سانحہ مشرقی پاکستان اور شہدائے مشرقی پاکستان پر سعودی عرب میں پاکستانیوں کے تاثرات

297

٭ 1971 کے اتنے بڑے واقعے کے بعد بھی ہم نے سبق نہیں سیکھا، ذکاءاللہ محسن۔
٭ انہیں پاکستان سے محبت کی سزا دی گئی اور آج تک یہ ظلم جاری ہے، مبشرانوار
٭ دسمبر کی سردی کا یخ بستہ موسم گزارنا کتنا دشوار ھوتا ھو گا، شمس الدین الطاف
٭ عہدِ وفا کی تجدید کرتے ھوئےان شہداء کو خراجِ عقیدت پیش کرتی ہوں، عروج اصغر
٭ اللہ تعالی شہدائے مشرقی پاکستان کی مغفرت فرمائے، سید شہاب الدین۔
٭ لوگ سانحہ مشرقی پاکستان کوبھولتےجارہے ہیں، محمد عامل عثمانی۔
٭ محصورپاکستانیوں کی منتقلی وآبادکاری کے اقدامات ہونے چاہیے۔ ڈاکٹرعبدالعلیم
ہر سال کی طرح اس سال بھی ہم سانحہ مشرقی پاکستان اور شہدائے مشرقی پاکستان کی یاد کو اسی طرح تازہ کررہے جیسے گذشتہ 49 برسوں سے کرتے چلے آرہے ہیں۔ محصورین پاکستان کی منتقلی و آباد کاری کا مطالبہ کیا جائے گا۔ سقوط ڈھاکا کی غمناک کہانی دھرائی جائے۔ جھوٹ در جھوٹ وعدے کئے جائیں گے اور بس پھریہ دن 50 ویں برس میں ڈوب جائے گا۔ آج کے دن کے حوالے سعودی عرب میں مقیم پاکستانیوں نے اپنے تاثرات کا آظہار کیا ہے وہ قارئین جسارت کے پیش خدمت ہے۔
ذکاءاللہ محسن سعودی عرب ریاض میں پاکستانی میڈیا کے علاوہ سعودی میڈیا کے لئے بھی کام کرتے ہیں اور صحافتی تنظیم پاک میڈیا فورم کے صدر ہیں رپورٹنگ کے ساتھ ساتھ کالم نویس بھی ہیں اور پاک سعودی تعلقات کے حوالے سے گہری نظر رکھتے ہیں اور دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو فروغ دینے کے لئے اپنے قلم کا استعمال کرتے ہیں۔ آج انھوں نے بے حد درد مندی ساتھ سقوط ڈھاکا اور سانحہ مشرقی پاکستان پر اپنا بیباک قلم اٹھا یا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ سقوط ڈھاکا جنہوں نے دیکھا اور جو اس وقت میں موجود تھے انہیں آج تک یہ افسوسناک اور درد ناک اور میرے نزدیک شرم ناک واقعہ نہیں بھولا ہوگا۔ اسی طرح میرے جیسے جنہوںنے محض تاریخ کی کتابوں، تقریروں ،تجزیوں سے سقوط ڈھاکا کے بارے میں جانا ہے تو اس سے اپنے ہی ملک کے ایک حصے کو الگ ہو کر ایک الگ ملک بننے کا دکھ اور درد دل میں ضرور محسوس ہوتا ہے کبھی کبھار تو جان بوجھ کر اس واقعے سے درگزر کرکے کسی اور جانب توجہ کو مرکوز کرنے کی کوشش بھی کرنی پڑتی ہے کہ میرا ملک دو لخت ہوا میری ہی قوم کے لوگ ایک دوسرے سے دست گریبان ہوگئے اور ایک ملک کی خاطر جدوجہد کرنے والوں نے ملکر ایک مملکت خداداد تو بنا لی مگر پھر خود ہی اسکو ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا یہ ہماری تاریخ کا ایسا تاریک باب ہے جو ہماری آئندہ نسلوں تک زندہ رہے گا کتنی ہی حیرت ہے کہ 1947 کے بعد جس انسانی المیے نے جنم لیا ابھی اسی کا دکھ اور درد نہیں بھول پائے تھے کہ 1971 میں دوسرا انسانی المیہ جنم لے لیتا ہے اور ایک ہی ملک کے باسی ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار ہوکر دشمن کو مداخلت کی اجازت دیتے ہیں اور بے وقوفی کی ایسی مثال قائم کرتے ہیں کہ جس سے بے گناہ انسانوں کی جانیں ضائع ہوتی ہیں اور اختیارات کی اس جنگ میں دنیا بھر میں ہماری بے بسی کا ایسا ڈھنڈورا پیٹتا ہے کہ ہم شکست سے دوچار ہوتے ہیں سقوط ڈھاکا کے سبھی کردار چاہے وہ عسکری ہیں یا سوئلین سبھی کے سبھی قوم کے مجرم ہیں انہوں نے اپنی نادانیوں کی بدولت ایسا ماحول پیدا کیا جس میں نقصان محض پاکستان کا ہوا اور ایک نفرت کی ایسی داغ بیل ڈالی جو آج بھی کئی سال گزر جانے کے باوجود ہمارے درمیان موجود ہے شہدا کا سلسلہ ہے جو روکنے کا نام ہی نہیں لے رہا 16 دسمبر سقوط ڈھاکا کا دن ہے مگر موجودہ دور میں ہمارے لئے اس دن کی اہمیت اس لئے بھی بڑھ جاتی ہے کہ 1971 کے اتنے بڑے واقعے کے بعد بھی ہم نے سبق نہیں سیکھا آج بھی ہم طبقات میں بٹے ہوئے ہیں لسانی اور مسلکی اختلافات کے علاوہ سیاسی اختلافات کی انتہا پسندی کی حد تک ایسی روش اختیار کیے ہوئے ہیں جس نے 1971 میں سقوط ڈھاکا کی تاریخ رقم کی آج کا دن سبق سیکھنے کا دن ہے اپنی کوتاہیوں اور غلطیوں کو یاد کرنے کا دن ہے تاکہ ہم ان چیزوں کو ہوا نہ دیں جن سے ہم پہلے بھی نقصان اٹھا چکے ہیں ہم وہ راستہ اختیار نہ کریں جس سے ملک کے اندر تصادم کا عنصر موجود ہو ہماری زبانوں اور سوچ دونوں کو محب وطن بنانے کی ضرورت ہے تاکہ ایک اور سقوط ڈھاکا نا ہو ہر پاکستانی ایک سوچ کر دیکھے کہ کیا ہم دوبارہ سقوط ڈھاکا جیسے کسی المیے کے متحمل ہوسکتے ہیں یقیناَ نہیں ہوسکتے اس کے لئے جہاں قوم کو ایک مثبت سوچ اپنانی ہوگی وہیں پر عسکری اور سیاسی حلقوں کو بھی محتاط رویہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے بہرحال یہ دن سقوط ڈھاکا کے شہدا کا دن ہے اللہ ان کے درجات بلند فرمائے ہم ان شہدا کو سلام پیش کرتے ہیں۔
مشبر انوار بھی سعودی عرب ریاض میں مقیم پاکستان کے ایک سینئرصحافی ہیں جو گذشتہ20سالوں سے کرنٹ افیئرز پر کالم لکھ رہے ہیں۔ ینگ جنرنلسٹس سوسائٹی انٹرنیشنل کے صدراور کمیونٹی کی مقبول شخصیتوں میں شمار ہوتا ہے۔ انھوں نے انتہائی حساس انسانی اور اہم قومی مسئلہ پر اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہا کہ حکمرانوں کی اناؤں اور نفرت کے جذبوں میں چور نوزائیدہ مملکت پاکستان اپنے قیام کے محض چوبیس سال بعد ایسے دوراہے پر کھڑی تھی جہاں سے واپسی کے تمام راستے مسدود ہو چکے تھے۔ ایک طرف مغربی پاکستان کے حکمرانوں کی انا، تکبر اور احساس برتری تھا تو دوسری طرف مشرقی پاکستان کے ساتھ اکھنڈ بھارت کا خواب دیکھنے والےاور ہند توا کے پیروکار نفرت کی آگ میں جھلسے جا رہے تھے- جن کی پشتیبانی در پردہ و کھلم کھلا غیر مسلم ممالک کر رہے تھے۔ تقسیم ہند کے مخالف ہندوؤں کے لئے یہ نعمت غیر متبرکہ تھی کہ مشرقی و مغربی پاکستان کے درمیان ایک طرف عدم اعتماد در آیا تھا تو دوسری طرف ان مخالفوں نے اس آگ کو مزید بھڑکانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی۔ مکتی باہنی کی شکل میں ایک ایسی چنگاری مشرقی پاکستان میں بسنے والوں کے درمیان سلگا دی تھی کہ ہوش مند آوازیں سنائی نہیں دیتی تھی۔مکتی باہنی ایک طرف پاکستانی افواج کا روپ دھار کر مشرقی پاکستان کے باسیوں کے ساتھ ظلم و ستم روا رکھے ہوئے تھی تو دوسری طرف بنگالیوں کے روپ میں افواج پاکستان پر حملہ آور تھی، الغرض اس غبار کے نیچے اس خلیج کی بنیاد رکھی گئی جو مشرقی بازو کے الگ ہونے پر ختم ہوا۔
اس حادثے کے دوران اور بعد بھی متحدہ پاکستان کا دم بھرنے والے ختم نہیں اور طرفین میں اس پر خوشیاں منانے اور افسوس کرنے والوں کی تعداد کم نہ تھی، مشرقی پاکستان میں رہ جانے والوں کے ساتھ جو سلوک ہوا، اس پر سوائے افسوس کرنے کے کچھ نہیں کیا جا سکتا۔
انہیں پاکستان سے محبت کی سزا دی گئی اور آج تک یہ ظلم جاری ہے لیکن آفرین ہے ان کے آہنی عزم پر کہ ہر ظلم ہنس کر سہہ گئے مگر جب تک سانس رہی پاکستان کا دم بھرتے رہے۔ اس کا اجر اللہ رب العزت کی ذات ہی عطا کر سکتی ہے لیکن اب جبکہ بہت سے حقائق آشکار ہو چکے ہیں، بہت سی سازشیں بے نقاب ہو چکی ہیں، حکمرانوں کو نفرت اور بدلے کی آگ سے نکل آنا چاہئے اور انتقامی کارروائیوں سے گریز کرنا چاہئے۔
شمس الدین الطاف مجلس محصورین پاکستان کے سینئیر ممبرہیں ان کا تعلق پیپلز پارٹی سے بھی ہےمگر انھوں اپنی سیاسی وابستگی سے ہٹ کر ہمیشہ محصورین کی کسمپرسی اور حکومت کے انسانیت سوز رویہ کے خلاف قلم اٹھا یا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ برطانیہ میں چند سال گزارنے کے بعد غیر ملکی لوگ برطانوی شہری بن جاتے ھیں،
لیکن 49 سالوں سے بنگلادیش کی کیمپوں میں محصور پاکستانی آج تک نہ تو بنگلادیش کے”شہری” اور نہ ھی “مھاجر” بن سکے،
اس پر افسوس یہ کہ پاکستان کی حکومتیں/حکومت بھی سب امور کا علم ھونے کے باوجود انھیں بآسانی اپنا شہری ماننے پر تیار نہیں اور ان موجودہ ناگفتہ بہ حالات میں نہ تو انھیں عالمى ذرائع سے کوئی امداد بہم پہنچانے کے انتظامات کئے گئے اور نہ ھی انکی اپنے وطن باعزت واپسی کے لئے کوئی پالیسی وضع کی گئی…؟
حکومتوں/حکومتی بے حسی کو دیکھتے ھوئے اس بات کے لئے یہ نتیجہ اخذ کرنے میں کوئی دیر نہیں لگتی کہ جو حکومتیں/حکومت اپنے اصل شہریوں کی واپسی کے لئے گزشتہ 49 برس سے کوئی واضح اقدام اور پالیسی نہ بنا سکیں وہ مسئلہ کشمیر پر فدا ھونے کے دعوے کس منہ سے کر سکتی ھے…؟؟
لہذا ماضی میں جس طرح سابقہ حکومتوں سے محصورین پاکستان کے مسئلے کو حل کرنے کے لئے یاد دھانیاں کروائی جاتی رھی ھیں اس طرح اب موجودہ عمران خان صاحب کی حکومت کے وفاقی کابینہ کے وزراء کو بھی اس اھم انسانی اور ملکی مفاد کے مسئلے سے آگاہ کیا جا چکا ھے مگر اب تک کسی بھی قسم کی عملی پیش رفت سامنے نہ آ سکی جبکہ حکومت اپنی آدھی مدت پوری کر چکی ھے.
