مغرب کی اندھی تقلید طلاق کی شرح میں اضافہ اور خاندانی نظام کی جڑیں کھوکھلا کررہی ہے

1088

کراچی (رپورٹ: منیر عقیل انصاری) جس معاشرے میں طلاق کی کثرت ہو جائے تو سمجھ لینا چاہیے کہ وہ معاشرہ اپنی فطری زندگی سے بھٹک گیا، معاشرے کا ہر فرد خواہ وہ استاد ہے، امام مسجد یا والدین، حکومت وقت ہے یا میڈیا سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ مغربی تہذیب کے اثرات اور مادر پدر آزاد معاشرے کی اندھی تقلید کی وجہ سے ہمارے ہاں ماضی کے مقابلے میں طلاق کی شرح خطرناک حد تک پہنچ کر ایک سماجی مسئلہ بن چکی ہے جو ہمارے اسلامی معاشرے میں موجود آئیڈیل خاندانی نظام کی جڑوں کو کھوکھلا کررہی ہے۔ معاشرے میںعدم برداشت کے باعث عصرِ حاضر میں طلاق کے بڑھتے ہوئے رجحان نے عالمگیر صورت اختیار کر لی ہے جس سے فیملی یونٹ کا شیرازہ بکھر رہا ہے، وکیل اپنی فیس بٹورنے اور کیس جیتنے کے لیے بنتی صورتوں کو بھی بگاڑنے میں پیش پیش رہتے ہیں، طلاق سے صرف زوجین ہی متاثر نہیں ہوتے بلکہ سب سے زیادہ بچے متاثر ہوتے ہیں۔ان خیالات کا اظہاردی ویمن لائرز ایسوسی ایشن کی سی ای او اور سینئر وکیل بیرسٹر زارا سحر ویانی، روزنامہ جسارت کراچی کے سابق چیف ایڈیٹر محمود احمد مدنی مرحوم کی صاحبزادی، وفاقی اردو یونیورسٹی کی انچارج کلیہ معارف اسلامیہ ڈاکٹر رابعہ مدنی، لاہور ہائی کورٹ کے سینئر وکیل اور چائلڈ کسٹوڈی ل اینڈسروسز پاکستان کے سی ای او فہد احمد صدیقی ایڈووکیٹ، اسلامک لائرز موومنٹ کراچی کے انفارمیشن سیکرٹری، قائم مقام جنرل سیکر ٹری اور سینئر وکیل محمد عامر خان نے جسارت سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ بیرسٹر زارا سحر ویانی نے کہاکہ معاشرے میں عدم برداشت کے باعث عصرِ حاضر میں طلاق کے بڑھتے ہوئے رجحان نے عالمگیر صورت اختیار کر لی ہے جس سے فیملی یونٹ کا شیرازہ بکھر رہا ہے۔ طلاق کے اس بڑھتے ہوئے رجحان سے معاشرے کا کوئی طبقہ بھی ایسا نہیں جو متاثر نہ ہوا ہو، نہ صرف اَپر کلاس بلکہ مڈل اور لوئر طبقہ اس سے شدید متاثر ہے، پاکستانی معاشرے میں طلاق کی حد سے بڑھتی ہوئی شرح ایک لمحہ فکر ہے، آج جب ہم اپنے معاشرے میں طلاق کے بڑھتے ہوئے واقعات دیکھتے ہیں اور اِن کے اعداد و شمار کا جائزہ لیتے ہیں تو ایک خطرناک تصویر ہمارے سامنے آتی ہے۔ جس معاشرے میں طلاق کی کثرت ہوجائے تو سمجھ لینا چاہیے کہ وہ معاشرہ اپنی فطری زندگی کے راستے سے بھٹک گیا ہے۔ طلاق کے ایک بول سے جب یہ رشتہ ٹوٹتا ہے تو اس سے صرف خاندان کے 2 فرد میاں بیوی ہی جدا نہیں ہوتے بلکہ خاندان کے کتنے ہی افراد کے تعلقات اس سے ٹوٹتے اور متاثر ہوتے ہیں۔ آپس میں دشمنی وعداوت کی ایسی بنیاد پڑ جاتی ہے جس کے اثرات بسا اوقات نسلوں تک کو بھگتنے پڑتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تیزی سے بدلتے ہوئے پاکستانی معاشرے میں جسے کافی روایت پسند بھی سمجھا جاتا ہے، عمومی سماجی حالات اور خاندانی مشکلات کی وجہ سے شادی شدہ جوڑوں میں طلاق کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔ پاکستانی معاشرے میںشادی شدہ جوڑوں میں طلاق کی شرح مسلسل بڑھتی جا ر ہی ہے۔ طلاق سے بچوں پر اثرات؟ خدانخواستہ والدین میں علیحدگی یا طلاق ہو جائے تو سب سے زیادہ بچے متاثر ہوتے ہیں۔ بچوں کے لیے والدین ایک سائبان کی مانند ہوتے ہیں اگر ان کا رشتہ ٹوٹ جائے تو بچے خود کو غیر محفوظ سمجھنے لگتا ہے، عدم تحفظ کا احساس بڑھ جاتا ہے اور مستقبل میں عموماً ایسے افراد اپنے رشتوں کو نبھانے میں اور عمل زندگی میں ناکام رہتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ نفسیاتی اور دماغی امراض کے اسپتالوں میں کیے گئے سروے کے مطابق ذہنی بیماریوں میں مبتلا ہونے والے مریضوں میں بڑی تعداد ایسے افراد کی ہوتی ہے جو طلاق کی وجہ سے بچپن میں والدین کی شفقت سے محروم ہوجاتے ہیں۔ یہ محرومی بچوں کو جرائم کی طرف راغب کرنے کا سبب بنتی ہے، طلاق یافتہ عورتوں کو یا توخاندان اور معاشرے کے لیے بوجھ سمجھا جاتا ہے یا پھر انہیں بری طرح نظرانداز کیاجاتا ہے، ناانصافی کی صورت میں اکثر خواتین طلاق کے حصول کے لیے عدالتی کارروائی میں پہل کرنے لگی ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ میرا نہیں خیال کہ کوئی وکیل یا فیملی کورٹ طلاق میں اضافے کاسبب بن رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عدم برداشت بھی طلاق کا ایک اہم سبب ہے اگر فریق برداشت اور تحمل سے کام لیں اور ایک دوسرے کی غلطیوں سے درگزر کریں تو اِس مقدس رشتے کو قائم رکھنا آسان ہے۔ہماری معاشرتی اقدار میں شادی ایک سمجھوتا ہے، جو لوگ اپنے شریک حیات سے سمجھوتا کر لیتے اور گھریلو زندگی کے دیگر اُمور میں باہمی مشاورت اور رضا مندی سے کام لیتے ہیں، ایک دوسرے کی معمولی غلطیوں سے درگزر کرتے ہیں۔ ان کی شادی قائم رہتی ہے اور جو لوگ سمجھوتا نہیں کرپاتے ان کا یہ مقدس رشتہ ٹوٹ جاتا ہے۔ اگر بچوں کی مناسب انداز میں تربیت کی جائے اور ان میں رشتوں کی اہمیت، احترام اور تقدس کا شعور پیدا کیا جائے اور رشتوں میں اُن کی ذِمّہ داریوں کا احساس دلایا جائے تو قوی امید ہے کہ بڑھے ہوکر ان میں رشتوں کو مؤثر اور اچھے انداز میں بڑے کی صلاحیت زیادہ ہوگی اور رشتوں کے احترام اور ان کے نبھانے میں اپنی ذِمّہ داریوں کے احساس کے باعث صبر اور برداشت کے جذبے سے گھرانہ محبت اور سکون کا مرکز بن سکے گا۔ ڈاکٹر رابعہ مدنی نے جسارت کے اس سوال پر کہ وکیل یا فیملی کورٹ طلاق میں اضافے کاسبب نہیں بن رہے ہیں؟ کے جواب میں کہا کہ جی ہاں وکیل اپنی فیس بٹورنے اور کیس جیتنے کے لیے بنتی صورتوں کو بھی بگاڑنے میں پیش پیش رہتے ہیں۔ اسلام میں صرف ایک طلاق کا ایک وقت میں حکم ہے تاکہ 3مہینے کی عدت کے دوران دوبارہ نکاح باقی ہونے کی وجہ سے خاوند اور زوجہ دوبارہ مل سکیں اور 2طلاق بھی باقی رہیں لیکن جب بھی طلاق کی دستاویز لینے جائیں تو وکلا 3 طلاق والا طلاق نامہ ہی لینے پر اصرار کرتے ہیں کہ جس سے نکاح ہی ختم ہو جا تا ہے۔طلاق کیسز میں کامیابی کے لیے الزامات کا کس حد تک سہارا لیا جاتا ہے،کیا یہ عمل مناسب ہے؟۔ قرآن و سنت کی روشنی میں جھوٹ بولنا اور جھوٹی گواہی دینا یا جھوٹا الزام لگانا کبیرہ (بہت بڑا)گناہ ہے۔ ہاں اگر خاوند حقوقِ واجبہ جیسے نان نفقہ، لباس، رہائش یا حقوقِ زوجیت کی ادائیگی نا کرتا ہو یا ان حقوق کی ادائیگی سے قاصر ہو تو عورت طلاق کے حصول کے لیے خلع کا کیس دائر کر سکتی ہے لیکن اس میں بھی وہ سچ بولنے ہی کی پابند ہے۔ کیا طلاق کے بڑھتے ہوئے رجحان کو کم کیا جاسکتا ہے؟۔ جی بالکل! (1) رسول ﷺکے اپنی ازواج سے تعلقات کے سیرت کو مرد اپنائے اور خواتین ازواجِ مطہرات کی سیرت کو اپنائیں۔ (2)بقائے باہمی اور جانبین سے ضبط و تحمل کے ساتھ جملہ معاملات کی ادائیگی ہو۔ (3) مرد و عورت ایک دوسرے کو مساوی نظرسے رویے کا برتاؤ کریں۔ (4)چونکہ طلاق کا اختیار اسلام نے خاوند کو دیا ہے اور اسے گھر کا حاکم بنایا ہے تو اس کی ذمے داری ہے کہ عورت کے قصور کو معاف کرے، شدید غصے کی صورت میں گھر سے باہر نکلے (جیسا کہ سنت سے ثابت ہے)،لفظ طلاق کو اپنی زبان پر کبھی نا لانے کا پختہ عزم کرے، عورت کی فطری صلاحیتوں کی قدردانی اور تعریف کرے اور جذبات سے مغلوب ہو کر فیصلوں سے بچے۔ طلاق کے عمومی اسباب و وجوہات: (1)طلاق کے بارے میں دینی و اخلاقی تعلیمات کا فقدان (2)گھریلو اور خاندانی اختلافات (3) عدالتی نظام میں پیچیدگی اور بے قاعدگی (4) ذرائع ابلاغ (میڈیا) (5) موبائل فون، انٹرنیٹ، سماجی روابط کے ذرائع (6) دوسری شادی (7) مغربی ذہنیت اور بے جا آزاد خیال (8) والدین کی اطاعت میں بے جا غلو (9) نشہ۔ سینئر وکیل فہد احمد صدیقی نے کہا کہ طلاق فریقین کے مابین نفرت اور بغض کا خاتمہ نہیں بلکہ آغاز ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہوتی ہے کہ بچے سے اپنے سابق شریک حیات کے متعلق بچے کے سامنے برائیاں، نفرت کا برملا اظہار کرتے ہیں، جو بچے کے اندر ایک کشمکش کا آغاز کر دیتی ہے۔ وہ اندرونی خلفشار کا شکار ہو جاتا ہے کیونکہ بچہ اپنے ماں اور باپ دونوں سے محبت کرتا ہے، لہٰذا وہ کس کو اچھا سمجھے اور کس کو برا۔ بعض صورتوں میں بچے کو والدین میں سے کسی ایک کے ساتھ رہنے کا انتخاب کرنا ہوتا ہے۔ بچہ اس وقت ایک نفسیاتی کشمکش سے گزر رہا ہوتا ہے، جو اس کی شخصیت کو ٹوٹ پھوٹ کا شکار کر رہی ہوتی ہے۔ والدین اس احساس سے بے خبر رہتے ہیں۔مثال کے طور پر ایک ماں اپنے سابق شوہر یعنی بچے کے والد کے متعلق اتنی تلخ باتیں بچے کو بتاتی ہے، کیوں کہ زوجین کے مابین اختلافات کی بنا پر طلاق ہوتی ہے۔ لہٰذا وہ اپنی نفرت کا زہر اپنی اولاد کے سامنے بیان کرتے ہیں۔ اس صورت حال میں بچہ اس کشمکش کا شکار ہو جاتا ہے کہ وہ والد جو مجھ سے پیار کرتا تھا۔ کیا واقعی ایسا ہے؟ اگر بچہ والد سے اپنی ہم دردی کا اظہار کرنا چاہتا ہے، تو اس کو یہ خوف دامن گیر رہتا ہے کہ اس سے والدہ کے جذبات کو ٹھیس پہنچے گی، وہ دکھی ہوں گی یا وہ مجھ پر اعتماد نہیں کریں گی۔ اس لیے طلاق یافتہ والدین کو اس ضمن میں بہت محتاط رہنا چاہیے۔سینئر وکیل محمد عامر خان نے کہاکہ شادی ایک خوبصورت بندھن ہے مگر یہ جس قدر پیارا اور مضبوط بندھن ہے اسی قدر نازک بھی ہے۔ ہلکی ہلکی ضربیں بھی اس کی مضبوط ڈور کو ناقابل تلافی نقصان پہنچادیتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ اس بندھن کو توجہ کی اشد ضرورت ہے۔ہمارے معاشرے کا ایک بڑا ناسور ’’طلاق‘‘ہے۔ صحیح ہے کہ اسلام نے اس کو حلال قرار دیا ہے لیکن یہ ایک ایسا فعل ہے جس کی وجہ سے عرش الٰہی بھی کانپ جاتا ہے، مگرلوگ بڑے آرام سے طلاق دے دیتے ہیں۔ وہ رشتہ جو اتنی خوشی سے طے کیا جاتا ہے اسے ختم کرنے کا منصوبہ کیوں بنایاجاتا ہے۔ طلاق کو ہر زمانے میں برا سمجھا جاتا رہا ہے۔ پہلے کسی خاندان میں طلاق کا سانحہ ہوتا تو پورا خاندان اور برادری دہل جاتی تھی۔ مگر آج آئے دن طلاق کے قصے سننے میں آتے ہیں، طلاق ہوجانا عام سی بات بن گئی ہے۔ لمحہ فکر یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں طلاق کا تناسب دن بدن بڑھتا جارہا ہے جو دیمک کی طرح اس معاشرے کے سکون کو چاٹ رہا ہے۔یاد رکھیں طلاق ایک ناپسندیدہ فعل ہے جس معاشرے میں طلاق کی کثرت ہو جائے تو سمجھ لینا چاہیے کہ وہ معاشرہ اپنی فطری زندگی کے راستے سے بھٹک گیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ معاشرے کا ہر فرد خواہ وہ استاد ہے یا امام مسجد یا والدین۔ وہ حکومت وقت ہے یا میڈیا سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