پاکستان کو سعودی عرب, متحدہ عرب امارات اور امریکہ کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کیلئے شدید دباؤ کا سامنا ہے۔
پاکستانی عوام کبھی بھی اس دباؤ کے آگے گھٹنے نہیں ٹیک سکتے۔ وہ ہمیشہ فلسطینیوں اور کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی میں کھڑے رہے ہیں اور ان کے اس عزم کو کم کرنے کیلئے جبر کی کوئی بھی مقدار ناکافی ہے۔
کسی ملک کو بھی کسی ایسی ریاست کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کی اسلام آباد کو تجویز نہیں دینی چاہیے جو معصوم خواتین و بچوں کے قتل، ملکیتوں پر جابرانہ قبضے اور ناانصافی کی علامت ہو۔
اسرائیل نے “امن عمل” کو غیر موثر کردیا ہے۔ مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم میں غیرقانونی آبادکاری کو وسعت دی ہے اور کئی عشروں تک فلسطینیوں کو بےگھر کیے رکھا ہے، ظلم و تشدد کا نشانہ بنایا ہوا ہے اور غزہ کی پٹی کو ایک جیل میں تبدیل کردیا ہے۔
در حقیقت ، فلسطین ایک ایسی دنیا میں انصاف اور وقار کے لئے جاری جدوجہد کی علامت ہے جہاں حکومتیں جتنی کمزور ہوتی ہیں اُن پر خارجی حکومتوں کا ظلم و جبر اتنا ہی زیادہ ہوتا ہے۔ اگر پاکستان کشمیر میں بھارتی جارحیت کے خلاف ڈٹ جانے پر پُر عزم ہے تو وہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے دباؤ میں بھی ہرگز نہیں آسکتا۔
پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کو سابقہ حکمرانوں کی طرح امریکہ و دیگر ترقی یافتہ ممالک کے پریشر میں نہیں آنا چاہیے، اگر وہ آئے تو پاکستانی عوام کے ساتھ ساتھ وہ فلسطینیوں اور ہر اُس شخص کے سامنے جوابدہ ہوں گے جو کشمیر اور فلسطین کی آزادی کیلئے اپنی زندگی وقف کربیٹھے ہیں۔
اسلام آباد کو نہ صرف اپنے عوام کے جذبات بلکہ ریاست کے مفادات کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا۔ کئی وجوہات ہیں جس کے تناظر میں اسلام آباد کو اپنے موقف پر ثابت قدمی سے جمے رہنا ہوگا۔ جیسے قطر اور کویت جو اول دن سے اسرائیل کیخلاف مضبوط چٹان بن کر کھڑے ہیں اور ایک انچ بھی نہیں ہٹے ہیں۔
خارجی دباؤ میں گردن جھکا لینے سے پاکستان کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا چاہے وہ اسرائیل یا بھارت سے متعلق ہی کیوں نہ ہو۔ بلکہ یقینی طور پراس کے برعکس ہو گا. اول بات تو یہ ہے کہ یہ سوچنا بھی مضحکہ خیز ہوگا کہ اسرائیل اسلام آباد کو راضی رکھنے کیلئے ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی سے اپنے تعلقات خراب کرے گا۔ دوسری طرف پاکستان مسئلہ کشمیر پر بات کرنے کیلئے اپنا جائز اور اخلاقی حق ہمیشہ کیلئے کھو دیگا اور کشمیریوں کی دی گئیں قربانیوں کو مٹی میں ملادے گا۔