بھارت میں ہندو انتہا پسند تنظیموں کی سرپرست اور کئی دہشت گرد تنظیموں کی پشت پناہی کرنے والی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی اور اس کی مودی سرکار، ملک میں ہندوتوا کی نسل پرستانہ پالیسی کو جاری رکھتے ہوئے اور نفرت پر مبنی اپنے عقائد کے تسلسل میں اعلیٰ نسل کے ہندوؤں کے سوا بھارت میں کسی اقلیت کو جینے کا حق دینے سب سے بڑی مخالف جماعت ہے۔ موجودہ بھارتی سرکار نے اقتدار سنبھالتے ہی اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کو نشانہ بنانا شروع کیا۔ آسام میں صدیوں سے رہایش پذیر 20 لاکھ مسلمانوں کی شہریت کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے انہیں بے وطن کردیا۔ بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ نے اعلان کیا کہ جولوگ اپنی شہریت ثابت نہیں کر سکیں گے انہیں خلیج بنگال میں پھینک دیا جائے گا۔ اس کے علاوہ بھارتی فوج نے ایک سال سے زیادہ عرصہ سے وادی جموں و کشمیر میں کرفیو نافذ کر رکھا ہے۔ 9 لاکھ بھارتی فوج کی موجودگی میں کشمیری عوام کے بنیادی انسانی حقوق معطل ہیں اوروہ اپنے گھروں میں قید ہیں۔ کشمیریوں کو ماورائے عدالت قتل کیا جا رہا ہے اور میڈیا پر پابندیاں عائد ہیں کہ ان کی آوا ز دنیا تک نہ پہنچ سکے۔ اب بھارتی حکومت کسان دشمن زرعی قوانین کے نفاذ سے سکھوں کامعاشی قتل کرنا چاہتی ہے تاکہ خالصتان تحریک کی آواز کو بھی کشمیر کی طرح دبایا جا سکے۔
زرعی اصلاحات کی آڑ میں کسان دشمن قوانین متعارف کرائے جانے پر ملک بھر کےکسان مودی سرکار کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ کسان رہنمائوں نے الزام لگایا ہے کہ بھارتی حکومت یہ ظاہرکر رہی ہے کہ احتجاجی تحریک صرف پنجاب کے کسانوں کی ہے حالاں کہ اس میں ملک بھر کے کسان اور رہنما شامل ہیں۔ ان قوانین کے خلاف یوپی، غازی پور، غازی آباد، ہریانہ اور دہلی میں احتجاج جاری ہے اور اس میں کسانوں کے علاوہ مزدور، تاجر، دکاندار، ٹرانسپورٹرزاور سیاست دان بھی شامل ہیں۔ اس احتجاج کے خلاف ہریانہ دہلی سرحد پر واٹر کینن اور آنسو گیس کے گولے استعمال کیے گئے اورسرحد پر روکےجانے کی وجہ سے کسانوں اور پولیس میں مختلف مقامات پر تصادم بھی ہوئے۔ کسانوں نے مودی حکومت کے ظلم و ستم کے آگے سر جھکانے سے انکار کرتےہوئے کہا کہ ہمارے اوپر ٹینک چڑھا دو یا ہمیں مشین گنوں سے بھون ڈالو، لیکن ہم مطالبات منظور ہونے تک احتجاج ختم نہیں کریں گے۔
کسانوں کی بڑی تعداد پنجاب کے سکھوں پر مشتمل ہے۔ اس لیے بھارتی میڈیا، ہندوتوا کی ہمنوا ئی میں اس کو خالصتانی کسان احتجاج کا نام دے رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ احتجاج اب صرف پنجاب میں خالصتان ہی تک محدود نہیں بلکہ بنگلور، اترپردیش اور جے پور کی طرف بھی بڑھتا چلا جا رہا ہے، اور وقت کے ساتھ اس میں شدت آ رہی ہے جب کہ مظاہروں میں علاحدگی کے نعرے بھی لگائے جا رہے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کے لوگ بھی کسانوں کے ساتھ یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سڑکوں پر آگئے اور کشمیر چھوڑ دو کے نعرے لگا رہے ہیں۔ بھارتی سرکار کی بوکھلاہٹ اس وقت دیدنی تھی جب سکھ رہنما امرجیت سنگھ نے ملک سے باہر احتجاج کے حامیوں اور ذرائع ابلاغ سے مودی حکومت کے خلاف تعاون کی اپیل کی اور اپنے ملک کی سکھ فوج کو تحریکِ خالصتان میں شامل ہونے کی دعوت دے ڈالی۔ اسی طرح ورلڈ سکھ پارلیمنٹ کے رکن رنجیت سنگھ نے کہا کہ بھارت میں مسلمانوں سمیت دیگر اقلیتوں کو نشانہ بنانے پر وہ مودی سرکار کے خلاف اقوام متحدہ میں درخواست جمع کرائیں گے۔ مودی سرکار امرجیت سنگھ اور رنجیت سنگھ کا تو کچھ نہیں بگاڑسکی لیکن سابقہ بھارتی کرکٹر یوراج سنگھ کے والد کو دھمکیاں ضرور دی گئیں۔
