اسلام آباد(آن لائن)عدالت عظمیٰ نے ڈینئل پرل قتل کیس میں سندھ ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف درخواستوں پر سماعت کے موقع پر قرار دیا ہے کوئی بھی نئی دستاویز پیش کرنے سے پہلے فریقین کو عدالت سے اجازت لینا ہوتی ہے، حیرانگی کی بات ہے یہ اضافی دستاویزات عدالت عظمیٰ کی فائل میں کیسے آگئیں، عدالت پیش کی گئی دستاویزات کو تصدیق ہونے تک نہیں دیکھے گی۔ جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے معاملے کی سماعت کی۔ڈینئل پرل کے
والدین کے وکیل فیصل صدیقی نے موقف اپنایا کہ احمد عمر شیخ کی گرفتاری کے وقت اس کے بیگ میں ای میلز، کیمرا، اسکینر اور چند تصاویر تھیں۔ جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ استغاثہ کے گواہان نے کہا کہ 2 ای میلز کی گئیں لیکن آپ تو کافی زیادہ بتا رہے ہیں، جن دستاویزات کا آپ ذکر کر رہے ہیں وہ نا تو ٹرائل کورٹ نہ ہی ہائیکورٹ میں پیش کی گئیں،بعد ازاں عدالت نے سماعت 5 جنوری تک ملتوی کر دی ۔