ایران کی للکار، طالبان کا اعلان جنگ

2227

ایران نے بھی اشرف غنی کی لزرتی اور ختم ہوتی حکومت بچانے کے لیے فوری طور پر قدس بریگیڈ ’’فاطمہ یون‘‘ لشکر کے 15ہزار جوانوں کو افغانستان بھیجنے کا اعلان کیا ہے۔ ایران یہ لشکر صدر اشرف غنی اور عبداللہ، عبداللہ کی حمایت میں بھیج رہا ہے۔ جس میں بھارتی حمایت یافتہ افغان نائب صدر امر اللہ صالح کا کر دار کلیدی ہے، یہ شخص افغان کابینہ میں پاکستان دشمن کے طور پر جانا جاتا ہے۔ افغان طالبان نے ایرانی وزیرِ خارجہ کے اس بیان کا سخت نوٹس لیتے ہوئے دو ٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ: ’’ایران، امریکا طالبان معاہدے کو تسلیم نہیں کر تا تو نہ کرے لیکن اگر ایرانی افواج نے طالبان پر حملہ کیا تو اُس کا اسی طرح مقابلہ کیا جائے گا جس طر ح ماضی میں امریکا اور روس کا مقابلہ کرتے ہوئے ان کو دنیا میں نشان عبرت بنا دیا گیا ہے‘‘۔ ایرانی قدس بریگیڈ آیت اللہ کے ماتحت ہوتی ہے۔ یہ ایران سمیت پوری شیعہ کمیونٹی کے روحانی سربراہ ہوتے ہیں۔ ان کی اپنی فوج ہوتی ہے۔ یہ فوج پاسداران انقلاب کہلاتی ہے۔ پاسداران کے بھی دو حصے ہیں۔ گراؤنڈ فورسز اور قدس فورسز۔ قدس بریگیڈ ایرانی سرحدوں سے باہر شام، عراق اور یمن میں آپریٹ کرتی ہے۔ اس بریگیڈ میں دو قسم کے لشکر ہوتے ہیں۔ زینب یون اور فاطمہ یون۔ زینب یون کے جوان پاکستانی علاقوں، پارہ چنار، گلگت، اسکردو اور بلوچستان کے سرحدی علاقوں سے بھرتی کیے جاتے ہیں۔ ایران میں ٹریننگ کے بعد انہیں لڑنے کے لیے شام، عراق اور یمن بھجوایا جاتا ہے۔ فاطمہ یون کے لیے جوان افغانستان سے بھرتی ہوتے ہیں۔
ایران کا موجودہ نظام دو حصوں میں تقسیم ہے ایک سیاسی اور دوسرا مذہبی۔ مذہبی نظام میں آیت اللہ علی خامنہ ای ایران کی مضبوط ترین شخصیت ہیں۔ ایرانی کی سیاسی حکومت صدر کے زیر انتظام چلتی ہے، ریگولر آرمی ارتش کہلاتی ہے۔ اس کا سربراہ کمانڈر انچیف ہوتا ہے، ارتش کا کام ملکی سرحدوں کی حفاطت کرنا ہوتا ہے۔ جنرل قاسم سلیمانی قدس بریگیڈ کے سربراہ تھے۔ یہ 21 برسوں تک پاسدارن انقلاب کا حصہ رہے ان کو 3جنوری 2020ء کو عراق میں ڈرون حملے میں امریکا نے صدر ٹرمپ کے حکم پر ہلاک کیا گیا جس کے نتیجے میں ایران امریکا تعلقات ایک مرتبہ پھر خراب ہوئے لیکن اس دوران افغان طالبان نے ایران کے ساتھی اور جنرل قاسم سلیمانی کا بدلہ لینے کے لیے مائیکل ڈی جون کی ہلاکت میں اپنا بھر پور کر دار ادا کیا اور آج ایران، بھارت اور امریکا کے کہنے پر طالبان کے خلاف طبل جنگ بجانے میں مصروف ہو گیا ہے۔ ایران کے گوریلا فوجی ان کی سربراہی میں شام، یمن اور عراق میں لڑ رہے تھے۔ یہ ملیشیا امریکی فوجیوں اور امریکا کے عراقی ایجنٹس کو نشانہ بنا رہی تھی۔ سی آئی اے نے دسمبر میں دونوں ملیشیا کے لوگ مارنا شروع کر دیے۔
لیکن اب ایران ایک مرتبہ پھر پڑوسی ملک افغانستان میں طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے سے یکسر انکاری ہے اور وہ جو بائیڈن کی آمد کے بعد امریکا کو انکار کرنے کے لیے تیار نہیں ہے اور وہ ایک مرتبہ پھر طالبان کے دشمن بھارت کا ساتھی بنا ہوا ہے، ایران نے 27ستمبر 1996ء سے 13نومبر 2021ء کے دوران افغانستان میں قائم طالبان حکومت ’’افغانستان عبوری اسلامی ریاست‘‘ کو بھی تسلم نہیں کیا تھا اور جب امریکا نے افغانستان پر حملہ کیا تھا تو اس وقت اس نے امریکا کا ساتھ دیا تھا۔اس کے بعد وہاںقائم ہو نے والی اسلامی جمہوریہ افغانستان کی حکومت کو تسلیم کیا جس کو امریکا نے افغانیوں پر شدید بمباری کر کے بنایا تھا۔ یہی طرزِ عمل بھارت کا بھی رہا۔ ایران ایک ایسے وقت میں جب برسوں سے افغانستان دنیا کی سُپر طاقت امریکا کا غرور خاک میں ملا رہا ہے اور اسلام ومسلمان اور پاکستان دشمن بھارت کا افغانستان بوریا بستر ہمیشہ کے لیے گول ہونے جارہا ہے۔ اس کے علاوہ افغانستان میں اسلامی نظام کے قیام کی امید بندھی ہے۔ نا مناسب رویہ ہے۔
