ملک میں اب نظریات کے بجائے مفادات کی سیاست کا غلبہ ہے

794

اسلام آباد (رپورٹ: میاں منیر احمد)ملک میں اب نظریات کے بجائے مفادات کی سیاست کا غلبہ ہے‘ پیپلزپارٹی، ن لیگ اور تحریک انصاف کا اصل ایجنڈا کرپشن ہے‘ ہر پارٹی سربراہ کی کوشش ہے کہ اقتدار اس کی اگلی نسل کو منتقل ہو جائے‘ دیگر رہنما پارٹی قیادت کی غلامی کر رہے ہیں‘ وزرا کے پاس اپنی کارکردگی بتانے کے لیے کچھ بھی نہیں۔ ان خیالات کا اظہار پاکستان مسلم لیگ ( ض) کے سربراہ، سابق وفاقی وزیر محمد اعجاز الحق، پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین کے رکن قومی اسمبلی نواب زادہ افتخار احمد خان‘ مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر، سابق وفاقی وزیر سردار یعقوب خان ناصر، تحریک انصاف کے چیف وہپ رکن قومی اسمبلی عامر ڈوگر، بلوچستان کے سابق ایڈووکیٹ جنرل، سینئر قانون دان، صدارتی تمغہ حسن کارکردگی ایوارڈ یافتہ وکیل ڈاکٹر صلاح الدین مینگل، برطانیہ میں مقیم پاکستانی پولیٹیکل اسکالر سردار عمران احمد اور تحریک استقلال کے رہنما رحمت خان وردگ نے جسارت کے سوال کے جواب میں کیا کہ ’’ملک کی تینوں بڑی جماعتیں پیپلزپارٹی، ن لیگ اور تحریک انصاف نظریاتی اعتبار سے ایک جیسی کیوں ہیں؟‘‘۔ محمد اعجاز الحق نے کہا کہ ملک میں اب نظریاتی سیاست ختم ہوچکی ہے اور اس کی جگہ مفادات کی سیاست آچکی ہے‘ ملک میں کبھی نظریاتی صحافت ہوا کرتی تھی‘ یہ بھی اب تقریباً ختم نہ سہی لیکن محدود اور حالات کی گرفت میں آ چکی ہے‘ اسی ملک میں بہت اچھے صحافی گزرے ہیں جنہوں نے کبھی نظریات پر سمجھوتا نہیں کیا بلکہ ذاتی نقصان اٹھایا اور قربانیاں دی تھیں‘ اب یہ ماحول بھی نہیں رہا‘ نظریات کی جگہ مفادات نے لے لی ہے حتیٰ کہ اب سیاسی جماعتیں بھی یہ بات نہیں دیکھ رہیں کہ انہیں جوائن کرنے والا کون ہے؟ کیا اس کے سیاسی نظریات اس جماعت کے نظریات سے ملتے ہیں؟ اور ایسے لوگ ایک دن کسی سیاسی شخصیت کو گالی دے رہے ہوتے اور کبھی اسی جماعت میں شامل ہوکر اتنے وفادار بن جاتے ہیں انہیں اعلیٰ عہدے بھی مل جاتے ہیں‘ ماضی میں جب ملک میں 2 جماعتی نظام تھا اس وقت دیکھیں کہ ان دونوں جماعتوں نے ایک دوسرے پر کیسے کیسے الزامات لگائے تھے‘ اب وہ دونوںایک اتحاد میں شامل ہیںاور ایک دوسرے کے خلاف مقدمات بنائے اور رہنمائوںکو جیلوں میں رکھا‘ اب ایک ہوگئے جیسے یہ پیدائشی طور پر ہی جڑاوں تھے‘ جہاں تک پی ٹی آئی کا تعلق ہے، اس میں دیکھیں کہ 80 فیصد وہی لوگ ہیں جو ماضی میں کسی نہ کسی سیاسی جماعت میں رہے ‘ یہ سب نظریات کے لیے نہیں بلکہ اپنے مفادات کے لیے آئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ لوگ جماعت کے کمزور ہوجانے پر دوسری جماعت میں چلے جاتے ہیں اور یوں ملک کو بھی سیاسی نقصان ہوتا ہے کیونکہ ذاتی مفادات مقدم ہیں‘ نظریاتی سیاست ختم ہونے سے ملک میں ایک خلیج پیدا ہوگئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب کہا جا رہا ہے کہ وزیراعظم سلیکٹڈ ہے میں سمجھتا ہوں کہ سارے وزیراعظم جو منتخب ہو کر آئے وہ سب سلیکٹڈ تھے۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں اب موروثی سیاست ہے‘ ہر پارٹی کے سربراہ کی کوشش ہے کہ اقتدار اس کی اگلی نسل تک منتقل ہو جائے اور ان جماعتوں میں جو رہنما شامل ہیں یہ سب بھی ضمیر کی آواز پر نہیں چل رہے‘ پارلیمنٹ کے اندر اور باہر پارٹی قیادت کی غلامی کر رہے ہیں۔ نواب زادہ افتخار احمد خان نے کہا ہے کہ پیپلز پارٹی کے سیاسی نظریات ملک کی ہر سیاسی جماعت سے مختلف ہیں‘ ہمارے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو نے اس ملک میں طلبہ، مزدوروں اور کسانوں کے لیے بہت کچھ کیا انہیں زبان دی اور انہیں ان کے حقوق دیے۔ سردار یعقوب خان ناصر نے کہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) نے سندھ میںہاریوں کو زمینیں دیں‘ ملک میں روزگار اور ترقی دی‘ شاہراہیں اور موٹر ویز بنائیں‘ حتیٰ کہ عوام کی خواہش، ملکی مضبوطی کے لیے اور بھارت کو جواب دینے کے لیے ایٹمی دھماکا کیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ کہہ دینا کہ مسلم لیگ (ن) کے سیاسی نظریات کسی دوسری جماعت کے ساتھ ملتے ہیں یہ بات غلط ہے۔