مودی سرکار لداخ میں چین سے شکست کھانے اور کشمیری وآسامی مسلمانوں پر مظالم ڈھانےکے سلسلے میں عالمی برادری کے سامنے بدنامی پرذہنی دبائو کا شکار تھی لیکن اب کسان وخالصتان تحریک نے اسے اعصابی تنائو کا شکار بھی کر دیا ہے۔ یہ ان تمام مسائل سے توجہ ہٹانے کےلیے کسی بھی وقت خطے میں قیام امن کی فضا کو خراب کرکے اپنے چہرے پر لگی کالک مٹانے کی ناکام کوشش کر سکتی ہے۔
برطانیہ میں لیبر پارٹی کے سکھ رکن پارلیمان تنمن جیت سنگھ نے کسانوں کے مسئلے کو برطانوی پارلیمان میں اٹھاتے ہوئے وزیر اعظم بورس جانسن سے کہا ہے کہ بھارت میں کسان پرامن احتجاج کر رہے ہیں لیکن بھارتی پولیس ان پر واٹر کینن اور آنسوگیس استعمال کررہی ہے۔ برطانوی وزیر اعظم کو چاہیے کہ اس سلسلے میں بھارتی ویر اعظم سے بات کریں، تاہم وزیراعظم بورس جانسن نےاس معاملے میں انجان بنتے ہوئے خاموشی اختیار کر لی۔ پھر محتاط انداز میں بولے کہ یہ سب تشویشناک ہے لیکن بھارت اور پاکستان کو چاہیے کہ مل کر اس مسئلے کو حل کریں۔ وزیر اعظم کا یہ جواب سن کر تنمن جیت سنگھ کا حیر ت کے مارے برا حال تھا۔ انہوں نے برطانوی وزیراعظم پر تنقید کرتے ہوئے ٹوئٹ کیا کہ کاش وہ اس مسئلے کے بارے میں باخبر ہوتے اور اسے پاک بھارت تنازع کے رنگ میں نہ دیکھتے۔ دیگر سکھ رہنماؤں نے بھی برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن کی غیر حاضر دماغی پر شدید تنقید کی۔ 35 برطانوی ارکان پارلیمان نے تنمن جیت سنگھ کے موقف کی حمایت کرتے ہوئے اس کے ایک خط پر دستخط کیے ہیں۔
کینیڈا کے وزیر دفاع ہرجیت سنگھ نے ٹوئٹر پر لکھا کہ ’’بھارت میں پرامن مظاہرین کے خلاف بے رحمی برتنا پریشان کن ہے۔ میرے حلقے کے کئی لوگوں کو اپنے خاندان اور رشتے داروں کے بارے میں تشویش ہے۔ صحت مند جمہوریت پرامن مظاہروں کی اجازت دیتی ہے۔ میں اس بنیادی حق کی حفاظت کی اپیل کرتا ہوں‘‘۔ کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے بھی بھارتی کسانوں کے احتجاج کے خلاف بھارتی سیکورٹی فورسز کےرویے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان کی حکومت ہمیشہ پرامن مظاہروں کی حمایت کرتی رہے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم مظاہرین کے اہلخانہ اور دوستوں کے لیے فکر مند ہیں اور ہم مذاکرات کی اہمیت پر یقین رکھتے ہیں۔ جسٹن ٹروڈو کے بیان پربھارت کو مغرب کے سامنے سخت ندامت کا سامنا کرنا پڑا اور اپنی خفت مٹانے کے لیے بھارت نے کنیڈا کے سفیر کو طلب کرکے کہا کہ وزیر اعظم جسٹن ٹرودو کا بھارتی کسانوں کے حتجاج کے حوالے سے بیان، بھارت کےاندرونی معاملات میں مداخلت ہے اور اس سے دوطرفہ تعلقات کو شدید نقصان پہنچے گا۔ بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان انوراگ سریواستو نے جسٹن ٹروڈو کے بیان کو غیر ضروری قرار دیا۔
