سقوط ڈھاکا کی 49 ویں برسی کے موقع پر مجلس محصورین پاکستان (پاکستان ریپیٹریئشن کونسل۔ پی آر سی) نے جدہ میں ’’محصور پاکستانیوں کی بحالی، ہماری قومی ذمے داری ہے‘‘ کے عنوان سے ایک آن لائن سمپوزیم کا انعقاد کیا، جس کی صدارت پی آر سی کے چیئرمین سید احتشام الدین ارشد نظامی نے کی۔ مہمان خصوصی معروف اسکالر اور سابق سعودی سفارت کار ڈاکٹر علی الغامدی تھے جبکہ پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور وزیر اعلیٰ پنجاب کے معاونِ خصوصی انجینئرافتخار چودھری اعزازی مہمان تھے۔ دیگر مہمانوں میں فرینڈز آف ہیومینٹی کےصدر احمد کریم جنگڈا ، پی آر سی کے رہنما ممتاز عالم اور محبان پاکستان فاؤنڈیشن کے رہنما ممتاز انصاری شامل تھے۔
مجلس محصورین پاکستان کے کنوینیئر سید احسان الحق نے سمپوزیم کا آغاز کرتے ہوئے سقوط ڈھاکا کے تفصیلی حالات بیان کیے۔ انہوں نے کہا کہ جنرل یحییٰ کے 2 مارچ 1971ء کو قومی اسمبلی کے اجلاس ملتوی کرنے سے احتجاج کا آغاز ہوگیا تھا۔ جس پر سازشی عناصر نے حالات کو پاکستان مخالف تحریک کی طرف موڑ دیا اور اُردو بولنے والی آبادی کو نشانہ بنایا۔ فوجی کارروائی کے ذریعے 25 مارچ تک ایک لاکھ سے زیادہ افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ اس دوران اُردو بولنے والے پاکستانیوں نے اپنی فوج کی پوری حمایت اور مدد کی۔ انہوں نے افواج کے ساتھ مل کر پاکستان کے اتحاد کو بچانے کے لیے جدوجہد کی، تاہم بھارت نے بنگالی علاحدگی پسندوں کی حمایت سے باقاعدہ جنگ کا آغاز کردیا، جس کے نتیجے میں 16 دسمبر کو ہتھیار ڈال دیے گئے۔93 ہزار فوج اور اس سے وابستہ شخصیات کو بحیثیت جنگی قیدی بھارت منتقل کردیا گیا۔
اُردو بولنے والے پاکستانیوں کو فوج کا ساتھ دینے کی پاداش میں انتقام کا سامنا کرنا پڑا۔ اس سخت انتقام کے نتیجے میں ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ نوجوانوں کو ہلاک کیا گیا اور بچ جانے والوں کو گھروں سے بے گھر کردیا گیا۔ ریڈ کراس نے ان کے لیے کیمپ تعمیر کرکے منتقل کیا، جہاں ان کا خیال تھا کہ جلد ہی پاکستان میں ان کا خیرمقدم کیا جائے گا۔1972ء کے سہ فریقی شملہ معاہدے کے تحت اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ پاکستان سے بنگالی، بنگلا دیش جائیں گے اور بنگلا دیش سے پاکستانیوں کو پاکستان لایا جائے گا۔ تمام بنگالیوں کو تو بنگلا دیش بھیج دیا گیا مگر بھٹو کے دور میں 1974ء میں صرف ساڑھے 3 لاکھ میں سے نصف پاکستانیوں کو پاکستان واپس لایا گیا تھا۔