عامر ڈوگر نے کہا کہ ہمارے اور دیگر جماعتوں کے نظریات میں زمین آسمان کا فرق ہے‘ ہم نے دھرنا دیا تھا کہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی تھی جبکہ اپوزیشن اپنا چوری کا مال بچانے کے لیے دھرنا دینے کی دھمکی دے رہی ہے‘ ان کے اور ہمارے نظریات میں یکسانیت کہاں سے آگئی؟ تحریک انصاف اس ملک میں کرپشن کے خلاف آواز بن کر ابھری ہے اور ہم کسی ایسے شخص کو چاہے وہ جتنا بھی طاقت ور ہو‘ اسے این آر او نہیں دیں گے‘ ہم یہ کام نہیں کر سکتے‘ تحریک انصاف اس ملک میں ریاست مدینہ کا نظام لانے کی کوشش کر رہی ہے اور اس میں ہم کامیاب ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف کے علاوہ آپ کو کہیں یہ مثال نہیں ملے گی کہ ہم نے اپنے20 ایم پی اے کرپشن کے الزام کی وجہ سے نکال دیے تھے۔ ڈاکٹر صلاح الدین مینگل نے کہا ہے کہ تینوں کا اصل ایجنڈا کرپشن ہے لہٰذا مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف تینوں اکٹھی ہیں‘ ان کے نظریات ایک جیسے ہیں۔سردار عمران احمد نے کہا ہے کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ ہے کہ ملک میں تشکیل پانے والی چند جماعتوں کو چھوڑ کر اکثریت ایسی جماعتوں کی ہے کہ کچھ رہنما اپنی اصل جماعت سے سیاسی اور ذاتی اختلافات کی بنیاد پر الگ ہوئے اور نئی جماعت تشکیل دے دی‘ جب ملک بنا تو مسلم لیگ ایک ہی تھی‘ پاکستان بن جانے کے بعد مسلم لیگ کے درجنوں گروپس بن چکے ہیں‘ پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو بھی مسلم لیگ میں رہے ہیں‘ وہاں سے ناراض ہوئے تو پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی‘ مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف تحریک استقلال سے ہوتے ہوئے مسلم لیگ میں پہنچے اور جونیجو سے ناراض ہوئے تو مسلم لیگ (ن) بنالی‘ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے براہ راست اپنی جماعت بنائی مگر ان کے گرد جمع ہونے والے لوگ وہی ہیں جو کسی نہ کسی جماعت میں رہے ہیں لہٰذا جہاں ایسا سیاسی ماحول ہوگا وہاں سیاسی جماعتوں کو الگ الگ نظریات کے مطابق چلانا ممکن ہی نہیں رہتا‘ہر سیاسی جماعت کا آئین چند تبدیلیوں کے ساتھ تقریباً ایک جیسا ہی ہوتا ہے‘ مسلم لیگ کے 27 دھڑے ہیں ان سب کے آئین اور جنرل کونسل کی تشکیل سب کچھ ایک جیسی ہے‘ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ اور تحریک انصاف تینوں اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے آگے آئی ہیں‘ ان کے پاس اپنا کوئی سیاسی پروگرام نہیں، جب تک اقتدار میں نہیں آئی تھیں یہ سب عوام کی ہمدرد تھیں مگر اقتدار میں آکر ان تینوں نے وہی کام کیے جو انہیں سپرد کیے گئے تھے اور سماجی خدمت کے کام ثانوی حیثیت میں چلے گئے‘ ملک کی سیاسی جماعتوں نے عوام کے مسائل کے تار چھیڑ کر اپنے لیے ہمدردی حاصل کی ہے ۔رحمت خان وردگ نے کہا ہے کہ ملک میں مفادات کی سیاست ہو رہی ہے‘ نظریات کی کسی کو فکر نہیں‘ سب چاہتے ہیں کہ جیسے بھی ملے انہیں اقتدار ملنا چاہیے‘ اس وقت اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم بے شک جتنا بھی کمزور نظر آرہا ہے لیکن مستقبل میں ان کے لانگ مارچ اور دھرنے میں مذہبی جماعتوں کی جانب سے افرادی قوت کی فراہمی کے بعد تحریک میں جان پڑ سکتی ہے‘ پھر حکومت کے لیے امور مملکت چلانا مشکل ہوجائے گا‘ حکومت کی اب تک کی کارکردگی سے متوسط طبقہ شدید مایوسی کا شکار ہے اور متوسط طبقے میں حکمراں جماعت کی ہمدردی میں زبردست کمی آئی ہے‘ بجلی ٹیرف، کھانے پینے کی اشیا کی مہنگائی‘ بے روزگاری سمیت دیگر مسائل میں بہت تیزی سے اضافہ ہوا ہے‘ وزرا کے پاس ٹی وی پر اپنی کارکردگی بتانے کے لییکچھ بھی نہیں اور صرف سابق حکمرانوں پر الزام تراشی کرکے تمام مسائل کا ذمہ دار انہیں ٹھہرا کر بری الذمہ ہونے کی کوشش کی جاتی ہے۔