یہ تھے قاضی حسین احمد – میاں منیر احمد

532

اگر کوئی یہ کہے قاضی صاحب کی شخصیت پر مختصر اور جامع تبصرہ کیا جائے تو جواب یہی ہوگا کہ سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے، جی ہاں، بوسنیا، کشمیر، شیشان، فلسطین اور افغانستان، غرض دنیا بھر میں جہاں بھی مسلمان تکلیف میں پائے گئے وہاں قاضی حسین احمد بھی موجود ہوئے، قاضی حسین احمد ایک جہد ِ مسلسل کا نام ہے وہ پارے کی طرح ہر وقت حرکت میں رہنے والی شخصیت تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ چلتے چلتے ان کی زندگی کا اختتام اللہ کے رستے پر ہو۔ قاضی حسین احمدؒ ایک روایتی سیاستدان نہیں تھے بلکہ وہ ایک کارکن کے طور پر جماعت اسلامی میں آئے اور نا صرف جماعت اسلامی بلکہ امت کے قائد کے طور پر آج سے سات سال قبل اس جہان فانی سے رخصت ہوگئے۔ قاضی صاحب علمی دنیا سے تعلق رکھتے تھے، بنیادی طور پر وہ جغرافیہ کے پروفیسر تھے اور سیدو شریف کالج سوات میں پڑھاتے رہے۔ اس لیے آخری لمحہ تک ان کا انداز ایک معلم اور مربی کا رہا۔ قاضی حسین احمد ؒ نے سید مودودی ؒ کا لٹریچر نثر میں پڑھا تھا مگر اس کا اظہار وہ علامہ اقبال ؒ کے اشعار میں کرتے تھے۔ علامہ اقبال کا اردو اور فارسی کلام انہیں ازبر تھا خاص طور پر فارسی کلام پر تو انہیں ایسی دسترس حاصل تھی کہ اپنے خطاب اور تقریر میں اشعار پڑھتے تو ایسا لگتا کہ حکیم الامت ؒ نے یہ شعر دراصل کہا ہی اس موقع کے لیے تھا۔
قاضی صاحب بہت پروقار شخصیت کے مالک تھے، ان سے خاکسار کو جونیجو دور میں کاروان دعوت و محبت کے سفر کے دوران بہت سے قریب سے ملنے اتفاق ہوا اور بعد میں بھی ان سے نیاز مندی حاصل کرتا رہا، قاضی صاحب سے آخری ہفتے روزنامہ انصاف کے ایڈیٹر حافظ اقبال کی صاحب زادی کی شادی میں ہوئی، در اصل انہوں نے میرے ذمے لگایا تھا کہ قاضی صاحب ان کی صاحب زادی کی شادی میں لازمی شریک ہوں، قبلہ قاضی صاحب سے گزارش کی تو انہوں نے شفقت فرمائی اور محبت کے ساتھ دعوت قبول کی، مگر شادی والے روز ان کی طبیعت خراب تھی، پہلے انہوں نے معذرت کرنا چاہی تاہم میرے اصرار پر وہ شادی میں شرکت کے لیے تیار ہوگئے، وہاں پہنچے تو ان کی ملاقات جماعت اسلامی کے ایک بہت پرانے دوست سے ہوئی یہ دوست دلہا کے والد تھے، قاضی صاحب نے ان سے ملتے ہی کہا پتافی صاحب آپ یہاں کہاں؟ انہوں نے بتایا کہ جس شادی میں آپ شریک ہوئے ہیں، میرے بیٹے کی یہاں بارات آئی ہے، بہت دیر تک قاضی صاحب ان سے گفتگو کرتے رہے، شادی کی تقریب میں چونکہ بہت سے اخبار نویس بھی تھے لہٰذا ان کی ملاقات مشتاق منہاس اور عامر الیاس رانا سے بھی ہوئی، عامر نے انہیں یاد دلایا کہ جو کاروان دعوت و محبت بھکر پہنچا تھا تو اس وقت وہ استقبالیہ ٹیم میں شامل تھے۔ قاضی صاحب بیمار ہونے کے باوجود اس شادی میں پرانے دوستوں سے ملاقات پر بہت خوش تھے اور میرے ذمے لگایا کہ جب طبیعت ٹھیک ہوجائے تو ان تمام اخبار نویسوں سے میری ضرور نشست ہونی چاہیے، مگر اللہ کو کچھ اور ہی منظور تھا یہ نشست نہیں ہوسکی، اور قاضی صاحب ہمیں چھوڑ کرچلے گئے، اور اپنی تمام حسنات کے ساتھ اللہ کے حضور پیش ہوگئے۔
قاضی صاحب بہت خوبیوں کے مالک تھے، اللہ نے انہیں دل بھی بڑا دیا تھا، جماعت اسلامی کے قیم اور بعد میں انہیں جماعت اسلامی کے امیر کی حیثیت سے بہت ہی قریب سے دیکھا ہے، ان کے ساتھ ملاقاتیں بھی بے شمار رہی ہیں، ان میں ایک ہی چیز دیکھی کہ اتحاد امت کے داعی تھے اور مظلوم مسلمانوں پر ظلم کے خلاف جرأت مندانہ آواز تھے، لاہور میں بھیلا بٹ کے ظلم کے خلاف جب آواز اٹھائی تو یہ نعرہ قومی سیاست میں ان کی پہچان بن گیا کہ ظالمو قاضی آرہا ہے۔