جب 1977ء میں ضیاالحق نے اقتدار سنبھالا تومحصورین کا خیال تھا کہ وہ وقت آگیا ہے جب ان کا پاکستان میں خیرمقدم کیا جائے گا۔ ایس پی جی آر سی کے رہنما الحاج نسیم خان 1986ء میں ڈھاکا میں ضیا الحق سے ملاقات کے بعد بہت پُرامید تھے۔ سینئربنگالی رہنما نورالامین اور ان کے ساتھی محمود علی جیسے بہت کم ایسے رہنما تھے جنہوں نے پاکستان کا انتخاب کیا اور کبھی بنگال پرستی کا شکار نہیں ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ جنرل ضیا محصورین کی واپسی کے حق میں نہیں تھے۔ بعد میں انہوں نے جنرل ضیا کوانہیں پاکستان لانے پر راضی کردیا۔ مسلم ورلڈ لیگ (ایم ڈبلیو ایل) کے اس وقت کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر عبداللہ نصیف نے محصورین کےمعاملے کو طے کرنے کے لیے مشترکہ طور پر ایک ٹرسٹ بنانے کی پیش کش کی۔ 9 جولائی 1988ء کو رابطہ ٹرسٹ صدر ضیاالحق اور ڈاکٹر نصیف کے دستخط سے تشکیل دیا گیا اور فوراً ڈیڑھ کروڑ ڈالر کا فنڈ تشکیل دیا گیا، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ آج یہ 5 کروڑ ڈالر، یعنی 8 ارب روپے سے بھی زیادہ ہے، تاہم یہ ٹرسٹ 2001ء میں جنرل مشرف کے دور میں منجمد کردیا گیا تھا۔ تب سے ہماری حکومت کی جانب سے کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔
23مارچ 1998ء کو پی آر سی نے ڈاکٹر نصیف کی زیر صدارت جدہ میں سمپوزیم کا انعقاد کیا، جس کے مہمان خصوصی پاکستانی سفیر خالد محمود تھے۔ دوسرے مہمانوں میں رانا عبدالباقی اور خالد المعینا شامل تھے۔ پی آر سی نے سیلف فنانس اسکیم کے تحت محصورین کی منتقلی و آبادکاری کے لیے تجاویز پیش کیں، جو تمام حکمرانوں کو بھیجی گئی تھیں، تاہم اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے کوئی سنجیدہ اقدام نہیں گیا۔ پی آر سی نے بنگلا دیش کو ٹرسٹ میں شامل کرنے کی بھی تجویز پیش کی اور کہا کہ جو افراد بنگلا دیش میں آسانی سے آباد ہوسکتے ہیں، ان کی رہایش ٹرسٹ کے ذریعے بنگلا دیش میں تعمیر کی جانی چاہیے اور جو لوگ پاکستان آنا چاہتے ہیں انہیں پنجاب میں مفت مختص کی گئی زمین پر آباد کیا جانا چاہیے۔
جنرل مشرف کے زمانے میں سکرٹری خارجہ تسنیم اسلم نے ایک رپورٹر کے سوال کا جواب د یت ہوئے کہا کہ یہ معاملہ پُرانا ہو گیا ہے اور انہیں بنگلا دیش میں آباد ہونے کا انتخاب کرنا چاہیے۔ پی آر سی نے اس بیان کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اگر 1988ء کا معاہدہ پُرانا ہے تو مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی 1952ء کی قرارداد پر مبنی ہے جو زیادہ پُرانا ہے۔ محصورین کے مسئلے کو کمزور کرنے کی کوشش میں حکومت نے مسئلہ کشمیر کو کمزور کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے کہا کہ یہ بدقسمتی ہے کہ نہ صرف حکمران بلکہ سیاست دان، صحافی، شاعر یہاں تک کہ فلاحی تنظیمیں بھی محصورین کا خیال رکھنے میں ناکام رہے البتہ کچھ دیگر گروپ سامنے آئے، جنہوں نے اس کام کو وسعت دی اور کیمپوں میں تعلیم، صحت اور صفائی کی دیکھ بھال میں مدد کی، تاہم ہمارا میڈیا انہیں بھی بھول گیا۔
