آصف لقمان قاضی
زندگی کے اٹل حقائق میں سے ایک حقیقت موت ہے۔زندگی اور موت کے بارے میں چار بنیادی باتیں قرآن حکیم کی ان آیات میں ملتی ہیں ۔
ترجمہ :”ہر جان موت کا مزہ چکھنے والی ہے، اور تمہیں قیامت کے دن پورے پورے بدلے ملیں گے، پھر جو کوئی دوزخ سے دور رکھا گیا اور بہشت میں داخل کیا گیا سو وہ پورا کامیاب ہوا، اور دنیا کی زندگی سوائے دھوکے کی پونجی کے اور کچھ نہیں۔”
6جنوری کادن والد محترم قاضی حسین احمد مرحوم کی یاد نہ صرف ہمارے دل میں بلکہ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ان کے لاکھوں چاہنے والوں کے دلوں میں تازہ کر جاتا ہے۔ایک حدیث میں آتا ہے ۔
” اذکروا محاسن موتاکم وکفوا عن ساوئھم ”
ترجمہ: ” اپنے مردوں کی خوبیوں کا ذکر کرو اور ان کے عیوب کو نہ چھیڑو ” ۔
میں سمجھتاہوں اس تذکرے سے تین فوائد لئے جاسکتے ہیں۔ایک یہ کہ اس یاد کے نتیجے میں انسان اس دنیا سے رخصت ہونے والے کے لئے دعا کی جانب متوجہ ہوجاتا ہےاور فوت ہونے والے کےلئے دعا ایک قیمتی متاع ہے۔دوسرایہ کہ انسان اپنی موت کوبھی یاد رکھے کہ اسے بھی ایک دن اس دنیا سے رخصت ہوجانا ہے۔ تیسرا یہ کہ انسان یہ سوچے کہ فوت ہونے والے کی زندگی سے وہ کیا سبق حاصل کر سکتا ہے۔میں نے والد محترم کو کثرت سے اپنی موت کو یاد رکھنے والا اور دعا میں خشیت اختیار کرنے والا پایا۔وہ اکثر اللہ سے دعا کرتے کہ قیامت کے دن مجھے اپنے ساتھیوں کے سامنے شرمسارنہ کرنا۔یہ بھی کہتے کہ کسے کیا خبر کہ اللہ کہ ہاں کس کا مقام بلند ہے۔ہوسکتاہے کہ دین کی خدمت کرنے والا ایک گمنام کارکن اللہ کے نزدیک سب سے اعلی مقام رکھتاہو۔قاضی صاحب کے شخصی محاسن کا تذکرہ ان کے دوستوں اور متعلقین کی مجالس میں اکثر ہوتا رہتا ہے اور انشاء اللہ آئندہ بھی ہوتا رہے گا۔ ان کے شخصی کردارمیں ہم سب کے لئے اور بالخصوص نوجوانوں کے لئے سیکھنےکے کئی پہلوہیں۔
سب سے پہلی بات اپنی زندگی کے لیے اپنی ذاتی مفادات سے بالاتر ایک اعلی مقصد کا تعین ہے۔حضورﷺ کا ارشار باری تعالی ہے۔
خير الناس أنفعهم للناس
ترجمہ :”لوگوں میں بہترین وہ ہے جو دوسرے لوگوں کیلئے زیادہ نفع مند ہو ”
الدین النصیحه
ترجمہ : “دین خیر خواہی کا نام ہے۔”
قاضی صاحب مرحوم کو نوجوانی میں مواقع ملے لیکن وہ اقامت دین کی جدوجہد کو اپنا مقصدزندگی متعین کر چکے تھےا ور اپنے ارادے پر قائم رہے۔وہ جب جہانزیب کالج سوات میں لیکچرر تھےتو وہاں نیوز ی لینڈ کے ایک پروفیسر تھے۔جنہوں نے انہیں نیوزی لینڈ میں اپنی یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی سکالر شپ اور لیکچرر شپ کی پیشکش کی ۔لیکن قاضی صاحب کا دل کہیں اور اٹک چکاتھا اور وہ اس مقصدسے روگردانی کے لئے تیا رنہ ہوئے۔اس طرح سے جب وہ سرحد چیمبر آف کامر س کے سینئر نائب صدر بنےتو ان دنوں پشاور میں انکا ادویات کا کاروبار تھا،ایک بینکار ان کے پاس تشریف لائے اور پیشکش کی اگر وہ آمادہ ہوں تو ادویات کی صنعت کے لئے وہ قرضہ دینے کےلئے تیار ہیں۔قاضی صاحب نے یہ کہہ کر وہ پیشکش شکریے کے ساتھ مسترد کردی کہ وہ سود کا کاروبار نہیں کرنا چاہتے۔جب آپ پورے اخلاص کے ساتھ اللہ راستے میں کام کے لئے نکلتے ہیں تو پھر اللہ تعالی آپ کے لئے راستے کھولتا چلاجاتا ہے۔ان کے نزدیک کاروبار مقصدزندگی کے حصول کے لئے ایک سہولت کا ر تھا ۔ بذات خود مقصدرزندگی نہیں۔ ان کے ساتھ کتنے لوگ تھے۔جنہوں نے وقتی فوائد کو اختیار کیا مگر آج ان کا نام کوئی نہیں جانتا ۔بقول شاعر