قاضی صاحب مرحوم نے انتھک جدوجہد سے قومی سیاست پر انمٹ نقوش چھوڑے ہیں کشمیر، فلسطین، روہنگیا، بوسنیا سمیت عالم جہاں میں مسلمانوں پر ظلم و درندگی پر مظلوموں کی آواز بن کر میدان عمل میں اترے اور نا صرف مسلم حکمرانوں کے ضمیر کو جھنجھوڑا بلکہ اقوام عالم کو بھی للکارا۔ پانچ فروری یوم یکجہتی کشمیر 1989ء سے پہلی مرتبہ ریاستی سطح پر پاکستان میں منایا جانے لگا یہ قاضی حسین احمد کی کشمیری عوام کے لیے انہیں حق خود ارادیت دلانے کی ایسی لازوال جدوجہد تھی جسے کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ آج وہ حیات ہوتے تو کشمیری کنٹرول لائن پار کر کے سری نگر پہنچ چکے ہوتے، اس معاملے میں قاضی صاحب کبھی اور کسی بھی قیمت پر مصلحت کا شکار نہ ہوتے، آج مقبوضہ کشمیر میں ناجائز بھارتی تسلط، قبضہ اور عوام پر ظلم و درندگی اس لیے ہے کہ قاضی حسین احمد دنیا میں نہیں رہے اور محترم سید علی گیلانی کی آواز دبا دی گئی۔
پاکستان کے عوام ان سے بے پناہ محبت اور عقیدت رکھتے تھے۔ ’’ہم بیٹے کس کے قاضی کے‘‘ یہ نوجوانوں کا ان کے لیے ولولہ انگیز اظہار تھا۔ قاضی صاحب مرحوم کرشماتی شخصیت کے مالک تھے نظریاتی اعتبار سے مضبوط، امت کے اتحاد کے داعی تھے اسی لیے دینی جماعتوں کے اتحاد کے لیے بہت کوشش کی، متحدہ مجلس عمل بنائی اور ملی یکجہتی کونسل قائم کی، اسلامی جمہوری اتحاد میں ان کا بنیادی کردار رہا، قاضی عبدالطیف کے ساتھ متحدہ شریعت محاذ کے روح رواں رہے اس اتحاد کے سیکرٹری جنرل تھے، پاکستان اسلامک فرنٹ بھی بنایا، اتحاد امت کی ان کی کوششوں کا دائرہ پاکستان تک ہی محدود نہیں تھا بلکہ قاضی صاحب نے یہ پیغام دنیا بھر میں عام کیا۔ سوویت یونین سے برسرِپیکار افغان مجاہدین کے درمیان اختلافات افغان تاریخ کا سب سے افسوس ناک حصہ ہیں دنیا بھر کی اسلامی تحریکوںکے قائدین اور علماء و مفکرین کو ساتھ ملا کر ان اختلافات ختم کرانے کی کوشش کی، سوڈانی قیادت سے اسی لیے رابطے میں رہے، انور ابراہیم اور مہاتیر محمد کے مابین اخلافات ہوئے بہت بے چین رہے، سوڈان میں اسلامی تحریک کے بانی ڈاکٹر حسن ترابی اور صدر مملکت جنرل عمر حسن البشیر کے درمیان اختلافات علٰیحدگی کی صورت اختیار کرنے لگے تو فریقین نے قاضی صاحب کو حکم تسلیم کیا، شریف خاندان میں جب میاں محمد شریف کے بھائیوں اور ان کی اولاد نے وراثت کی تقسیم کا مطالبہ کیا تو قاضی حسین احمد نے بطور ثالث یہ ذمے داری نبھائی، قاضی حسین احمد ؒ نے افغان جہاد میں بنیادی کردار ادا کیا، آج جس طرح پاکستان کے عوام ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہیں اسی طرح افغان عوام ان سے عقیدت و محبت کا اظہار کرتے ہیں۔ افغان قیادت گل بدین حکمت یار سے لیکر کرزئی تک اور پروفیسر برہان الدین ربانی سے لیکر صبغت اللہ مجددی تک، یہ سب قائدین افغان جنگ کے دوران قاضی حسین احمد ؒ کے بہت قریب رہے ہیں کئی لیڈر تو قاضی حسین احمد ؒ کے گھر میں کئی کئی ماہ تک قیام پزیر رہے، قاضی صاحب پاکستان میں ایک ایسا معاشرہ چاہتے تھے جہاں ایک انسان دوسرے کا غلام نہ ہو، چین کی کیمونسٹ پارٹی کے ساتھ تیرہ نکاتی یادداشت پر دستخط کیے۔ اس میمو رنڈم میں مسئلہ کشمیر سرفہرست تھا۔