کینیڈا کے سکھوں کے ساتھ یک جہتی کا اظہار کرتے ہوئے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے ابتدا ہی میں بھارتی کسانوں کے حق میں آوا ز اٹھائی تھی جس کے بعد دنیا کے مختلف ممالک میں اس تحریک کی حمایت میں مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا۔ سیکڑوں افراد نے وسطی لندن میں بھارتی ہائی کمیشن کے باہر مظاہرہ کیا تھا، جن کا مطالبہ تھا کہ مودی حکومت دہلی کی سرحدوں پر بیٹھے ہوئے کسانوں کی پریشانیوں کو دیکھے اور ان کے مطالبات پر سنجیدگی سے غور کرے۔ بھارتی ہائی کمیشن کے ایک افسر کے مطابق مظاہرین نے بھارت مخالف نعرے بھی لگائے۔ امریکی شہر سان فرانسسکو میں بھی بھارت نژاد شہریوں نے کسانوں کی حمایت میں ریلی نکالی۔ امریکا میں کئی ارکان کانگریس نے بھی بھارتی کسانوں کی حمایت کا اعلان کیا۔ کانگریس کے رکن ڈاؤ لاملفا نے ایک بیان میں کہا ’’میں بھارت میں پنجابی کسانوں کے احتجاج کے ساتھ یکجہتی میں کھڑا ہوں‘‘۔ ایک اور ری پبلکن رکن کا کہنا تھا کہ کسانوں کو حکومتی پالیسی کے خلاف بلا خوف وخطر پرامن احتجاج کا پورا حق ملنا چاہیے۔ آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور فرانس میں بھی کسانوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا گیا۔
بھارتی پارلیمان نے ستمبر 2020ء میں زراعت کے متعلق 3 بل متعارف کرائے تھے جنہیں فوراً قوانین کی حیثیت دے دی گئی۔ ان میں ایک زرعی پیداوار، تجارت اور کامرس قانون 2020ء ہے، جس میں کسانوں اور تاجروں کو مارکیٹ کے باہر فصلیں فروخت کرنے کی آزادی دی گئی اور اس میں ریاست کے اندر اور 2 ریاستوں کے مابین تجارت کو فروغ دینے کا کہا گیا ہے۔ دوسرا قانون کسان امپاورمنٹ اور پروٹیکشن زرعی سروس قانون 2020ء ہے جس میں زرعی معاہدوں پر قومی فریم ورک مہیا کیا گیا ہے۔ اس قانون میں کاشتکاروں کو زرعی مصنوعات، فارم خدمات، زرعی کاروبار کمپنیوں، پروسیسرز، تھوک فروشوں، بڑے خوردہ فروشوں اور برآمد کنندگان کی فروخت شامل ہونے کا اختیار دیا گیا ہے۔ اور تیسرا قانون ضروری اشیاء کا ترمیمی قانون 2020ء ہے۔ جس کے تحت اناج، دالیں، خوردنی تیل، پیاز، آلو وغیرہ کو اشیائے ضروریہ کی فہرست سے نکالنے کا انتظام کیا گیا ہے۔
وزیراعظم مودی کا دعویٰ ہے کہ ان قوانین سے جو اصلاحات کی جا رہی ہیں وہ زراعت کے شعبے کے لیے ایک اہم موڑ ثابت ہوں گی جبکہ حزب اختلاف نے ان قوانین کو کسان مخالف قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ کسانوں کے لیے موت کا پروانہ ثابت ہوں گے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کا موقف ہے کہ زرعی شعبے میں زیادہ نجی کردار کی اجازت دینے والی اصلاحات سے کسانوں کی آمدن متاثر ہونے کا کوئی خدشہ نہیں اور منڈی کا نظام جاری رہے گا۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ موجودہ امدادی قیمتیں واپس نہیں لیں گے لیکن کسانوں کو اس پر یقین نہیں۔ حکومت کی حلیف جماعت شرومنی اکالی دل سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیر ہرسمرت کور نے ان قوانین کو کسان مخالف بتاتے ہوئے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ دہلی کے وزیر اعلیٰ اور عام آدمی پارٹی کے رہنما اروند کیجریوال نے کہا کہ حکومت کو کسانوں سے غیر مشروط بات کرنی چاہیے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ احتجاج کی وجہ سے حکومت کی طرف سے انہیں گھر سے نکلنے کی اجازت نہیں ہے اور ایک طرح سے انہیں گھر ہی میں نظربند کر دیا گیا ہے۔ اترپردیش کے وزیر اعلیٰ کو بھی کسانوں کی احتجاجی ریلی میں جانے سے روک دیا گیا تھا اور پولیس نے انہیں حراست میں لے لیا۔ وزیر داخلہ امیت شاہ نے کہا کہ مرکزی حکومت کسانوں کے ساتھ بات چیت کرنے کو تیار ہے لیکن پہلے انہیں سنگھو اور ٹیکڑی سرحدوں سے دہلی کے براری میدان میں آنا ہوگا۔