یاد رہے ہر سال کے اختتام پر جیسے ہی دسمبر کے مہینے کا آغاز ھوتا ہے دل ان بے سہارا محصورین پاکستان کے لئے تڑپ اٹھتا ہے، یہ سوچ کر کہ عام دنوں میں معیشت زندگی کے دکھ تو ھوتے ھی انکی حيات تلخ میں مگر اس بے سروسامانی کے حالات میں دسمبر کی سردی کا یخ بست موسم گزارنا کتنا دشوار ھوتا ھو گا.
مگر میں قربان جاؤں ان محصورین کے جذبہء حب الوطنی پر جو ان کسمپرسی کے حالات میں بھی سارے دکھ بے چوں و چرا خود برداشت کر لیتے ہیں مگر پھر بھی غازیوں کی طرح ان کیمپوں میں پاکستانیت اور پاکستان کا علم سرنگوں نہیں ھونے دیتے، کاش ھمارے حکومتی ارکان میں سے کسی ایک کو یہ توفیق میسر ھو سکے جو چند دن نکال کر انکے کیمپوں کا بھی “ٹور” کر سکے شاید اسی بہانے انھیں ان کا درد حکام بالا اور متعلقہ اداروں تک منتقل کرنے کا موقع مل سکے.
جہاں پاکستان نے أمت مسلمہ کی کئی اھم مسائل کو او آئی سی کے پلیٹ فارم پر پیش کر کے انکی حمایت اور انکے حق میں قراردادیں منظور کروائی ھیں اسی طرح اس بار بھی حکومت وقت سے درخواست کی جاتی ہےکہ وہ بنگلادیش کے تقریبا” 66 کیمپوں میں 49 برس سے محصور پاکستانیوں کی باعزت واپسی کے لئے بھی او آئی سی کے پلیٹ فارم سے اسلامی ممالک کی جانب سے متفقہ قرارداد کی حمایت اور منظوری حاصل کرے، تاکہ محصور پاکستانیوں کے اس دیرینہ معلق انسانی المیے کا جلد اور باعزت حل نکالا جا سکے۔
اگر اب موجودہ حکومت جو کہ خود ملک کو “نئی ریاست مدینہ” بنانے کے تصور کی دعویدار کہتی ھے وہ اگر فوری طور پر مطلوب انسانی مسئلہ کے حل کی طرف جلد کوئی
مؤثر اقدام نہیں اٹھاتی تو پھر کسی کو بھی یہ کہنے میں اعتراض نہیں ھو گا کہ حکومت کے کہنے اور کرنے میں کھلا تضاد ھے۔
عروج اصغر جدہ کی معروف خاتوں صحافی اور کالم نگارہیں نے شہدائے مشرقی پاکستان کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ وں تو تاریخ پر میری نظر بہت گہری نہیں ہے مگر 16 دسمبر 1971 کے سقوط ڈھاکا کا خیال آتے ہی ھی میرے سامنے اس منظر کا تصور جاتا ہے جب خاص طور پر بھارت سے آئے بہاری بھائیوں کی بستی پر ڈھاکا میں مکتی باھنی کے بھارتی تربیت یافتہ غنڈوں نے برچھیوں سے حملہ کیا اور پاکستان سے محبت کرنے والے ایک ایک شخص کے بدن سے وہ آخری خون کا قطرہ بھی نچوڑ ڈالا جس میں وطن کی محبت تھی ۔ مجھے رضا کار فورس کے ان بنگالی بھائیوں کا بھی خیال آیا جو مخالف قوتوں سے لڑتے تاریک راہوں میں گمنامی کی نیند سلا دیئے گئے اور وہ اردو بولنے والے ھندوستانی بھی میری آنکھوں کے سامنے آگئے جن کو ھم نے “کھلنا” کے علاقے میں درندوں کے آگے بے یارو مدد گار چھوڑ دیا ۔
