کیا کچھ تبدیل ہونے جارہا ہے ـ میاں منیر احمد

540

پاکستان، اسلامی جمہوریہ ہے، یہاں ریاست کا نظام ایک آئین کے تحت چل رہا ہے، آئین رائج الوقت قانون کے تابع رہ کر سیاسی جماعتوں کی تشکیل کی اجازت دیتا ہے، ملک میں آئین بھی ہے اور سیاسی جماعتیں بھی کام کر رہی ہیں، لیکن… لفظ لیکن یہاں بلا وجہ نہیں لکھا گیا، اس کی بھی ایک وجہ ہے اور یہ وجہ بیان نہیں کی جاسکتی، بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے 144 ویں یوم پیدائش کے حوالے سے اگر ہم کچھ لکھیں اور پاکستان کے بارے میں ان کے تصور پر بات کریں تو سب سے پہلے ہمیں ان کا پاکستان تلاش کرنا ہوگا، قائد نے ہمیں جو پاکستان دیا تھا وہ1971 میں ہم کھو چکے ہیں اور پاکستان بچانے اسے ترقی دینے اور یہاں ہر شہری کے لیے امن، روزگار، انصاف کی فراہمی کا جو درس انہوں نے ہمیں دیا تھا ہم وہ درس بھی بھول چکے ہیں، اب ملک میں صرف ایک ہی نظام ہے، کہ میڈیا ہو یا سیاسی جماعتیں، ارکان پارلیمنٹ ہوں یا عام شہری، کسی کے لیے یہاں ملک کی ترقی، خوشحالی کے لیے آزاد رائے قائم کرنا ممکن نہیں ہے، جو بھی حکومت وقت ہوگی، بس اسی کی تعریف و توصیف کی جائے اور ساون کے اندھوں کی طرح ہر جانب ہریالی ہی ہریالی دیکھی جائے تو جان بخشی ہوسکتی ہے ورنہ حکومت کے تابع پولیس، ایف آئی اے سب آپ کی ’’خدمت‘‘ کے لیے حاضر ہیں۔

قائد نے کہا تھا کہ یہاں ہر شہری اپنے مذہب کے مطابق عبادت کرنے میں آزاد ہوگا، ہر اقلیت کو اس کے پرسنل لا کے مطابق زندگی گزارنے کا حق ہوگا، کسی کے ساتھ سماجی ناانصافی نہیں ہوگی، یہاں جمہوریت ہوگی، اور حق حکمرانی بھی انہی کے پاس ہوگا جنہیں عوام آزادانہ، غیر جانب دارانہ اور منصفانہ انتخابات کے ذریعے اپنا نمائندہ منتخب کریں، ملک میں پہلے عام انتخابات 1970 میں ہوئے، ووٹ کا فیصلہ تسلیم نہیں کیا گیا تو آج ہم اس کا نتیجہ بھی بھگت رہے ہیں، اب تک ملک میں کم و بیش بارہ عام انتخابات ہوچکے ہیں، ہر بار یہی کاجاتا ہے کہ انتخابات منصفانہ ہوں گے، مگر یہ انتخابات ’’آزادنہ‘‘ ہوتے رہے ہیں اور یہاں کسی بھی انتخاب کا نتیجہ تسلیم نہیں کیا گیا، آج بھی ہمیں یہی مسلئہ درپیش ہے، ملک میں جاری سیاسی رسہ کشی، کشمکش نے ہمیں پہلے دو لخت کیا اور اب عدم استحکام کا شکار بنایا جارہا ہے۔

پاکستان کی جھولی میں کامیابیاں بھی اللہ تعالیٰ نے بہت ڈالی ہیں، ایک وقت تھا کہ ہم ہاکی میں دنیا پر حکمرانی کرتے رہے ہیں، کرکٹ کے عالمی چمپئن رہے ہیں، اسکواش کا کوئی عالمی مقابلہ ہم نہیں ہارے تھے، الحمدللہ، ایٹمی قوت ہم ہیں، قیمتی دھاتیں ہمارے پاس ہیں، چاروں موسم اللہ نے ہمیں عطا کر رکھے ہیں، ہم بیس کروڑ ہیں… مگر متحد نہیں ہیں اور اسی وجہ سے ایک قوم نہیں ہیں، یہی بات ہماری ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ ہم بکھرے ہوئے ہیں، ایک گروہ کہتا ہے کہ انگریزی نہ سیکھو، دوسرا کہتا ہے کہ اردو نافذ کرو، تیسرا کہتا ہے ہماری احساس محرومی ختم کرو، ہم میں سے کوئی نہیں سوچتا کہ ہم پاکستان ہیں اور پاکستان ہمارا ہے… ملک کی سیاسی جماعتیں ملک میں قومی وحدت پیدا کرنے میں ناکام نظر آتی ہیں، چھوٹی چھوٹی سیاسی پاکٹ بنی ہوئی ہیں، پاکستانیت کے بجائے قومیت آگے ہے۔ ہمیں پاکستانی بننا ہے اور یہی نیشنل ازم ہے، اسی میں ہمارا قومی مفاد ہے، یہ ریاست اسلامی ریاست ہے اور یہاں آئین کے مطابق ہی حق حکمرانی ملنا ہے جسے یہ حق ملا ہے وہ اللہ کے نائب کی حیثیت سے یہ اختیار استعمال کرے گا کیونکہ اقتدار اعلیٰ کا حق اللہ کی حاکمیت کے لیے ہے، ہر وزیر اعظم، ہر صدر مملکت اور وزراء سب اقتدار اعلیٰ کے نائب کی حیثیت سے کام کرنے کا اختیار رکھتے ہیں، مگر خرابی کیا ہے؟ یہ سب اس ذمے داری کو سمجھنا نہیں چاہتے، زبان سے اظہار کرتے ہیں اور اقرار کرتے ہیں مگر عمل کی میزان پر غائب رہتے ہیں… یہی ہمارا المیہ ہے۔

ہمارے ہاں ہر حکومت یہی چاہتی ہے کہ بس اسی کی سنی جائے، اسی کی مانی جائے، جب بھی یہاں جس کسی کو بھی اختیار ملا اس نے قانون اپنے تابع کرنے کی کوشش کی، آئین میں ترمیم کے لیے بھی اپنا سیاسی مفاد سامنے رکھا، اب ملک میں ایک نئی بحث چھڑنے والی ہے، وزیر اعظم عمران خان نے اشارہ دیا ہے کہ یہاں امریکی طرز کا سیاسی نظام ہونا چاہیے، امریکا میں کون سا نظام ہے، سب کو علم ہے وہاں کون سا نظام ہے، سنا ہے کہ یہاں بھی اس رائے کے لیے ریفرنڈم کی تیاری ہورہی ہے… اور ہماری سیاسی جماعتیں سو رہی ہیں۔