16 دسمبر کو میڈیا نے 2014ء میں آرمی پبلک اسکول میں ہونے والے بچوں کے قتل کو اجاگر کیا، جس میں دہشت گردوں نے بے گناہ بچوں اور اساتذہ کو بے دردی سے ہلاک کیا، جس کی ہم ہمیشہ مذمت کرتے ہیں۔ پاکستان بھر میں سیکڑوں دہشت گردوں کے حملے ہوئے، جن میں ہزاروں شہری مارے گئے لیکن ان کا تعلق فوج سے نہیں تھا، جب کہ سقوط ڈھاکا ہماری تاریخ کا بڑا واقعہ ہے اور محب وطن پاکستانیوں کی حالت کیمپوں میں ناقابل بیان ہے کیوں کہ انہیں پاکستان سے وفاداری کی سزا ملی رہی ہے۔ 16 دسمبر کی اس تاریخ کو میڈیا نے یکسر نظرانداز کردیا ہے، جو ہمارے ذرائع ابلاغ کے کھلے دوہرے معیار کو ظاہر کرتا ہے۔
انہوں نے حکمرانوں، فوج، سیاستدان، عدلیہ، میڈیا اور این جی اوز سے اپیل کی کہ کیمپوں میں بے بسی اور کسمپرسی کی زندگی گزارنے والوں کی پریشانیوں کے خاتمے کے لیے فعال کردار ادا کریں۔
مہمان خصوصی ڈاکٹر علی الغامدی نے کہا کہ سقوط ڈھاکا نہ صرف پاکستان بلکہ پوری مسلم دنیا کے لیے افسوسناک سانحہ ہے۔ جب پاک فوج نے جنگی قیدیوں کی رہائی کے لیے معاہدہ کیا تو انہوں نے محصور پاکستانیوں کے لیے کوئی تحفظ حاصل نہیں کیا، جنہوں نے جنگ میں ان کا ساتھ دیا تھا اور بعد میں بدترین انتقام کا نشانہ بنے۔ انہیں ’’غدار‘‘ سمجھا جاتا ہے، جس کی وجہ سے وہ آج تک تعلیم، صحت، ملازمت اور دیگر بنیادی ضرویات سے محروم ہیں۔
حکومت پاکستان کی ذمے داری ہے کہ وہ انہیں پاسپورٹ جاری کرے اور وطن واپسی کی اجازت دے کیوں کہ وہ بنگلا دیشی بننا قبول نہیں کرتے ہیں۔ پی آر سی کی جانب سے سیلف فنانس اسکیم کے تحت انہیں آباد کرنے کے بارے میں غور کیا جانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ میں بھی وزیر اعظم پاکستان عمران خان سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ محصورین کو پاکستان میں آباد کرنے اور ان کی حب الوطنی کا صلہ دینے کے لیے ہرممکن اور فوری اقدامات کریں، اس سلسلے میں پی آر سی کی تجاویز پر عمل کیا جا سکتا ہے۔
اعزازی مہمان خصوصی انجینئرافتخار چودھری نے کہا کہ وہ 25 سال سے پی آر سی کے ساتھ ہیں اور محصورین کے معاملے کی مکمل حمایت کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ پہلے ہی 20 جولائی کو پی آر سی کی یادداشت حکومت کوپیش کرچکے ہیں اور وہ ایک بار پھر صدر عارف علوی اور وزیر اعظم عمران خان کو اس معاملے کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کے لیے جلد اقدامات کرنے کی یاد دہانی کرائیں گے۔
معروف عالم احمد کریم جنگڈا اور ممتاز انصاری نے بھی محصورین کی بحالی کو اولین ترجیحات میں شامل کرکے اس مسئلے کے جلد حل کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے بنگلا دیش سے وطن واپس آنے کے بعد اورنگی میں مقیم پاکستانیوں کے شناختی کارڈوں سے متعلق معاملہ بھی اٹھایا۔
