ہمارے لیے سارے انبیاء علیہم السلام واجب الاتباع ہیں۔ خود نبیؐ کو بھی یہی ہدایت تھی کہ اسی طریق پر چلیں جو تمام انبیاء کا طریق تھا۔ جب قرآن کے ذریعے سے ہمیں معلوم ہوجائے کہ کسی معاملے میں کسی نبی نے کوئی خاص طرز عمل اختیار کیا تھا اور قرآن نے اس طریق کار کو منسوخ بھی نہ قرار دیا ہو تو وہ ویسا ہی دینی طریق کار ہے جیسے کہ وہ خود نبیؐ سے مسنون ہو۔
نبی کریمؐ کو جو بادشاہی پیش کی گئی تھی وہ اس شرط کے ساتھ مشروط تھی کہ آپ اس دین کو اور اس کی تبلیغ کو چھوڑ دیں تو ہم سب مل کر آپ کو اپنا بادشاہ بنالیں گے۔ یہ بات اگر سیدنا یوسف علیہ السلام کے سامنے بھی پیش کی جاتی تو وہ بھی اسی طرح اس پر لعنت بھیجتے جس طرح نبی کریمؐ نے اس پر لعنت بھیجی اور ہم بھی اسی پر لعنت بھیجتے ہیں۔ لیکن سیدنا یوسف علیہ السلام کو جو اختیارات پیش کیے گئے تھے وہ غیر مشروط اور غیرمحدود تھے اور ان کے قبول کر لینے سے سیدنا یوسف علیہ السلام کو یہ اقتدار حاصل ہو رہا تھا کہ ملک کے نظام کو اس ڈھنگ پر چلائیں جو دین حق کے مطابق ہو۔ یہ چیز اگر نبی کریمؐ کے سامنے پیش کی جاتی تو آپؐ بھی اسے قبول کر لیتے اور خواہ مخواہ لڑ کر ہی وہ چیز حاصل کرنے پر اصرار نہ کرتے جو بغیر لڑے پیش کی جارہی ہو۔ اسی طرح کبھی ہم کو اگر یہ توقع ہو کہ ہم رائے عام کی تائید سے نظام حکومت پر اس طرح قابض ہوسکیں گے کہ اس کو خالص اسلامی دستور پر چلاسکیں تو ہمیں بھی اس کے قبول کر لینے میں کوئی تامل نہ ہوگا۔
(ترجمان القرآن، دسمبر 45ء)
٭…٭…٭