لاہور ( رپورٹ :حامد ریاض ڈوگر) سقوط ڈھاکا یقینا تاریخ پاکستان کا سب سے بڑا المیہ ہے جس نے ہماری تاریخ اور جغرافیہ دونوں کو بدل کر رکھ دیا مگر ہماری قوم کے ساتھ اس عظیم سانحہ سے بھی بڑا حادثہ یہ ہوا ہے کہ ہمارے اجتماعی حافظے نے اس سانحہ کو فراموش کر دیا ہے، ایسا کیوں ہوا؟ 1971ء کی جنگ میں شکر گڑھ کے محاذ پر برسرپیکار رہنے والے میجر جنرل (ر) شفیق احمد اعوان ستارۂ امتیاز کی رائے ہے کہ اس کا سب سے بڑا سبب قیادت کا فقدان ہے، ملک کی قیادت اس پائے کی نہیں کہ قوم کو کسی اچھی بات پر جمع کر سکے، حقیقت یہ ہے کہ سقوط ڈھاکا کے وقت بھی کوئی موثر رد عمل نہیں ہوا، آدھا ملک چلا گیا مگر کوئی زور دار جلسہ جلوس اور احتجاج سامنے نہیں آیا صرف اخبارات میں تھوڑا بہت لکھا گیا یا جی ایچ کیو میں کچھ فوجیوں نے بغاوت کر کے جنرل یحییٰ خاں اور جنرل حمید کو نکلوایا قوم اسہوتا ہے۔ مولانا مودودیؒ مشرقی پاکستان گئے تھے مگر انہیں ڈھاکا میں جلسہ تک نہیں کرنے دیا گیا اور اس پر دوسری جماعتوں نے کوئی احتجاج نہیں کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے بھی ’اُدھر تم اِدھر ہم‘‘ کا نعرہ لگا کر جنرل یحییٰ خاں کی غلطیوں کو مزید تقویت دی اور پاکستان دو لخت کروا دیا۔ پاکستان کا یہ المیہ ہے کہ یہاں قیادت کا شدید فقدان ہے اور آئندہ قیادت کی تیاری کا بھی کوئی نظام ہے اور نہ ہی کسی کو کوئی فکر ہے ابھی13 دسمبر کو مینار پاکستان پر پی ڈی ایم نے جلسہ کیا مگر کسی رہنما نے سقوط ڈھاکا کا ذکر تک نہیں کیا۔ ہماری موجودہ قیادت تو دولت بنانے اور کرپشن میں ایک دوسرے کا مقابلہ کر رہی ہے۔ ملک اور قوم کی فکر کرنے والی قیادت کہیں موجود نہیں۔ جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر سابق رکن قومی اسمبلی لیاقت بلوچ نے کہا کہ سقوط ڈھاکا سے قبل بھی غیر ذمے داری، بے حسی، حقوق غصب کرنے اور عوامی فیصلوں کو تسلیم نہ کرنے کا ماحول بنایا گیا تھا جس کے نتیجے میں مشرقی پاکستان ہم سے جدا ہوا مگر سقوط مشرقی پاکستان کے بعد بھی اس رویے کی اصلاح کی گئی نہ ہی اتنے بڑے سانحے کے کسی ذمے دار کو سزا دی گئی اور عوام میں بھی مسلسل یہ کوشش کی گئی کہ اس سانحے کو ذہنوں سے کھرچ دیا جائے کیونکہ حکمران اور طاقتور طبقوں کو جمہوریت سے کوئی سرو کار ہے نہ ہی احساس زیاں ہے یہی وجہ ہے کہ اتنے بڑے سانحے کو عملاً فراموش کر دیا گیا۔ طویل مدت کے بعد مطیع الرحمن نظامی، ملا عبدالقادر اور ان کے ساتھیوں کو صرف اس جرم میں کہ وہ محب پاکستان اور دو قومی نظریے کے علمبردار تھے، چن چن کر پھانسی کی سزائیں دے دی گئیں مگر پاکستان میں کسی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی، 16 دسمبر کے سانحے کا سب سے بڑا سبق یہی ہے کہ ملک میں دو قومی نظریے، آئین اور قانون کی فرمانروائی ہو۔ پوری قوم اور پالیسی ساز شخصیات اور گردہوں کے بجائے انتخابات کا تقدس بحال کریں مگر افسوس کہ آدھا ملک کھو دینے کے بعد بھی ہم اس جانب توجہ دینے پر تیار نہیں۔ممتاز دانشور، کالم نویس اور روزنامہ پاکستان کے مدیر اعلیٰ مجیب الرحمان شامی نے کہا کہ سانحے بھلانے کے لیے ہی ہوتے ہیں اور انہیں بھول ہی جانا چاہیے مگر ان سے سبق ضرور حاصل کرنا چاہیے ہم سانحہ مشرقی پاکستان سے یہ سبق لیا ہے کہ اجتماعی زندگی میں دستور کی بڑی بنیادی اہمیت ہے، نظام کو اس کے تابع چلنا چاہیے، ایسا نہ کیا جائے تو ملکی سلامتی کا تحفظ خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ پاکستانی قوم نے یہ سبق تو ضرور حاصل کیا اور ہمارے یہاں اس امر پر اتفاق ہے کہ معاملات دستور کے مطابق چلائے جانے چاہئیں مگر ہم یہ نہیں کر سکے کہ ہمارے اہل سیاست ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھ کر معاملات ومسائل کو حل کرنے کے لیے بات چیت اور مکالمے کو فروغ دیں۔ بار بار بحران پیدا ہوتے ہیں ہم عزم کرتے ہیں کہ آئندہ اس غلطی کو نہیں دہرائیں گے مگر صورت حال جوں کی توں رہتی ہے۔ 1977ء میں پاکستان قومی اتحاد اور پیپلز پارٹی میں مصالحت نہ ہو سکی۔ آج پھر یہ چیلنج در پیش ہے کہ دستور کے تابع معاملات و مسائل کا حل تلاش کیا جائے مگر حکومت اور حزب اختلاف دونوں بات کرنے سے انکاری ہیں، ایک دوسرے کا حق دینے کو تیار نہیں، اہل سیاست کو باہم بات چیت سے مسائل کا حل نکالنا ہو گا ورنہ ایک دوسرے کو شکست دینے کی کوشش میں سارے شکست کھا سکتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے بانی رکن، سابق وزیر مملکت اور ممتاز کالم نویس عبدالقیوم نظامی نے کہا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سانحات کے اثرات کم ہوتے جاتے ہیں اور ہماری تو بدقسمتی یہ بھی ہے کہ سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد بہت سے معاملات میں پاکستان بنگلا دیش سے پیچھے رہ گیا ہے، تعلیم، صحت وسائل اور معاشی ترقی میں بنگلا دیش آگے اور پاکستان نیچے کی طرف گیا ہے، 16 دسمبر کو پاکستان کے لوگ سوچتے تو ضرور ہیں مگر یہ سوچ کر مطمئن ہو جاتے ہیں کہ وہ آج بھی ہمارے مسلمان بھائی ہیں، بھارت سے نہیں ملے، دو قومی نظریہ آج بھی برحق ہے مسلمان تو دنیا بھر میں بھائی چارے کے رشتے میں بندھے ہوئے ہیں۔ بہرحال قومیں سانحات سے سبق سیکھ کر آگے بڑھتی ہیں مگر ہم نے ایسا نہیں کیا آج بھی پاکستان میں جاگیرداری، سرمایہ داری، سول و ملٹری بیورو کریسی اور احساس محرومی کا راج ہے جن سے فائدہ اٹھا کر بھارت نے امریکا اور روس کی آشیرباد اور سرپرستی سے مشرقی پاکستان کو ہم سے جدا کیا تھا مگر ہم آج بھی غلطیوں سے سبق سیکھنے اور ان برائیوں سے نجات پانے میں سنجیدہ نہیں۔