احتشام الدین ارشد نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ پی آر سی نصف صدی سے بنگلا دیش کے کیمپوں میں قابل رحم حالت میں زندگی بسر کرنے والے مظلوم پاکستانیوں کی آواز بلند کررہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ بنگلا دیشی عدالت کے 2008ء کے فیصلے نے انہیں شہریت کی اجازت دی تھی لیکن اس نے انہیں صرف ووٹ ڈالنے کا حق دیا تھا، کیمپوں میں سے کوئی بھی شہریت کا دعویٰ نہیں کرسکتا ہے۔ اس حق رائے دہی نے وہاں رہنے والے کنبوں کو بھی تقسیم کردیا کیوں کہ یہ صرف انہیں کو دیا گیا تھا جو 1971ء کے بعد پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے امید کا اظہار کیا کہ وزیر اعظم عمران خان اپنے دور اقتدار میں اس مسئلے کو حل کریں گے۔
قبل ازیں سمپوزیم کا آغاز انجینئر قاری محمد آصف نے تلاوت قران پاک سے کیا جب کہ ہدیہ نعت پیش کرنے کی سعادت زمرد خان سیفی نے حاصل کی۔ معروف شعرا انجینئر سید محسن علوی اور عبد القیوم واثق نے شہدائے مشرقی پاکستان اور محصور پاکستانیوں کی حالت زار پر نظمیں پیش کیں۔ ڈپٹی کنوینیئر حامد الاسلام نے سمپوزیم کی نظامت کے فرائض انجام دیے۔
آخر میں پی آر سی کے کنوینیئر سید احسان الحق نے مندرجہ ذیل قراردادیں پیش کیں:۔
1 ہم صدر عارف علوی اور وزیر اعظم عمران خان سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ ایک خصوصی تنظیم تشکیل دیں اور محصور پاکستانیوں کی وطن واپسی و بحالی کا کام فوری طور پر شروع کریں۔ فنڈ کی قلت پر قابو پانے کے لیے پی آر سی کی ’’سیلف فنانس اسکیم‘‘ کی تجویز پر عمل کر کے محصورین کی منتقلی و آباد کاری کریں۔
2 بنگلا دیشی حکومت کو بھی اس مسئلے کو حل کرنے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
3 ڈھاکا میں پاکستانی ہائی کمشنر کو بنگلا دیشی حکمرانوں کی مدد سے وہاں پھنسے ہوئے چوتھائی ملین پاکستانیوں کی خوراک، صحت، زندگی، دیکھ بھال اور تحفظ کی ذمے داری تفویض کی جائے۔
4 اسلامی تعاون تنظیم او آئی سی کو محصورپاکستانیوں کی آبادکاری کا معاملہ اپنےایجنڈے میں شامل کرنا چاہیے۔
5 ہم مقبوضہ کشمیر میں 17 ماہ سے زیادہ عرصہ تک بھارتی فوج کی کارروائیوں کی مذمت کرتے ہیں۔ اس مسئلے کا واحد حل یہ ہے کہ اقوام متحدہ کی قرارداد کے مطابق کشمیر میں رائے شماری کا اہتمام کیا جائے۔ بھارت اور پاکستان کے مابین ہونے والے تمام مذاکرات میں کشمیریوں کو بھی شامل کرنا ہوگا۔
6 ہم 2014ء میں آرمی پبلک اسکول پشاور میں دہشت گردوں کے وحشیانہ حملے کی مذمت اور ملوث عناصر کو اسلامی سزائیں دینے کا مطالبہ کرتے ہیں۔
7 ہم نوائے وقت فنڈ کے تعاون کی تعریف کرتے ہیں۔ مسلم ویلفیئر تنظیمیں ((DO&MW) انسان دوستی (ایف او ایچ)، او بی اے ٹی مددگار، آئی ڈی بی اور دیگر تنظیمیں کیمپوں میں پھنسے پاکستانیوں کی پریشانیوں کے خاتمے میں مدد کے لیے آگے بڑھیں۔
8 ہم دیگر سماجی، فلاحی اور امدادی تنظیموں سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ محصورین کی امداد کے لیے خصوصی اقدامات کریں۔