لاہور( نمائندہ جسارت) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کا اجلاس پیر کو پارلیمنٹ ہائوس میں چیئرمین بیرسٹرسینیٹر جاوید عباسی کی زیر صدارت ہوا ۔قائمہ کمیٹی نے دیگرقوانین سمیت سینیٹر سراج الحق کی3 قوانین میں ترمیم پر بحث کی ۔ کمیٹی میں سینیٹر سراج الحق کے دستو ر اسلامی جمہوریہ پاکستان کی شق 213 میں ترامیم کے ذریعے آئین میںذیلی شق 2ڈی شامل کرنے کی تجویزکو زیر بحث لایا گیا۔ اس بل کے
مطابق الیکشن کمیشن کے ارکان کی تعیناتی میں وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر اور پارلیمانی کمیٹی کی طرف سے اتفاق رائے نہ ہونے کی صورت میں اسپیکر اور چیئرمین پر مشتمل کمیٹی14 دن کے اندر پارلیمانی کمیٹی میں زیر بحث ناموں میں سے مطلوبہ ناموں کی منظور ی دے گی۔ یاد رہے کہ اس سے قبل بھی یہ بل زیر غور آیا تھا لیکن اس وقت سینیٹر سراج الحق کی طرف سے پارلیمانی کمیٹی کی طرف سے نام فائنل کرنے میں ناکامی پراس معاملے کو چیف جسٹس کی سربراہی میں حل کرنے کی تجویز دی گئی تھی لیکن سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون وانصاف نے اتفاق نہیں کیا تھا۔پیر کو قائمہ کمیٹی نے سینیٹر سراج الحق اور سینیٹرعبدالقیوم کی ترامیم سے اتفاق کرتے ہوئے بلز کو منظور کر لیا۔ اگر سینیٹ اور قومی اسمبلی ان بلز کو منظور کرتی ہے تو الیکشن کمیشن کے ارکان کے تقرر کے لیے وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کے بعد پارلیمانی کمیٹی کی طر ف سے اتفاق رائے نہ ہونے کی صورت میں اسپیکر اور چیئرمین سینیٹ 14 دن کے اندر پارلیمانی کمیٹی میں زیر بحث ناموں میں سے مطلوبہ ناموں پر اتفاق کریں گے۔ اسی طرح سینیٹرعبدالقیوم کی ترمیم کے مطابق حکومت الیکشن کمیشن کے ارکان کے تقرر کا پروسیس 3 ماہ قبل شروع کرے گی۔قائمہ کمیٹی میں سینیٹر سراج الحق کی طرف سے آئین کے آرٹیکل 93 (2) میں ترمیم کے ذریعے مشیروںسے اپنے عہدے پر براجمان ہونے سے قبل آئین کے شیڈول تھری میں متذکرہ حلف صدر کے سامنے حلف اٹھانے کو زیر بحث لایا گیا۔ اس ترمیم کے مقصد میں کہا گیا ہے کہ چونکہ آئین کے آرٹیکل57 کے تحت مشیروں کو بھی مجلس شوریٰ( پارلیمنٹ )میں تقریر کرنے کا حق دیا گیا ہے اور کسی بھی کمیٹی میں شریک ہو سکتے ہیں۔ کابینہ اجلاس سمیت تمام اہم سرکاری اجلاسوں میں ان کو شریک ہونے کا موقع ملتا ہے۔ پارلیمنٹ کا ہر رکن حلف اٹھاتا ہے لیکن ان مشیروں کے لیے حلف کی قید نہیں ہے۔ مشیروں کے لیے حلف اٹھانے کی پابندی کے ذریعے یہ پارلیمنٹ کو جوابدہ ہوں گے اور ملکی سلامتی اور تحفظ اور آئین کی پاسداری سے متعلق امور میں تمام آئینی تقاضوں کے پابند ہوںگے۔ قائمہ کمیٹی نے اس بل کو آئندہ اجلاس تک مؤخر کر دیا۔قائمہ کمیٹی میں سینیٹر سراج الحق کی طرف سے خواتین کے جائداد کے حقوق کے نفاذ (ترمیمی) ایکٹ 2020ء کو زیر بحث لایا گیا اس بل میں جائداد سے محروم خواتین کے کیسز کی سماعت کے لیے کام کی جگہوں پر ہراساںکے خلاف تحفظ ایکٹ2010ء کے بجائے وفاقی محتسب کے دفتر کے قیام آرڈر 1983ء میں سماعت کا مطالبہ کیا گیا ہے اوردفعہ 7 کو حذف کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اگر عدالت میں کیس زیر سماعت ہوتو وفاقی محتسب میں شکایت دائر نہیں ہو سکتی۔ مذکورہ ترمیم کو سینیٹر سراج الحق نے فی الوقت واپس لے لیا۔