ماو مجنون ہم سبق بودیم دردیوان عشق
او بصحرا رفت و مادرکوچہ ھارسواشدیم
ترجمہ:”ہم اور مجنون مکتب عشق میں ہم سبق تھے وہ صحراوں کی طرف نکل گیا اور مجنون بن کر امر ہو گیا ،جبکہ ہم شہرکی گلی کوچوں میں رسوا ہوگئے۔”
ان کی زندگی میں ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ سوچ سمجھ کر اپنی زندگی کا مقصد متعین کرو اور پھر عشق اور وارفتگی کی حد تک خود کو اس مقصدمیں فنا کر دو۔ وہ انتھک محنت کرنے والے شخص تھےا ور اپنا وقت کبھی ضائع نہیں کرتے تھے ۔دفتر سے تبھی واپس آتے جب اس دن کا کام مکمل کر لیتے ۔خواہ رات کا کوئی بھی وقت ہوجائے ۔ کبھی رات دیر سے سفر سے گھر پہنچتے اور فجر کے وقت پھر چاق و چوبند ہوتے۔اپنے مقصد کے ساتھان کی جنون کی حدتک وابستگی تھی۔جو انھیں آرام نہیں کرنے دیتی تھی۔شاید زندگی کے اس پہلو میں بھی انھوں نے سیر ت رسول ﷺ کو اپنے سامنے رکھا تھا۔ان کے اس کردار کو دیکھتے ہوئے بے اختیار وہ حدیث یاد آتی ہے۔
تَرَكْتُ فِيكُمْ أَمْرَيْنِ لَنْ تَضِلُّوا مَا تَمَسَّكْتُمْ بِهِمَا: كِتَابَ اللهِ وَسُنَّةَ نَبِيِّهِ
ترجمہ :”میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں، جب تک تم انہیں مضبوطی سے پکڑے رہو گے، ہرگز گمراہ نہیں ہو گے، الله تعالی کی کتاب اور اس کے نبی اکرم (ﷺ) کی سنت۔”
میں سمجھتا ہوں کہ جس بات کو انھوں نے نوجوانی سے لے کر اپنی زندگی کی آخری سانس تک اپنی اولین ترجیح اور مقصدزندگی بنایا تھا۔وہ اسلامی تحریک کا کام تھا۔یعنی قرآن حکیم اور سیرت رسولﷺکی روشنی میں اپنا انفرادی اور اجتماعی نظام زندگی تشکیل دینا۔اس تحریک کے لیے انھوں نے اپنا تن من دھن وقف کردیا تھا اور وہ حضورﷺ کے منھج کے مطابق اسلامی تحریک کو ایک نتیجہ خیز موڑ تک پہنچانا چاہتے تھے۔ جماعت اسلامی سے وابستہ ہونے کے بعدتقریباً 50 برس تک وہ اس دھن میں ایسے مشغول ہوئے کہ زندگی کے دیگر تمام اجزاء ثانوی حیثیت اختیار کرگئے۔قاضی صاحب کی وفات کے 7 برس بعد آج ان کو یاد کرتے ہوئے مجھے شدت سے یہ احساس ہورہا ہے کہ اس تحریک کے اسی برس پر محیط تاریخی سفر کے نتیجے میں آج ہم جس مقام پر کھڑے ہیں۔ہمیں کچھ دیر تو قف کر کے اپنے جادہ و منزل کا جائز لینا چاہئے۔ اس تحریک کے بانی مولانا سید ابولاعلی مودودی ؒنے جن مقاصد کے لئے یہ تحریک شروع کی اورایک لائحہ عمل تشکیل دیا۔اھداف کے حصول کے لئے ایک حکمت عملی بنائی ہمار ی بزرگوں کی 2 نسلوں نے تحریک کی جدوجہدمیں اپنی زندگیا ں صرف کیں۔یہ تحریک شاندار روایات کی امین ہے۔کیا ان بزرگوں کے ورثے کا ہم پر یہ حق نہیں کہ ہم مکمل اخلاص اور سنجیدگی سے ایک تنقیدی نکتہ نظر سے اپنی کامیابیوں اور ناکامیوں کا تعین کریں۔ان کامیابیوں اور ناکامیوں کے اسباب تلاش کریں ۔ کمزوریوں کی نشاندہی کریں اور اس پوری مشق کے نتیجے میں عین انہی مقاصد کے حصول کے لئے ایک نئے لائحہ عمل ،نئے اھداف اور نئی حکمت عملی کے ذریعے اپنی تحریک کو نئی توانائی بہم پہنچائیں۔اس تحریک کے راستے میں قاضی حسین احمد ؒ کی جدو جہدنئے تجر بات جدت اور اجتہاد سے عبارت تھی۔بلکہ خود بانی تحریک مولانا مودودی ؒ نے اپنے مقاصد کے حصول کے لئے حکمت عملی میں تبدیلی کے بڑےبڑے فیصلے کیے۔ہمیں اپنے گردوپیش دیگر مسلم ممالک کی اسلامی تحریکوں کا بھی جائزہ لینا چاہئیے۔اور انکی کامیابیوں اور ناکامیوں کے میزانیئےکا بھی بغورمطالعہ کرنا چاہیے۔
