم کو چھوڑنے کا الزام عدالت عظمیٰ پر آتا ہے،پہلا ریفرنس دوسرا ریفرنس یہ کیا مذاق بنایا ہواہے، معلوم ہے کہ نیب مقدمات عام فوجداری کیسز نہیں ہوتے،نیب جس کے خلاف شواہد ہوں اسے گرفتار نہیں کرتا۔جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ قانون کا اطلاق سب پر برابر ہونا چاہیے،احتساب قانون کے مطابق نہیں ہوگا تو ادارے کے خلاف ایکشن لیں گے،ہم نیب سے مطمئن نہیں ہیں،نیب کو کام سے کون روکتا ہے؟ ہمیں بتائیں تاکہ اسے پکڑیں،نیب کو مضبوط دیکھنا چاہتے ہیں،یہ نہیں ہونا چاہیے کہ کسی نے مجھ پر مہربانی کی تو میں اس پر مہربانی کروں،نیب کو بہادری اور اخلاقی جرات کا مظاہرہ کرنا چاہیے، سینیٹ سمیت مختلف فورم پر نیب پر بات ہو رہی ہے،اس کیس میں بھی نیب نے سرکاری افسروں کو دبایا اصل بینفشریوں کو پوچھا تک نہیں۔عدالت عظمیٰ نے قرار دیا کہ ڈاکٹر ڈنشا ملک سے باہر نہیں جاسکتے اور وہ نیب کے ساتھ تفتیش میں تعاون کریں گے۔ بعد ازاں معاملہ کی سماعت غیر معینہ مدت تک کے لیے دی گئی ہے۔