وسط ایشیا تک بھارتی رسائی

688

گزشتہ دنوں ایران اور افغانستان کے درمیان ریل سروس کے آغاز کے بعد اب چاہ بہار بندرگاہ کو تجارت، نقل و حمل اور علاقائی رابطے بڑھانے کی غرض سے بھارت، ایران اور ازبکستان پر مشتمل سہ فریقی ورکنگ گروپ کی میٹنگ سے یہ اندازہ لگانا، مشکل نہیں ہے کہ بھارت خطے میں اپنا اثرو رسوخ بڑھانے نیز سی پیک کو ناکام بنا کر پاکستان کو خطے میں تنہائی کا شکار کرنے کے لیے سازشوں کے کیا کیا تانے بانے بن رہا ہے۔ متذکرہ سہ فریقی اجلاس کے بارے میں انڈین وزارت خارجہ کے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ اس میٹنگ میں شامل تینوں ممالک نے چاہ بہار بندرگاہ کے استعمال پر تبادلہ خیال کیا ہے۔ بھارت چاہ بہار بندرگاہ کے ذریعے نہ صرف افغانستان میں رسائی چاہتا ہے بلکہ وہ اس روٹ کو سی پیک کے متبادل کے طور پر وسطی ایشیائی ریاستوں تک رسائی کے لیے بھی بروئے کار لانے کے منصوبے پرکام کرہا ہے۔ واضح رہے کہ چاہ بہار بندرگاہ پر کافی عرصے سے کام تعطل کا شکار رہا ہے لیکن جب سے ایران اور چین کے درمیان قربتیں بڑھی ہیں اور چین نے ایران میں بڑی سرمایہ کاری کا عندیہ دیا ہے تب سے بھارت نہ صرف ایران کے ساتھ اپنے سرد مہری کے شکار تعلقات میں گرمجوشی لارہا ہے بلکہ اس کی جانب سے چاہ بہار بندگاہ پر دوبارہ تیزی سے کام شروع کردیا ہے۔ اس کے علاوہ انٹرنیشنل نارتھ ساؤتھ ٹرانسپورٹ کوریڈور (آئی این ایس ٹی سی) انڈیا، ایران، افغانستان، آرمینیا، آذربائیجان، روس، وسطی ایشیا اور یورپ کے درمیان مال بردار ٹریفک کے لیے بحری جہاز، ریل اور روڈ ویز کا سات ہزارکلومیٹر طویل نیٹ ورک کا قیام بھی بھارتی عزائم میں شامل ہے اور اس منصوبے میں چونکہ چاہ بہار کو کلیدی اہمیت حاصل ہے اس لیے بھارت کے لیے چاہ بہار میں سرمایہ کاری اور اس پروجیکٹ کی تکمیل اس کی بنیادی ضرورت ہے۔ یاد رہے کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے چاہ بہار بندرگاہ کو ترقی دینے اور چلانے کے لیے انڈیا، ایران اور افغانستان کے مابین سہ فریقی تعلقات کے لیے 550 ملین ڈالر کے فنڈ کا اعلان کسی بھارتی وزیر اعظم کے پندرہ سال میں پہلے دورہ ایران کے موقع پر مئی 2016 میں کیا تھا۔ دراصل ایران طویل عرصے سے چاہتا تھا کہ انڈیا اس منصوبے کو مکمل کرے لیکن انڈیا نے اس منصوبے کو مکمل کرنے میں کافی تاخیر کا مظاہرہ کیا ہے جس کی ایک وجہ بھارت اور امریکا کے درمیان پچھلے چند سال کے دوران بڑھنے والی قربتیں ہیں۔ افغانستان کے بعد ازبکستان خطے کا دوسرا اہم ملک ہے جو پہلے ہی سے چاہ بہار بندرگاہ کو بجرہند میں داخلے کی ایک راہداری کے طور پر استعمال کرنے میں دلچسپی ظاہر کر رہا ہے۔ بھارت وسط ایشیا کے بعض دیگر ممالک کوبھی اس منصوبے میں شامل ہونے پر زور دے رہا ہے جن میں قازقستان بھی شامل ہے جس نے کافی دلچسپی ظاہر کی ہے۔