ہمارے یہ بزرگان دین کے ایک جامد تصور کے قائل نہیں تھے۔بلکہ جدید دور کے تقاضوں کے مطابق اپنی تحریک میں نئی تدابیراختیارکرنے کی طرف مائل تھے۔ہمارے تحریک سفرکے اس نئے دور کا یہ چیلنج ہے کہ ہم محدوددائرےکے سفر سے نکل کر خود کو معاشرے کے مرکزی دھارےکی قیادت کے قابل بنائیں۔یہ ھد ف حاصل کرنے کے لئے ہمیں خود کو اصلاحات اور تبدیلیوں کے لئے آمادہ کرنا ہوگا۔
یہ وہ نکتہ نظر ہے جس کے مطابق قاضی حسین احمد مرحوم ، خرم مراد مرحوم،پروفیسر خورشید احمد اور دیگر بزرگ قائدین نے اس تحریک کی قیادت کی ہے۔میں سمجھتا ہوںکہ جس تبدیلی کا خواب ان قائدین نے دیکھاتھا،پاکستانی معاشرے کو ان خطوط پر استوار کرنے کے لئےہمیں اس تحریک کو وسعت دینے کی ضرورت ہے۔
قاضی حسین احمدؒایک وسیع المشرب مزاج کے مالک تھے۔قدرت نے انہیں اپنے نظریاتی مخالفین کے ساتھ بھی ایک مشترکہ ایجنڈا ترتیب دینے کی نادر صلاحیت بخشی تھی۔ وہ سب لوگوں سے انسانیت کے رشتے کی بنیاد پر محبت کرنے والے شخص تھے اور محبت کے ذریعے دوسرے انسانوں کے دل جیتنا جانتے تھے۔وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ قیادت کسی منصب اور عہدے کا نام نہیں بلکہ دیگر انسانوں کی خیر خوا ہی اور ان کےدلوں کے اندر گھر کرنے کا نام ہے۔ان کے زاتی دوستوں کادائرہ وسیع تھا۔ جس میں مختلف نظریات اور جماعتوں کے لوگ شامل تھے۔ اس وقت قومی سطح پر ہمارا ایک بڑا چیلنج یہ ہے کہ ہمیں ایسی شخصیات کی ضرورت ہے جو مختلف الخیال لوگوں کو ایک میزکے گرد بیٹھا سکیں اور بات چیت کے ذریعے اختلافات کو سلجھا سکیں۔آج ہمیں مختلف جماعتوں ،سماجی طبقات اور مکاتب فکر کے مابین عد م برداشت کے جو مظاہر دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ان حالات میں قاضی حسین احمد مرموم جیسی شخصیات کی کمی محسوس کی جاتی ہے۔ آج قوم کو ذاتی مصلحتوں سے بالا ترایک عالی ہمت اوربا بصیرت قیادت کی تلاش ہے۔
مولانا روم کی ایک مشہور نظم ہےجس کا عنوان ہے “آرزو”۔اسی نظم کے اشعار آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔
دی شیخ با چراغ ہمی گشت گرد شہر
کزدیووددملولم و انسانم آرزوست
زاین ہمرھان سست عناصر دلم گرفت
شیر خدا و رستم دستانم آرزوست
گفتند یافت می نشودجستہ ایم ما
گفت آنکہ یافت می نشودآنم آرزوست
ترجمہ:” کل ایک پیرانہ سال بزرگ کو میں نے دیکھا جو دن کی روشنی میں چراغ لیے شہر میں گھوم رہے تھے اور یہ پکار رہے تھے کہ میں اپنے ارد گرد مکاروعیار شیاطین سے بیزار ہوں اور کسی انسان کی تلاش میں ہوں ۔سہل پسند اور کم ہمت ساتھیوں سے دل گرفتہ ہو چکاہوں اور شیر خدا (حضرت علی رضی اللہ عنہ)اور رستم جیسے باہمت ساتھیوں کی خواہش رکھتا ہوں ۔لوگوں نے اس بزرگ سے کہا کہ تم جن لوگوں کی حسرت لئے پھررہے ہو وہ ملنے والے نہیں ، ہم نے بہت تلاش کی ہے۔اس بزرگ نے جواب دیا کہ انہی لوگوں کی تو میں تلاش میں ہو ں جو ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتے۔
میں سوچتا ہوں مولائے روم کی نظم میں یہ متلاشی بزرگ قاضی حسین احمد کو دیکھ لیتے، تو شاید انہیں اپنا انسان مطلوب مل جاتا۔