پی ڈی ایم کا مخمصہ

373

اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم نے قیام کے فوراً بعد جس طمطراق سے اپنی احتجاجی تحریک کا آغاز کیا تھا اور تحریک کے آغاز پر اس اتحاد میں شامل جماعتیں حقیقی جمہوریت کی بحالی اور موجودہ حکومت کی رخصتی کے حوالے سے جس عہدو پیمان کا اظہار کر رہی تھیں اس سے یہ تاثر ابھر رہا تھا کہ شاید مریم نواز کے بقول آر یا پار کا مو قع بس آیا ہی چاہتا ہے۔ لیکن اب جوں جوں اپوزیشن جماعتوں کی یہ تحریک نسبتاً کٹھن اور سخت مراحل میں داخل ہوتی جا رہی ہے توں توں اس کے نٹ بولٹ کسے جانے کے بجائے ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید ڈھیلے پڑتے محسوس ہو رہے ہیں۔ حیران کن امر یہ ہے کہ پی ڈی ایم کے بارے میں یہ تاثر حکومت یا کسی ریاستی دبائو یا رکاوٹ کے بجائے خود اپوزیشن جماعتوں کے درمیان موجود اعتماد کے فقدان نیز پی ڈی ایم کی بعض بڑی جماعتوں کی جانب سے جو بیانات اور سگنلز موصول ہو رہے ہیں وہ خود اتنے حیران کن ہیں کہ ان پر خود کش بمباروں کا گمان ہوتا ہے۔
پی ڈی ایم کی تحریک کے آغاز پر ہی اس کے متعلق دو واضح آراء سامنے آئی تھیں۔ ان میں ایک رائے جو پی ڈی ایم میں شامل دو بڑی جماعتوں کے ناقدین پر مشتمل تھی اس میں بغیر کسی دلیل اور ثبوت کے محض الزام تراشی کی حد تک اپوزیشن کی احتجاجی تحریک کے تانے بانے میاں نواز شریف بلکہ پوری شریف فیملی اور پیپلز پارٹی کی قیادت بشمول سابقہ صدر آصف علی زرداری، خورشید شاہ، سابق وزارء اعظم سید یوسف رضا گیلانی، راجا پرویز اشرف، وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ، سابق صوبائی وزیر اطلاعات سندھ شرجیل میمن، آصف علی زرداری کی ہمشیرہ فریال تالپور وغیرہ کے خلاف بنائے کرپشن، اقرباء پروری اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے الزامات سے چھوٹ کے لیے کسی ممکنہ ڈھیل یا ڈیل سے جوڑے جاتے رہے ہیں جبکہ ملک میں ایک رجائیت پسند طبقہ ایسا بھی ہے جو ہمیشہ کی طرح اپوزیشن کی شروع کردہ تحریک کو حقیقی جمہوریت کی بحالی، سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار ہمیشہ کے لیے ختم کرنے اور موجودہ حکومت کی رخصتی کو دیوار کا لکھا قرار دے کر ایک شفاف اور غیر جانبدار الیکشن کے نتیجے میں صاف وشفاف نتائج کی حامل پارلیمان اور اس پارلیمان سے ترکی کے صدر رجب طیب اردوان ماڈل کی حکومت کو پاکستان میں بھی ابھرتا ہوا دیکھ رہا تھا جبکہ ان دو انتہائوں کے درمیان ایک طبقہ ایسا بھی موجود تھا یا اب بھی ہے بلکہ اب تو اس طبقے کی رائے پی ڈی ایم کی طرز سیاست اور ہر گزرتے دن کے ساتھ مختلف ایشوز پر اس کی صفوں میں پیدا ہونے والا اختلاف ہر گزرتے دن کے ساتھ نقطہ نظر کا یہ اختلاف، رائے کے اختلاف میں تبدیل ہوکراب ایک دوسرے کی مخالفت پر منتج ہورہا ہے۔