مبصرین کا خیال ہے کہ امریکا میں جو بائیڈن کے صدر بننے کے بعد اب انڈیا کو یہ نظر آ رہا ہے کہ وہ ایران کے راستے وسطی ایشیا تک پہنچ سکتا ہے۔ گوکہ صدرٹرمپ کے دور حکومت میں انڈیا کو چاہ بہار بندرگاہ کے ذریعے افغانستان کا سامان بھیجنے کی اجازت تھی تاہم اس استثنیٰ کے تحت ایران کے راستے وسطی ایشیا ئی ممالک میں سامان بھیجنے کی اجازت نہیں تھی جس کی وجہ سے بھارت اربوں ڈالر کے اس مہنگے منصوبے میں سرمایہ کاری کرنے میں لیت ولعل سے کام لے رہا تھا۔
بھارت سڑک کے ساتھ ساتھ ریل نیٹ ورک کے ذریعے بھی چاہ بہار بندرگاہ کو افغانستان منسلک کرنا چاہتا ہے۔ اسی سوچ کے تحت بھارت اورایران کے درمیان 2016 میں ایک مفاہمت کی یادداشت پر دستخط کیے تھے۔ ازبکستان کا چونکہ افغانستان سے پہلے سے ریلوے رابطہ موجود ہے اس لیے گمان کیا جاتا ہے کہ بھارت حال ہی میں ایران اور افغانستان کے درمیان قائم ہونے والے ریلوے نیٹ ورک کو چاہ بہار سے جوڑکراس روٹ کو مستقبل میں اپنی تجارتی ضروریات کے لیے بروئے کارلانا چاہتا ہے۔ جب چاہ بہار بندرگاہ مکمل طور پرفنکشنل ہوجائے گی تو بھارت کے لیے اس بندر گاہ کے ذریعے وسیع پیمانے پر اپنا تجارتی سامان ایران اور افغانستان سمیت تمام وسطی ایشیائی ریاستوں تک برآمد کرنا آسان ہو جائے گا۔ اسی طرح جو بائیڈن کے امریکی صدر بننے کے بعد چونکہ ایران پر عائد اقتصادی پابندیوں میں نرمی آنے کے واضح امکانات موجود ہیں لہٰذا ایسے میں اگر بھارت کو ایران سے زیادہ تیل درآمد کرنے کی اجازت مل جاتی ہے تو بھارت کے لیے چاہ بہار بندرگاہ کی وجہ سے اس تیل کی خریداری کی لاگت انتہائی کم ہو جائے گی کیونکہ اطلاعات کے مطابق جب سے چاہ بہار بندرگاہ فنکشنل ہوئی ہے تب سے یہاں سے ہونے والی برآمدات میں کئی گنا اضافہ ہوچکا ہے۔
دوسری جانب ماہرین کا خیال ہے کہ چاہ بہار بندرگاہ بحیرہ عرب میں چین کی موجودگی نیز اس کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں پر چیک رکھنے کے حوالے سے بھی بھارتی نقطہ نظر سے اہمیت کا حامل ایک بڑا بین الاقوامی منصوبہ ہے۔ اسی طرح چین گوادر پورٹ کی تیاری میں جو کردار ادا کر رہا ہے نیز وہاں اس کی موجودگی سے بھارت کو بحر ہند میں دفاعی لحاظ سے جو خدشات لاحق ہیں اس کے تناظر میں بھی بھارت چاہ بہار بندرگاہ کی تعمیر اور اس کی روڈ اور ریل کے ذریعے افغانستان اور وسطی ایشیا تک توسیع میں اپنی تجارتی ضروریات کے ساتھ ساتھ اسٹرٹیجک نقطہ نظر سے بھی نہ صرف دلچسپی لے رہا ہے بلکہ ایساکرنا اس کی اسٹرٹیجک مجبوری بھی قراردی جارہی ہے۔