بھارتی حکومت کے ساتھ مذاکرات کے کئی دور ناکام ہونے کے بعد کسانوں نے اس ہڑتال و احتجاج کا اعلان کیا۔ اپوزیشن جماعت کانگریس کے رہنما راہول گاندھی نے کئی ٹویٹس میں یہ پیغام دیا کہ احتجاج کرنا کسانوں کا حق ہے اور کانگریس بھی اس متنازع قانون کی مخالفت، پارلیمان سے سڑکوں تک کر رہی ہے۔ کسانوں کی اس ہڑتال میں 300 کسان تنظیمیں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ اس احتجاج کو بھارت کی 24 مختلف جماعتوں، آل انڈیا موٹر ٹرانسپورٹ کانگریس، سوشل میڈیا اور سمندر پار بھارتیوں کی حمایت بھی حاصل ہے۔ کسانوںکا کہنا ہے کہ ان قوانین کے تحت فصلوں کی خریداری کے لیے ملک بھر میں قائم 7000 منڈیوں کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جس کے باعث انہیں اپنی فصلوں کی معقول قیمت نہیں مل سکے گی۔ اس لیے ان کا مطالبہ ہے کہ ان کی پیداوار کی منافع بخش قیمت کی ضمانت دینے، انہیں بدحالی سےنکالنے اور ان کے قرضے معاف کرنے کے قوانین بنائے جائیں۔
کسان رہنماؤں کا کہنا ہے کہ گزشتہ حکومتوں میں بھی کسان بدحال تھے لیکن اس حکومت میں تو وہ بدترین حالات پر پہنچ گئے ہیں۔ 20 برس میں 3 لاکھ سے زیادہ کسانوں نے خود کشی کی ہے۔ اگر کسی اور ملک میں ایسا ہوتا تو وہ ملک ہل گیا ہوتا لیکن بھارتی حکومتوں پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ حکومت نے کسانوں کی آمدنی 3 برس میں دوگنا کرنے کا وعدہ کیا تھا لیکن وہ وہیں کی وہیں ہے جبکہ پیداور کی لاگت کئی گنا بڑھ چکی ہے۔ سوکھے کی مار، ڈیزل، بیج، کھاد، اور ضروری اشیا کی قیمتوں میں اضافے سے کاشت کاری ایک نقصان دہ سودا بن گئی ہے۔ زیر زمین پانی کی سطح کافی گرچکی ہے، مٹی کی زرخیزی میں بھی کافی کمی آئی ہے۔ موسمی تبدیلیوں کا براہ راست اثر کسانوں پر پڑ ر ہا ہے۔ جب فصل اچھی ہوتی ہے تو قیمتیں گر جاتی ہیں۔ کسان ایک دائمی بدحالی کی گرفت میں ہیں۔
بھارت کے سرکاری اعداد شمار کے مطابق 2014ء میں 5650 کسانوں نے خودکشیاں کیں۔ 2004ء میں یہ تعداد سب سے زیادہ تھی جب 18241 کسانوں نے اپنی جانیں گنوائیں۔ عام طور پر کسان بیجوں اور زرعی آلات، بیٹیوں کی شادی وغیرہ کے لیے بینکوں سے قرضہ لیتے ہیں اور پھر فصلیں خراب ہو جانے کی وجہ سے قرضہ وقت پر واپس نہیں کر پاتے، جس کی وجہ سے وہ ذہنی دبائو اور نفسیاتی مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں اور ذلت کا سامنا نہ کرسکنے کی وجہ سے خودکشی کر لیتے ہیں۔ 2005ء کی ایک تحقیق کے مطابق آندھرا پردیش میں خودکشی کی شرح سب سے زیادہ تھی۔
بھارت میں تقریباً 50 فیصد افراد زراعت سے وابستہ ہیں اور ان میں سے 85 فیصد کسان کافی غریب ہیں، جن کے پاس 5 ایکڑ سے بھی کم زمین ہے۔ ان کے لیے اپنی پیداوار کو فروخت کرنے کے سلسلے میں بڑے خریداروں سے معاملہ طے کرنا مشکل ہوتا ہے۔ ایک ماہر ہرویر سنگھ کا کہنا ہے کہ لوگ فی الحال زراعت کو اپنا کام سمجھ کر کرتے ہیں لیکن جب بڑی کمپنیاں اس کاروبار سے وابستہ ہو جائیں گی تو ان لوگوں کی حیثیت یومیہ مزدور جیسی ہو جائے گی اور یہ بھارت کے سوشل سیکورٹی اور فوڈ سیکورٹی دونوں کے لیے ہلاکت خیز ہوگا۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم ان قوانین کو تاریخی قرار دے رہے ہیں لیکن اس سے قبل انہوں نے کرنسی نوٹوں پر پابندی، جی ایس ٹی اور کورونا لاک ڈائون کو بھی تاریخی قرار دیا تھا اور ان کے بے شمار فوائد گنوائے تھے، تاہم ان سے جو عوام کا حشر ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