سینیٹ کے انتخابی تنازع میں مداخلت کیوں کریں؟ عدالت عظمیٰ

534

اسلام آباد(اے پی پی) عدالت عظمیٰ نے استفار کیا ہے کہ سینیٹ انتخابات کے تنازع میںمداخلت کیوںکریں؟پیر کو چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 5رکنی لارجر بینچ نے سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ/شو آف ہینڈز کے ذریعے کرانے سے متعلق دائر ریفرنس پر سماعت کی ۔ دوران سماعت اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے عدالت کو بتایا کہ یہ ریفرینس صدر مملکت کی جانب سے دائر کیا گیا،آرٹیکل 226 کی تشریح کے لیے عدالت عظمیٰ سے رجوع کیا ہے۔ دوران سماعت جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 66 کہتا ہے مقننہ کے امور عدالتوں میں زیر بحث نہیں لائے جاسکتے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میثاق جمہوریت میں سیاسی جماعتوں نے ووٹوں کی خریدوفروخت روکنے پر اتفاق رائے کیا تھا،حکومت اس معاملے پر سیاسی جماعتوں کے مابین اتفاق رائے پیداکیوں نہیں کرتی؟ اگر آئین کہے الیکشن سیکریٹ بیلٹ سے کرایا جائے تو ماتحت قانون اسے کیسے تبدیل کر سکتا ہے؟کیا پارلیمنٹ یہ بھی کہہ سکتی ہے کہ قومی اسمبلی کا انتخاب اوپن بیلٹ کے ذریعے کرایا جائے؟ اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ حکومت نے اس بارے میں ایک آئینی ترمیم کا بل پیش کردیا ہے، یہ سیاسی مسئلہ نہیں قانونی ایشو پر عدالتی رائے طلب کی ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ سینیٹرز اصل میں صوبوں کی نمائندگی کرتے ہیں، آئین یا قانون میں ترمیم کے لیے پارلیمنٹ کے پاس اختیار ہے۔عدالت عظمی نے کیس کی سماعت11جنوری تک ملتوی کرتے ہوئے چیئرمین سینیٹ، اسپیکر قومی اسمبلی، تمام صوبائی اسمبلیوں کے اسپیکرز، وفاقی اور صوبائی ایڈووکیٹ جنرلز اور الیکشن کمیشن کو نوٹسز جاری کر دیے ہیں۔ عدالت عظمی نے قرار دیا ہے کہ اگر کوئی اور اگر اس مقدمے میں فریق بننا چاہتا ہے تو وہ اپنی معروضات تحریری طور پر عدالت میں جمع کرا سکتا ہے ۔ عدالت عظمیٰ نے سینیٹ الیکشن اوپن بیلٹ کروانے کے بارے میں دائر مقدمے سے متعلق آگاہی کے لیے قومی اخبارات میں پبلک نوٹس شائع کرنے کی ہدایت بھی کر دی ہے۔