میرے حقیر اندازے میں ان کی وفا کا کم سے کم صلہ یہ ہے کہ ھم اپنے بچے کچھے ملک کی قدر کریں اور اھم جگہوں کے ناموں کو ان کی نسبت سے تعبیر کریں تاکہ ھماری آنے والی نسلیں ان کی قربانیوں کا ادراک کر سکیں ۔ اس موقع پر میں ملک سے اپنے عہدِ وفا کی تجدید کرتے ھوئے اپنے ان شہداء کو خراجِ عقیدت پیش کرتی ہوں اور امید کرتی ہوں کہ ھم سب کسی بھی مالی، اخلاقی اور معاشرتی حیثیت میں اپنے ملک کے وقار اور تقدس پر سودے بازی نہ کرتے ہوئے ان شہداء کے سامنے روز آخرت سرخرو ہوکر پیش ہونگے ۔ آمین
سید شہاب الدین جدہ کی معروف سماجی اور ادبی شخصیت ہیں نے سقوط ڈھاکا کے حوالے سے کہا کہ 16دسمبر 1971 پاکستان کی تاریخ کا وہ سیاہ ترین دن تھا جب ملک دو لخت ہوا۔ یہ ایک ایسا زخم ہے جو کبھی مندمل نہ ہوسکے گا اور یہ واقعہ بھلائے نہ بھلایا جا سکے گا۔ بنگلہ دیش بننے کے بہت سے اسباب و عوامل تھے جس کا ملک دشمنوں نے فائدہ اٹھایا اور ایک عالمی سازش کے تحت بنگلہ دیش بننے کی راہ بڑی تیزی سے ہموار ہوئی۔ اندرونی غداروں سے مل کر بھارتی افواج نے پاکستان کو دولخت کرنے میں بھر پور کردار ادا کیا۔ پاک فوج اور رضا کار تنظیمیں البدر و الشمس نے ملک کی حفاظت کے خاطر اپنی جانیں قربان کیں۔
سقوط ڈھاکا کے بعد مکتی باہنی اور بھارتی فوج نے پورے بنگلہ دیش میں محب وطن بنگالیوں اور اردو بولنے والوں کا چن چن کر قتل عام کیا۔ ظلم کی داستانیں رقم ہوئیں۔ ہمارے ہزاروں فوجی دشمن کی قید میں چلے گئے۔ لاکھوں لوگ شہید کردئیے گئے۔ بنگلہ دیش بننے کے بعد غیر بنگالی جنھیں عرف عام میں بہاری کہا جاتا ہے ان کی ایک بڑی تعدا اپنے طور پر مغربی پاکستان پہنچنے میں کامیاب ہوگئی مگر ڈھائی لاکھ کے قریب پاکستان سے محبت کرنے والے بنگلہ دیش کے مختلف کیمپوں میں محصور ہو کر رہ گئے اور آج تک کسمپرسی کی حالت میں زندگی گزار رہے ہیں۔
سقوط ڈھاکا کو لگ بھگ پچاس برس ہو چکے ہیں مگر بنگلہ دیش کی حکومت ان بنگالیوں کو جو پاکستان سے محبت کرتے تھے اور پاکستان کی تقسیم کے مخالف تھے اس جرم میں آج بھی ان کو پھانسی دی جا رہی ہے۔۔۔
افسوس تو اس بات کا ہے کہ جن عوامل کی وجہ سے پاکستان دو لخت ہوا تھا کم و بیش وہی عوامل آج بھی کار فرما ہیں۔ ملک اتنے بڑے حادثے سے دو چار ہوگیا مگر ہم نے کوئی سبق حاصل نہیں کیا:
حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا
لوگ ٹہرے نہیں حادثہ دیکھ کر
ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ جو قومیں اپنے ماضی سے سبق حاصل نہیں کرتیں وہ فراموش کر دی جاتی ہیں۔ جبکہ زندہ قومیں اپنے ماضی کو کبھی فراموش نہیں کرتیں بلکہ ماضی کے آئینےمیں اپنا مستقبل بہتر بنانے کے لیے کوشاں رہتی ہیں۔
