شکر الحمدللہ سال 2020 ختم ہوا

648

2020 شروع ہوا تو پاکستان سمیت دنیا بھر کے لوگوں نے عالمی ادارہ صحت کے حوالے سے صدی کی خطرناک بلکہ پرسرار وبا ’’کورونا وائرس‘‘ کا نام سنا مگر مجموعی طور دنیا کے کسی ملک میں لوگ اسے کوئی مرض ماننے کے لیے تیار نہیں۔ یہاں میرا موضوع کورونا وائرس ہرگز نہیں ہے۔ بلکہ سال ’’ٹوئٹی ٹوئٹی‘‘ ہے، یہ سال کورونا کا رونا لے کر شروع ہوا اور اللہ کے حکم سے متعدد اہم مذہبی سیاسی سماجی تجارتی اور صحافی شخصیات کی زندگیاں ختم کرکے چلا گیا۔ زندگی اور موت برحق ہے جسے اللہ نے اس جہاں میں بھیجا اسے واپس بھی جانا ہوتا ہے یہی دنیا کی زندگی کی حقیقت ہے اسی وجہ سے دنیا کی زندگی کو عارضی کہا جاتا ہے۔ بحیثیت مسلمان ہم سب کا یہ ایمان ہے کہ کسی کی موت کے لیے بیماری یا مرض ضروری نہیں ہے۔ ہزاروں بلکہ لاکھوں انسان بغیر کسی مرض اور حادثہ کے دنیا سے رخصت ہوچکے۔
بیماریوں کے حوالے سے قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ’’جب کوئی بیمار ہوتا ہے تو شفاء میں ( اللہ تعالیٰ) ہی دیتا ہوں‘‘۔ اس کا مطلب بالکل واضح ہے کہ ہر بیماری کا علاج اللہ نے رکھا ہوا ہے ضرورت ہے تو اللہ کے احکام کو سمجھنے اس پر یقین کرکے ان پر اللہ کے پیارے نبی محمدؐ کے بتائے ہوئے طریقہ کار پر عمل کرنے کی۔
آج کے سائنسدانوں نے یہ تو شور کردیا کہ کوئی وبا کی شکل میں کورونا وائرس ہے مگر یہ سائنسی ماہرین اس کا علاج دریافت کرنے میں تاحال ناکام ہیں۔ میرا یقین ہے کہ یہ وبائی مرض بھی ہے تو اس کا علاج بھی یقینی طور پر ہوگا اور اگر اس کا علاج نہیں ہے تو یہ مرض بھی نہیں ہے۔
بہرحال بات ہورہی ہے اختتام ہونے والے سال ’’ٹو زیرو ٹو زیرو‘‘ کی جس نے تقریباً زندگی کے ہر شعبے کی کسی نہ کسی اہم شخصیت کی زندگی تمام کی جبکہ تمام شعبہ ہائے زندگی کو بری طرح متاثر بھی کیا۔ پاکستان میں مجموعی طور پر حالات تو شاید کبھی بھی بہترین تو کجا بہتر بھی نہیں مانے گئے۔ اس کے باوجود اللہ پاک کی مہربانی سے فاقوں سے اموات کی تعداد خودکشی سے مرنے والوں سے بہت کم ہے بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں معاشی حالات خراب ہونے کے باوجود یہاں لوگوں کو کھانے کے لیے دو وقت کی روٹی مل ہی جاتی ہے۔ یہاں ہمیشہ کی طرح کچھ نہیں ہے تو اللہ کی شکر گزاری نہیں ہے۔ حقیقت تو یہ بھی کہ پاکستانی قوم ماہانہ ایک بڑی رقم بچا کر محفوظ کرنے کی عادی ہوچکی۔ یہ قوم گستاخ رسول پر آپے سے باہر ہونے میں دیر نہیں لگاتی۔ مجھ ناقص العقل کا خیال تو یہ ہے کہ آپؐ کی کسی سنت پر عمل نہ کرنا بھی گستاخی رسول کے مساوی ہے۔ اللہ ہم سب کو اپنے دین پر قائم و دائم رکھے اور دینی احکامات کا پابند بنائے آمین۔
2020 میں ملک کی جو 35 سے زائد نامور شخصیات دنیا سے رخصت ہوئیں ان میں جماعت اسلامی پاکستان کے سابق امیر سید منور حسن، سابق چیف جسٹس عدالت عظمیٰ جسٹس ریٹائرڈ فخرالدین ابراہیم، سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کراچی کے پہلے ناظم و جماعت اسلامی کے رہنما نعمت اللہ خان، حکومتی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے بانی رہنما نعیم الحق، ماہر تعلیم انوار احمد زئی، ممتاز عالم دین مفتی نعیم، مولانا عادل، علامہ طالب جوہری، علامہ ضمیر اختر نقوی، بیگم کلثوم نواز، ممتاز کالم نویس و شاعر پروفیسر عنایت اللہ خان روزنامہ جسارت کے مدیر اعلیٰ اطہر علی ہاشمی نامور صحافی قیصر محمود، بزرگ صحافی سعود ساحر شاہ جی، نامور رپورٹر عبدالقدوس، شکیل حسنین جسارت کے نوجوان رپورٹر عمران احمد، صحافی اے اے فریدی، ایڈور ٹائزنگ کی مشہور شخصیت خالد شکیل، اطہر شاہ خان جیدی ممتاز ٹی وی کمپیئر طارق عزیز، ممتاز مذہبی رہنما علامہ حسین پیپلز پارٹی کے راشد ربانی شامل ہیں۔ ختم ہونے والا سال دو ہزار بیس میں جتنے صحافی اللہ کو پیارے ہوئے اتنی تعداد میں اس قبل کبھی بھی نہیں ہوئے۔ گوکہ یہ سال صحافیوں کے لیے بھی بھاری تھا۔ اللہ مرحوم صحافیوں سمیت تمام مرحومین کی مغفرت فرمائے اور نیا سال ہم سب کے لیے خوشیوں کا باعث بنائے اور ہمارے غموں کا مداوا کرے، آمین ثم آمین۔