کیا چیئرمین نیب کے علاوہ کوئی نیب کی تعریف کرتا ہے؟، سپریم کورٹ

331
منحرف ارکان کے خلاف صدارتی ریفرنس، سپریم کورٹ کا لارجر بینچ تشکیل دینے کا فیصلہ

اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے نیب سے ملزمان کی گرفتاری کے حوالے سے پالیسی دو ہفتے میں طلب کرتے ہوئے  حکم دیا ہے کہ پالیسی نہ بنی توچیئر مین نیب خود عدالت میں پیش ہوں جبکہ جسٹس سجاد علی شاہ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ کیا چیئرمین نیب کے علاوہ کوئی نیب کی تعریف کرتا ہے؟۔

سپریم کورٹ میں باغ ابن قاسم کراچی کی الاٹمنٹ کے ملزمان ڈاکٹر ڈنشاہ اور سابق ڈی جی پارکس کراچی لیاقت علی خان کی درخواست ضمانت پر سماعت ہوئی۔ پراسیکوٹر جنرل نیب نے پیش ہوکر ملزمان کی گرفتاری کے حوالے سے رپورٹ پیش کی جس پر عدالت نے مرکزی ملزمان کی عدم گرفتاری پر پراسیکیوٹر جنرل نیب اصغر حیدر پر اظہار برہمی کیا۔

نجی ٹی وی کے مطابق پراسیکوٹر جنرل نیب نے رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ ریفرنس میں کل 27 ملزمان ہیں جن میں سے تین مرکزی کرداروں کو پکڑا گیا ہے، تمام ڈی جیز نیب کو ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ ریفرنسز میں ملزمان کے کردار کو مدنظر رکھ کر گرفتار کیا جائے۔

اس پر جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا نیب کا رویہ جانبداری ظاہر کرتا ہے، دوسرے مقدمات میں ہونے والی پلی بارگین ہمیں اس کیس میں لا کر دکھا رہے ہیں، نیب کہتی ہے کہ ایک ملزم نے دوسرے 6 ریفرنسز میں پیسے دے دیے تو اس میں بھی دے دے گا، ہر کیس کی علیحدہ علیحدہ بات ہوگی، کیا نیب کی مرضی ہے جسے چاہے گرفتار کرے جسے چاہے نہ کرے۔

جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے کہا نیب کے بارے میں صبح سے شام تک ہونے والی باتیں اسی وجہ سے ہیں۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ نیب کے موقف سے واضح ہے کہ نیب ایک ملزم کی جانب سے آنے والی رقم کی وجہ سے متاثر ہے، نیب شخصی آزادی سے ڈیل کرتے ہوئے احتیاط کرے نیب کا رویہ مناسب اور غیر تفریقی ہو تو کئی مقدمات عدالتوں تک آئیں گے ہی نہیں۔

جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ اتنے بڑے آدمی کو آپ لوگ موٹروے پر پکڑ لیتے ہیں کیا کوئی شخص موٹروے سے بھاگ سکتا ہے؟۔ پراسیکوٹر جنرل نیب نے کہا وہ گرفتاری ہم نے نہیں کی تھی، جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا  کہ چیئرمین نیب کے علاوہ کیا کبھی کسی نے نیب کی تعریف کی ہے، صرف وہ ہی نیب کی تعریف کرتے نظر آتے ہیں۔

پراسیکوٹر جنرل نیب نے کہا بہت سے آزاد اداروں نے بھی نیب کی کارکردگی کی تعریف کی ہے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہااپنے جواب میں نیب نے جو کہانی سنائی وہ اطمینان بخش نہیں۔جسٹس سجاد علی شاہ نے کہااس منصوبے کا اصل پیسہ کس کو گیا سب کو معلوم ہے، سندھ میں پیسہ جن دو افراد کو جاتا ہے وہ سب کو معلوم ہے، اس زمین پر 62 منزلہ عمارت بنانے کیلئے خاص طور پر قانون بنایا گیا۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ نیب کے خوف سے لوگ سرمایہ کاری نہیں کر رہے، کوئی معمولی الزامات پر گرفتار ہوجاتا ہے کوئی سنگین جرم کرکے بھی آزاد گھومتا ہے، سپریم کورٹ سے کئی ملزمان کی اڑھائی سال بعد ریفرنس دائر نہ ہونے پر ضمانتیں ہوئیں، عوامی عہدہ رکھنے والوں کا احتساب ہر صورت ہونا چاہیے احتساب قانون کے مطابق اور یکساں ہونا چاہیے۔نیب اپنے قانون کا اطلاق سب پر یکساں نہیں کر رہا، ایک مرکزی ملزم نے لندن سے پلی بارگین درخواست بھیجی، منصوبے کے مرکزی فنانسر کو اب تک شامل تفتیش کیوں نہیں کیا؟۔جسٹس سجاد علی شاہ نے کہاجن ملزمان کو پکڑا گیا وہ کٹھ پتلی ہیں، ٹاور کے پچاس فیصد شیئر کس کے ہیں نیب کو پتا ہے، سندھ میں سب کچھ کس کی مرضی سے ہوتا ہے سب کو معلوم ہے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ یہ وائٹ کالر کرائم ہیں ملزمان سے نقصان پہنچنے کا خطرہ نہیں ہوتا، نیب ملزمان قتل یا ریپ کے ملزمان نہیں اسلئے نیب ملزمان کو قتل یا ریپ سے علیحدہ رویہ رکھنا ہے اس کیس میں بندہ بیس ماہ سے جیل میں ہے قتل یا دوسرے سنگین جرائم میں ملوث ملزمان سے خطرہ ہوسکتا ہے کہ باہر آکر وہ کسی کو نقصان پہنچائیں۔ یہاں مرکزی ملزمان باہر سے بیٹھ کر خط لکھ رہے ہیں ہم از خود نوٹس کارروائی نہیں کررہے لیکن نیب اقدامات اٹھائے، ہم چیرمین نیب کو طلب کریں گے۔

عدالت نے اپنے حکم میں قرار دیا کہ تحقیقات کرنا بلاشبہ نیب کا اختیار ہے لیکن شفافیت اور بنیادی حقوق کا تحفظ یقینی بنانا عدالت کا کام ہے، نیب تمام ملزمان کیساتھ یکساں سلوک کرنے کے حوالے سے اقدامات کی تفصیل فراہم کرے اور اگر تسلی بخش اقدامات نہ ہوئے تو چیئرمین نیب آئندہ سماعت پرخود پیش ہوں، جس کے بعد عدالت نے مزید سماعت چھ جنوری تک ملتوی کردی۔