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہمارے اندر اتحاد کی فضاء پیدا فرمائے، پاکستان میں استحکام عطا فرمائے اور پاکستان کو اسلام کا قلعہ بنائے۔۔ اللہ تعالی شہدائے مشرقی پاکستان کی مغفرت فرمائے ان کی قربانیوں کو قبول کرتے ہوئے انکے درجات بلند فرمائے۔ آمین۔
محمد عامل عثمانی مکہ المکرمہ میں مقیم ہیں صحافت کے میدان میں کئی دہائیوں وابستہ ہیںں ۔ انھوں نے کہا بنگلہ دیش میں لاکھوں نظریہ پاکستان اور پاکستان سے محبت کرنے والے کسمپرسی کی حالت میں زندگی گزاررہے ہیں ، میری تمام اہل وطن خصوصا خلیجی، مغربی ، امریکا اور کینیڈا میں بسنے والے نظریہ پاکستان کے پاسداروں سے التماس ہے کہ وہ متحد ہوکر محصورین کو اس قابل ضرورکردیں کہ وہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہوسکیں۔ا نھوں نے کہا لوگ سانحہ مشرقی پاکستان کوبھولتےجارہے ہیں۔ اس کونصاف میں شامل کیا جائے اور اسباب کا تعین کیا جائے۔
لیئق احمد مسلم ویلفیئر اینڈ ڈیلوپمنٹ آرگنائزیشن پاکستان سے وابستہ ہیں انھوں نے اپنے پیغام میں کہا کہ ہم شہداء مشرقی پاکستان کو سلام پیش کرتے ہیں. ان کے جذبہ حبام الوطنی ہمارے لئے قابل فخر ہیں. اج پھر ہم شہدائے مشرقی پاکستان سے شرمندہ ہیں کہ محصورین پاکستانی کو زندہ درگور ہونے سے نہیں روج سکے. ہماری خودغرضی اور ذمہ داروں کی بےحسی نے انہیں دیدہ عبرت کا نشان بنا دیا ہے. اللہ معاف کرے اور ہدایت دے جو سچ اور صحیح بات بتائیں چاہے وہ تلخ اور کڑوی ہی کیوں نہ ہو. کم از کم روز جینے اور مرنے سے تو بہتر ہوگا. 1971 سے امید و یاس کی سولی پہ لٹکے ہوئے ہیں. اللہ ہی سے امید ہے کہ وہ محصورین پاکستانیوں کے لئے بہتر کرے گا.
انجینئر خالد جاوید مجلس محصورین کے دیرینہ ساتھیوں میں سے ہیں انھوں نے کہا کہ بنگلادیش میں محصورمحب وطن پاکستانی ہیں۔ ہمارے جن بھائیوں نے 1947 میں پاکستان بنانے میں اور پھر 1971 میں پاکستان بچانے کے لئے بے مثال قربانیاں دیں ان سب کو بنگلادیش میں محصور کیمپوں سے فوری طور پر نکال کر پاکستان لاکر آباد کر خصوصا حکومت پاکستان اور عموما پوری مسلمہ پر دیرینہ قرض بھی ہے اور فرض بھی۔
انجینئر ڈاکٹر عبدالعلیم خان پاکستان انجینئرز فورم کے صدر ہیں۔ سقوط ڈھاکا اور یوم شہدائے مشرقی پاکستان پر اپنے خیالات کااظہار کرتےہوئے کہا ہمیں اصلیت پر پردہ نہیں ڈالنا چاہیے۔ہمیں سچائی اور اپنا چاہیے۔ کیوں کہ اصلیت ظاہر ہوکر ہی رہتی ہے۔ انھوں محصور پاکستانیوں کی منتقلی و آبادکاری کے لئے فوری اقدامات ہونے چاہیے۔