امریکا کے خصوصی مشیر زلمے خلیل زاد نے ستمبر، 2018 سے امن مذاکرات شروع کیے اور اب تک جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس وقت بھی بی بی سی کی رپورٹ میں افغانستان کو دنیا کا سب سے ہولناک تنازع قرار دیا گیا تھا۔ تاہم ایک سال کی مسلسل کوششوں کے بعد جب دونوں فریقین میں معاہدہ تقریباً طے پا گیا تھا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کابل میں ایک بم دھماکے میں امریکی فوجی کی ہلاکت کے بعد ستمبر میں اچانک مذاکرات معطل کرنے کا اعلان کر دیا۔ بعد ازاں ٹرمپ نے تھینکس گیونگ کے موقعے پر اچانگ بگرام ائر بیس کا دورہ کرتے ہوئے 28 نومبر 2018ء کو صدر اشرف غنی سے ملاقات کی تھی۔ اس ملاقات میں ٹرمپ نے اعلان کیا کہ ’طالبان معاہدے کے خواہش مند ہیں اور ہم ان سے مل رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ جنگ بندی ضروری ہے، لیکن وہ جنگ بندی نہیں چاہتے اور اب وہ ایسا کرنا چاہتے ہیں‘ اس کے بعد امریکا نے طالبان سے معاہدہ کر لیا لیکن ایران اور سعودی عرب دونوں کواس بات کا دکھ ہے کہ ’’ان کو اس معاہدے سے افغانستان میں کچھ ملنے والا نہیں اور یہی دکھ بھارت کو بھی ہے۔ اب ایران امریکا کی شکست کے بعد اور بھارت افغانستان میں لڑنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ ایران ایک جانب افغانستان اور دوسری جانب اپنے دوسرے ہمسایہ ملک عراق کے بھی مشکل پیدا کر رہا ہے، جہاں امریکا اور ایران کے درمیان پھنسی عراقی حکومت کی مشکلات میں اضافے کا سلسلہ جاری ہے‘‘۔
2020ء تین جنوری کو بغداد کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کے قریب ایرانی جنرل قاسم سلیمانی اور عراقی شیعہ ملیشیا کے نائب سربراہ ابو مہدی المہندیس کی امریکی حملے میں ہلاکت نے ایران اور اس کے اتحادیوں کو مشتعل کردیا تھا۔ اس حملے کے ایک سال پورے ہونے پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ یہ کارروائی عراق میں امریکی مفادات پر حملوں کے جواب میں کی گئی تھی۔ وہائٹ ہاؤس میں صرف ہفتوں کے مہمان صدر ٹرمپ نے خبردار کیا ہے کہ اگر امریکی مفادات پر نئے حملے ہوئے تو ’’میں ایران کو ان کا ذمے دار ٹھیراؤں گا‘‘۔ عراقی حکومت صدام حکومت کا تختہ الٹنے والے امریکا اور اپنے ہمسایہ ملک ایران کے درمیان بٹی ہوئی ہے۔ واشنگٹن کے بظاہر ازلی دشمن ایران کا عراق میں اثر و رسوخ 2003 میں امریکی حملے کے بعد سے بہت بڑھ گیا ہے بلکہ ایران بغداد کو ہی اپنا دارالحکومت سمجھتا ہے۔ مئی میں اقتدار سنبھالنے والے عراق کے وزیر اعظم مصطفی الکدیمی نے حال ہی میں ایران کے حمایت یافتہ طاقت ور نیم فوجی گروپس کی دھمکیوں کو برداشت کیا ہے۔ دوسری جانب واشنگٹن ان گروپوں کو اپنی تنصیبات پر راکٹ حملوں کا ذمے دار سمجھتا ہے۔ اے اے ایچ کے مشتعل جنگجو بغداد کی گلیوں میں مارچ کرتے رہے وہ وزیر اعظم کو ذاتی طور پر نشانہ بنائیں گے۔
ایران انقلاب ِ خمینی کے بعد سے توسیع ِ انقلاب کی وجہ سے پاکستان سمیت پو ری دنیا کی اسلامی حکومتوں کے لیے خوف کی علامت بن رہا جس کی وجہ سے پاکستان سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین اور قطر سے ایران سے محبت کے رشتوں میں دوریاں حائل ہو رہی ہیں جس کا نقصان ایران اور وہا ں کے عوام کو ہو رہا ہے اور اس کی وجہ سے شیعہ سنی خلیج بڑھ رہی ہے یہ عالم اسلام کی تباہی اور کفر کی دنیا کے لیے جشن کی باتیں ہیں۔ ایران کو یہ پالیسی بدلنے کی ضرورت ہے۔