فرانس کے صدر ماکروں نے پچھلے دنوں یہ کہہ کر ہنگامہ برپا کیا تھا کہ اسلام پوری دنیا میں بحران کا شکار ہے اب فرانس میں فرانسیسی اسلام نافذ کرکے اسلام کا بحران ختم کرنے کا بیڑہ اٹھایا ہے۔ صدر ماکروں کی رائے میں فرانس کے مسلمانوں کے بحران کی اصل وجہ ان کی علٰیحدگی پسندی ہے۔ علٰیحدگی پسندی سے ان کی مراد یہ ہے کہ فرانس کے پچاس لاکھ مسلمان فرانس کی آزاد پسند ری پبلکن اقدار سے علٰیحدہ ہو گئے ہیں اور ان اقدار کے مقابلہ میں اسلام کو فوقیت دیتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے صدر ماکروں نے فرانس کے تمام مسلم عمائدین سے صلاح مشورہ کرنے کے بجائے محض چند اماموں سے مشورہ کرکے ایک قانون کے ذریعے فرانسیسی اسلام نافذ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس مقصد کے تحت نئے قانون میں ملک میں دو ہزار پانچ سو مساجد کے اماموں کی کونسل CFCMقائم کرنے کی تجویز ہے جو اماموں کو رجسٹر کرے گی اور کسی امام کی رکنیت منسوخ کرنے کا اسے اختیار ہوگا۔ مسلمانوں کی اس قومی کونسل کا قیام مسلمانوں میں انتخاب کی صورت میں نہیں ہوگا بلکہ فرانس کی سیکولر تنظیمیں اس کونسل کے اراکین نامزد کریں گے۔ یہ کونسل ایک منشور منظور کرے گی جس کا بنیادی نکتہ یہ ہوگا کہ اسلام ایک مذہب ہے سیاسی تحریک نہیں ہے۔ یوں تمام مسلم تنظیموں میں غیر ملکی مداخلت ممنوع قرار دی جائے گی۔ ان اقدامات کا مقصد فرانس کے مسلمانوں کو فرانس کی ری پبلکن اقدار سے وابستہ کرنا ہے۔ اس پروگرام کے تحت فرانس میں 76 مساجد بند کردی جائیں گی جن کے بارے میں حکومت کو شبہ ہے کہ یہاں انتہا پسندی کو فروغ دیا جاتا ہے۔ ان مساجد کے 166 اماموں کو انتہا پسندی کا الزام لگا کر ملک بدر کردیا گیا ہے۔
اماموں کی کونسل کے منشور کے خلاف فرانسیسی مسلمانوں نے آواز بلند کی ہے۔ پیرس کی مرکزی جامع مسجد کے ناظم شمس الدین حافظ کا کہنا ہے کہ اس منشور میں جو کچھ کہا گیا ہے فرانسیسی مسلمان اسے تسلیم نہیں کرتے۔ ان کا کہنا ہے کہ فرانس میں یہ اسلام کے لیے تاریخی موڑ ہے۔ فرانسیسی مسلمان اپنے مذہب کے بارے میں کوئی فیصلہ سیکولر قوتوں کے ہاتھ میں نہیں سونپ سکتے۔ ان کا کہنا ہے کہ فرانسیسی اسلام کے نفاذ کی کوشش دراصل مسلمانوں پر ریاستی جبر ہے جسے مسلمان کبھی قبول نہیں کریں گے۔
صدر ماکروں اور فرانس کے سیاست دانوں کے ذہنوں پر یہ بات بیٹھ گئی ہے کہ فرانس کے مسلمانوں کی علٰیحدگی پسندی کی اصل وجہ یہ ہے کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اسلامی قوانین فرانس کی ری پبلکن اقدار سے بالا تر ہیں مسلمانوں کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ فرانس میں اللہ تعالیٰ کی کھلم کھلا توہین کی جاسکتی ہے لیکن ری پبلک اور اس کے سیکولر اقدار کی تذلیل پر جب رسول اللہ کے کارٹونوں کی اشاعت پر احتجاج کیا جاتا ہے تو اظہار رائے کی تاویل پیش کی جاتی ہے۔
فرانس میں اسلام میں تبدیلی کی کوشش اس سے پہلے بھی 2015 میں صدر فرانسوا آیندے کے دور میں کی گئی تھی جب اماموں کو مراکش بھیجا گیا تھا لیکن یہ کوشش ناکام رہی۔ فرانسیسی صدر کے مجوزہ قانون کے تحت گھروں میں بچوں کی مذہبی تعلیم پر پابندی عاید کر دی جائے گی۔ فرانس کے مسلمانوں کو شکایت ہے کہ صدر ماکروں نے ان اقدامات کے سلسلے میں مسلم عمائدین سے صلاح مشورہ نہیں کیا۔ انہیں شاید علم نہیں کہ مساجد میں نماز پڑھانے والے امام مذہب کے دقیق مسائل کے بارے میں کوئی رائے نہیں دے سکتے۔ فرانس کے مسلم عمائدین کی رائے ہے صدر ماکروں کی فرانسیسی اسلام نافذ کرنے کی کوشش مسلمانوں کے خلاف ایک جنگ ہے جس میں انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑے گا۔