اختلاف رائے کی یہ تقسیم ویسے تو کئی معاملات میں پہلے روز سے موجود تھی لیکن اسمبلیوں سے مستعفی ہونے، لانگ مارچ اور سینیٹ کے انتخابات پر پیپلز پارٹی کے جانب سے پی ڈی ایم کے بیانیے کے برعکس جس مفاہمت کے اشارے دیے جارہے ہیں نیز پیپلز پارٹی اگلے چند دنوں میں منعقد ہونے والے ضمنی انتخابات میں جس دلچسپی کا اظہار کر رہی ہے اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا مشکل نہیں ہے کہ اگلے چند ہفتوں میں ملکی سیاست میں کیا ہونے جا رہا ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ ملک کے اکثر مبصرین پیپلز پارٹی خاص کر زرداری صاحب کی مفاہمانہ اپروچ کو بنیاد بنا کر یہ تجزیے کرتے ہوئے بھی پائے گئے تھے کہ پیپلز پارٹی چونکہ اندرون خانہ اسٹیبلشمنٹ سے ملی ہوئی ہے اس لیے گلگت بلتستان کے انتخابات کے حوالے سے یہ تاثر عام تھا کہ اس میں پیپلز پارٹی نہ صرف سنگل لارجسٹ پارٹی بن کر ابھرے گی بلکہ وہ آزاد ارکان اور شاید ضرورت پڑنے پر مسلم لیگ (ن) اور جمعیت (ف) کے ساتھ مشترکہ حکومت بنانے کی پوزیشن میں بھی ہوگی لیکن اس کے ساتھ یہاں جو ہاتھ کیا گیا اس کے بعد بلاول زرداری نے ان نتائج پر جس رد عمل اور احتجاج کا اعلان کیا تھا وہ اعلان نجانے خفیہ ہاتھوں کے کن وعدوں وعیدوں کے نیچے دب کر رہ گیا ہے۔ اگر ایسی کوئی بات نہیں ہے تو اصولاً پیپلز پارٹی کو اپنے چیئرمین کے اعلانات کا پاس رکھتے ہوئے نہ صرف گلگت بلتستان کے نتائج پر اب تک سڑکوں پر آجانا چاہیے بلکہ بقول ان کے اس بے انصافی پر عدالتوں کا دروازہ بھی کھٹکھٹانا چاہیے تھا بلکہ یہ لائن اختیار کرتے ہوئے اس کے پاس اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ساز باز کے الزامات اور داغ دھبوں کو دھونے کا بھی ایک اچھا موقع تھا لیکن اس کی جانب سے مقتدر قوتوں کو جو سبز جھنڈیاں مسلسل لہرائی جارہی ہیں اسے پی ڈی ایم کے مستقبل کے لیے نیک شگون ہرگز قرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔ اس حوالے سے رہی سہی کسر شہباز شریف کے ساتھ فنکشنل لیگ کے سیکرٹری جنرل جو ماضی میں جنرل پرویز مشرف کابینہ کا حصہ ہونے کے ناتے اسٹیبلشمنٹ کے کافی قریب سمجھے جاتے ہیں کی کوٹ لکھپت جیل میں ہونے والی دو گھنٹے کی طویل ملاقات اور اس ملاقات کے بعد پاکستان اور لندن کے درمیان ٹریک ٹو ڈپلومیسی کی اطلاعات نیز شاہد خاقان عباسی کے نام کا ای سی ایل سے اخراج وہ کڑیاں ہیں جن کے جڑنے سے جو نقشہ ابھر کر سامنے آرہا ہے اس میں شاید بحیـثیت مجموعی پی ڈی ایم کے لیے تو خیر کا کوئی بڑا پہلو نظر نہیں آتا البتہ اس کے نتیجے میں اگر پیپلز پارٹی یا مسلم لیگ(ن) کچھ نہ کچھ بلکہ شاید بہت کچھ ریلیف حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہیں تو ایسے میں پی ڈی ایم اور خاص کر اس میں شامل چھوٹی جماعتوں کا سیاسی مستقبل کیا ہوگا یہ وہ ون ملین ڈالر سوال ہے جس کا جواب فی الحال کسی کے پاس بھی نہیں ہے۔